وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ عسکری قیادت نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہمیں کنفرنٹ کیا کہ آپ نظام انصاف کی کمزوری کی وجہ سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر سکے۔
اسلام آباد میں منعقدہ وکلا نمائندہ تنظیموں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہمیں کنفرنٹ کیا گیا کہ آپ نظام انصاف کی کمزوری کی وجہ سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر سکے، ہمارے نوجوان دیتے ہیں، کیا جو وردی میں قربانیاں دیتے ہیں، ان کے اہل خانہ کیا پاکستانی نہیں، کیا ان کی رگوں میں خون نہیں دوڑتا۔
انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت نے کہا کہ سول سائیڈ ہمیں اعداد و شمار کے ساتھ بتا دے کہ آج تک کتنے دہشت گردی کے مقدمے ہوئے ہیں جن میں افواج کے لوگ اور عام شہری شہید ہوئے اور دہشت گردوں کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزائیں ہوئی ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اجلاس کے دوران اس بات پر بھی بحث کی گئی کہ اس ملک کا جو سب سے بڑا مقدمہ تھا ،جس میں محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، اس کیس میں بہت اچھی تفتیش ہوئی، میں اس کا حصہ تھا، اس میں پولیس کی ایک ٹیم کو سزا دے دی گئی۔
وزیر قانون نے کہا کہ اس کیس میں ہوا کیا، جو سہولت کار تھے، دہشت گرد تھے، ان کے بارے میں ڈی این اے شواہد تھے، بالوں کے نمونے میچ ہوئے تھے، جہاں سے یہ وہ جوتے خریدے گئے، وہاں کی فوٹیج تھی، وہ رسیدیں ان کی جیبوں سے نکلیں، کافی چیزیں تھیں، جب فیصلہ ہوا تو یک دم خبر آئی کہ وہ جو سہولت کار ہیں دہشت گرد، انہیں بری کردیا گیا ہے اور وہ ملازمین جو وہاں ڈیوٹی پر تھے، انہیں سزائیں دے دی گئی ہیں، بعد میں پتا چلا کہ جج صاحب کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ کہ یہ بات اجلاس میں کہی گئی کہ راہ حق کے شہیدوں کے ترانے پر آنسو بہانے سے ہمارے زخموں کا خشک ہونا ممکن نہیں ہے، عسکری قیادت نے کہا ملک کے لیے جانیں دینے والوں کے گھر بار نہیں ہوتے؟
وزیر قانون ہمارے ورثا کو تسلی تب ہوگی جب ہمارے جوانوں کے قاتل سولی پر چڑھیں گے، سخت گفتگو تھی لیکن اس کے باوجود سیاسی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے سول سائیڈ پر ڈیل کیا جائے اور اسی وجہ سے اصلی مسودے میں یہ بات شامل کی گئی کہ اگر ان کی تنصیبات اور ان کے اہلکاروں پر حملے ہوتے ہیں تو اس حد تک ان مقدمات کو فوجی عدالتیں دیکھ سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مشکور ہوں کہ انہوں نے موقع دیا، فروری کے آخر میں پیپلز پارٹی سے قانون سازی سے متعلق مذاکرات کیے، میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھا، پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالتی ریفارمز کا مطالبہ سامنے آیا۔