ناصر جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی کے ہاتھ میں بجلی کا بل ہےاور وہ سر پکڑے بیٹھی ہے، یہ سین ناصر کے لیے نیا نہیں تھا ، مسائل کا ایک انبار ہےجن کا سامنا انھیں ہر روز کرنا پڑتاہے۔ناصر اور ناہید دو سال قبل بہتر ذندگی کی آس میں اپنے گاوں کو چھوڑ کر اسلام آباد شفٹ ہو گئے تھے ، اب ان کا ایک 6 ماہ کا بیٹا بھی ہے۔ ناہید مختلف گھروں میں کام کرکہ ہر ماہ 15,000 روپے کماتی ہے۔ جبکہ ناصردہاڑی پر مزدور ی کرتا ہے ۔ کبھی کبھار اسے کام نہیں بھی ملتا اوروہ بغیر پیسے کمائے گھر آ جاتا ہے۔ ان کے گھرمیں ایک کمرا ،ایک باتھ روم اور ایک چھوٹا سا دالان ہے ، جس کا کرایہ 8000روپےماہانہ ہے ۔ اگرچہ کہ وہ صرف ایک پنکھا استعمال کرتے ہیں، لیکن اکثر ان کا بجلی کا بل 7,000 روپے تک پہنچ جاتا ہے۔
بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انھیں اکثر قرض بھی لینا پڑتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اتنی محنت کے بعد بھی ذندگی میں ایک پل سکھ کا نصیب نہیں ہے ، انسان جائے توکہاں؟ذندگی ایک جہد مسلسل ہے کی بنیاد پر یہ لوگ اپنے اخراجات کو پورا کرنےکے لیے ہر روز جدوجہد کرتے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے تو جیسے ان کی کمر ہی توڑ دی ہے۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کاسامنا پاکستان کی اکثریت کر رہی ہے۔
جہاں ناہید جیسے خاندان زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہیں پاکستان کا متوسط طبقہ بھی کوئی سکون میں نہیں ہے۔متوسط طبقے کے لیے اس مہنگائی کا سامنا کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا غریب طبقے کو کرنا پڑ رہا ہے ۔ متوسط خاندانوں کو اپنا معیار زندگی برقرار رکھنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ تاہے۔ انہیں مہنگے یوٹیلیٹی بلوں کا سامناہے، اپنے بچوں کے لیے مہنگی تعلیم کا خرچہ اٹھانا پڑتا ہے، اور دنیا کے سامنے سفید پوشی سے جینا پڑتا ہے، جب کہ مہنگائی بڑھنے کے ساتھ نہ تو ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور بعض لوگوں کو تو کم آمدنی پر بھی نوکریاں کرنی پڑتی ہے ، فرائض جو پورے کرنے ہیں ۔یہ معاشرے میں ایک شدید تناو کی صورت ہے ، مہنگائی اس اونٹ کی صورت اختیار کر گئی ہے جو کسی کل سکون سے نہیں بیٹھتا۔
ہم سخت معاشی بحران کا سامنا تو کر رہے ہیں لیکن جب ہم سڑکوں پر نکلتے ہیں تو اسی ملک میں سڑکوں پر لگژری کاروں اور بڑی گاڑیوں کی بھرمار نظر آتی ہے تو یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آخر ہمارا اونچا طبقہ کس طرح اپنے معاشی حالات کو متواذن رکھتا ہے؟ بلکہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔ دولت مندطبقے اور باقی آبادی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پاکستان میں دولت کی غیر مساوی تقسیم کو نمایاں کرتی ہے۔دراصل ہمارا دولت مند طبقہ آمدنی کے متعدد ذرائع کو استعمال کرتا ہےجیسے کاروبار، جائیدادیں اور سرمایہ کاری ،جو ان کی ترقی کی راہ کو مزیدہموارکرتے ہیں۔
ذاتی استحکام اور ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے پیسہ کمانا کوئی بری بات تو نہیں ۔۔۔۔۔ تاہم،پیسہ کمانا بھی ایک مہارت ہے جس کے لیے ہر ایک کومساوی مواقع ملنےچاہیئیں، نہ کہ صرف اسے دولت مندوں کی میراث بنا دیا جائے۔ اگر لوگوں کو صحیح طریقے سے گائیڈ کیا جائے اور اچھی آمدنی حاصل کرنے کے لیے ہنر فراہم کیے جائیں، تو زیادہ سے ذیادہ افراد اپنی زندگیوں کو بہتر بناتے ہوئے معیشت میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔
ایک شعبہ جہاں محنت کی جانی چاہیے وہ ہے تعلیمی ادارے۔ ہمارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسیں تو آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ، ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر ان اداروں کی فیسیں جمع کرتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کو ان تکالیف کا سامنا نہ کرنا پڑے جن کا سامنا انھوں نے کیا لیکن ان تعلیمی ادروں میں بچوں کو ترقی یافتہ ممالک جانے کے لیے تیار کیا جاتا ہےیا نوکری کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے، کہیں یہ نہیں سکھایا جاتا کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں اپنی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے اپنا کاروبار شروع کریں ، کاروبار شروع کریں گے تو مزید نوکریاں پیدا کر سکیں گے ، اسی طرح معاشرے ترقی کرتے ہیں ، ہمارے یہاں تو بس نوجوانوں کا مستقبل امریکہ ، یورپ بنا دیا جاتا ہے چاہے اس نوجوان کے والدین سب کچھ لٹا کر بھی خالی ہاتھ رہ جائیں ، یہ کونسا انصاف ہے؟ ملک میں نوکریاں ہیں نہیں گریجویٹس کو ڈگریوں کے باوجود روزگار تلاش کرنے میں شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسرا راستہ ان کے پاس پھر اپنے والدین کو چھوڑ کر باہر ملک جانے کا رہ جاتا ہے۔ اگر عملی کاروباری مہارتوں اور انٹرپرینیورشپ(entrepreneurship) پر توجہ دی جائے تو طلباء کے پاس ایسے مواقع پیدا ہوں گے جن سے معیشت کو بہتر بنانے میں مددحاصل ہو گی۔
کینیا کو اکثر ایک قابل ذکر مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جہاں نوجوانوں کی انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے کے مضبوط اقدامات نے اس کی معیشت کو نمایاں طور پر سپورٹ کیا ہے، خاص طور پران کے ٹیکنالوجی سیکٹر میں، روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے اقتصادی ترقی کو بوسٹ ملا ہےاس کے علاوہ روانڈابھی اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ روانڈا میں قومی سطح پر نوجوانوں کو کاروباری تربیت اور معاونت کی جاتی ہے۔انھیں YouthKonnect جیسے پروگراموں میں سرمایہ کاری کے ذریعے بااختیار بنایا جاتاہے۔ کاروبار کی ابتدا اور چھوٹے کاروباروں پر اس توجہ نے روانڈا کی معیشت کو ترقی اور بحالی میں بہت مدد فراہم کی ہے۔
پاکستان میں بھی اس طرح کے پروگرامز شروع کیے جا سکتے ہیں ۔ حکومت بزنس اور انٹرپرینیورشپ پروگرام متعارف کرانے کے لیے یونیورسٹیزکے ساتھ شراکت کر سکتی ہے۔ حکومت اوربڑی کاروباری کمپنیاں طلباء کو ان کی پڑھائی جاری رکھتے ہوئے، چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں مدد کے لیے فنڈنگ، قرضے اورگرانٹس بھی پیش کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو سرمایہ کاروں سے جڑنے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کریں تاکہ جدت اور ترقی کو مزید فروغ مل سکے۔
جدت اور خود انحصاری کو فروغ دینے والی تعلیم میں سرمایہ کاری کرکے، پاکستان ایک ایسا مستقبل بنا سکتا ہے جہاں لوگ صرف ملازمتوں پر انحصار نہ کریں بلکہ اپنے لیے مواقع پیدا کریں۔ اس طرح سےبہترطریقےکے ذریعے افراد کو بااختیار بنانے سے نہ صرف عام عوام کی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی بلکہ معیشت کو بھی تقویت ملے گی۔