تبدیلی کیسے آئے گی؟

تبدیلی کی خواہش فطری ہے،اگر حالات اس کے متقاضی ہوں۔اگر یہ خواہش ایک قابلِ ذکر طبقے میں پیدا ہو جائے توپورے معاشرے کومضطرب کر سکتی ہے۔تبدیلی ہمیشہ سماجی عوامل کے تابع ہو تی ہے ۔یہ اگر سازگار نہ ہوں تو تبدیلی کے لیے لازم ہے کہ انہیں سازگار بنایا جا ئے۔ بصورتِ دیگر ایسی خواہشا ت سر ِ راہ دم توڑ دیتی ہیں اور کبھی منزل کا سراغ نہیں ملتا۔پھر عمرِ رائگاں کے ماتم کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔

اس باب میں ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ سیاسی قیادت کی تبدیلی سے معاشرہ تبدیل ہو جا تا ہے۔ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال مو جود نہیں۔ میں لیکن اس وقت اس مقدمے سے دانستہ صرفِ نظر کرتے ہوئے،صرف اس سوال کو زیرِ بحث لا رہا ہوں کہ آج پاکستان میں سیاسی تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟سیاسی تبدیلی کا مطلب ہے اقتدار کی مسند پر بیٹھے لوگوںکو اٹھا کر، کسی اور کو یہاں بٹھادیا جائے۔ یہ کیسے ہوگا؟اس کی دو ممکنہ صورتیں ہیں۔ایک یہ کہ برسرِ اقتدار گروہ رضاکارانہ طور پر مسندِ اقتدار چھوڑنے پر تیار ہو جائے۔دوسری صورت یہ ہے کہ اسے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے۔

پہلی صورت کا تو کوئی امکان نہیں۔برسرِ اقتدار گروہ کا ایک بیانیہ ہے اور اسے عوام کے ایک طبقے کی تائید بھی میسر ہے۔اس کے ساتھ بالفعل اس کی حکومت قائم ہے۔یہ اس کی طاقت ہے اوروہ اس کی بنیاد پر اقتدار میں رہنا چاہتا ہے۔یہاں یہ بحث بے معنی ہے کہ برسرِ اقتدار گروہ اس کا اخلاقی جواز رکھتا ہے یا نہیں۔اسے امرِ واقع کے طور پر قبول کرتے ہوئے حکمتِ عملی طے کرنا ہوگی۔ جب وہ رضا کارانہ طور پراقتدارسےالگ نہیں ہو رہا تو پھر دوسری صورت ہی باقی ہے اور وہ یہ کہ اسے اقتدار چھوڑ نے پر مجبور کر دیا جائے۔اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اس نظامِ حکومت کو معطل کر دیا جائے۔اس کی اقتصادی شہ رگ کاٹ دی جائے۔اس کے اداروں کو غیر موثر بنا دیا جائے۔صوبائی حکومتیں مرکز کی اطاعت سے انکار کر دیں۔ آخری اقدام کے طور پر عوام کی ایک بڑی تعداد گھروں سے نکلے اور دارا لحکومت میں جمع ہو کر اسے عملاً مفلوج کر دے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ایک گروہ ہتھیار اٹھالے۔ قومی سلامتی کے اداروں اور عوام کو اپنے ہتھیاروں کانشانہ بنائے۔معاشرے میں قتل و غارت گری ہو اور پھر وہ دارالحکومت پر قابض ہو جائے۔

اس وقت پاکستان میں تبدیلی کی علم بردار قوتیں ان دونوں صورتوں پر کام کر رہی ہیں۔ دوسری صورت پر ہم فی الحال گفتگو نہیں کرتے۔ اس پر بہت بات ہو چکی اور اب کم وبیش اجماع ہو چکا کہ اس کا نتیجہ سوائے ہلاکت کے کچھ نہیں۔ہم اس نتیجے تک اس وجہ سے نہیں پہنچے کہ اس گروہ کا نقطہ نظر غلط ہے۔ہم نے یہ نتیجہ اس لیے نکالا کہ اس حکمتِ عملی میں خلا ہے۔ مسلح تصادم میں خون بہتا ہے اور نتیجے میں بہت سی انسانی جانیں اس کی نذر ہو جا تی ہیں۔ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ریاست جب مزاحم ہو گی تو وہی غالب آئے گی کہ اس کے پاس اسلحہ بھی زیادہ ہے اور تربیت یافتہ فوج بھی ہے۔

پہلی صورت غیر آئینی ہے۔کسی کے نزدیک اس کا اگر اخلاقی جواز ہو،تو بھی آئین میں اس کی گنجائش نہیں۔عدالت کبھی کس کو ایسے احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ اس نے آج تک دی ہے۔ اس سارے معاملے میں حکومت اور ریاست کا فرق ہے جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔عدالت حکومت کے خلاف ایک فیصلہ دے سکتی ہے ، ریاست کے خلاف نہیں۔سول نافرمانی ریاست کے خلاف اقدام ہے۔ٹیکس ریاست کو دیا جاتا ہے حکومت کو نہیں۔آئینی طور پر ٹیکس کی ادائیگی سے انکار جرم ہے۔اسی طرح قانون سرکاری مشینری کو مفلوج کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔اس لیے ایک آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے پہلی صورت بھی قابل ِ عمل نہیں۔ ایک نظام ِ اجتماعی کے ہوتے ہوئے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اسے اکھاڑ پھینکنا چاہے اور وہ مزاحمت نہ کرے۔جب مزاحمت ہو گی تو اس کے نتیجے میں خون بہے گا۔عام طور پر ایسی صورت میں ریاست ہی غالب رہتی ہے۔

یہ انقلابی جد وجہدکی حکمتِ عملی ہے جو کسی آئینی دائرے کی پابند نہیں ۔انقلاب تو آتا ہی موجود نظام کو بر باد کرنے کے لیے ہے۔ اس کے لیے پہلا مرحلہ انارکی ہے۔انارکی یہ ہے کہ حکومتی نظم مفلوج ہو جائے۔اگر پاکستان میں انارکی آتی ہے تو بین الا قوامی قوتیں بلا تاخیر مداخلت کریں گی کیو نکہ ایک نیوکلیئر قوت کو دنیا ایک دن کے لیے بھی کسی نظم کے بغیر نہیں رہنے دے گی۔بالخصوص جب مسلح گروہ بھی ملک میں موجود ہوں اور نظمِ حکومت کے درپے ہوں۔

کیا ان نتائج سے بچتے ہوئے بھی تبدیلی کا کوئی کائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے ؟اس کا جواب اثبات میں ہے۔یہ آئینی حدود میں سیاسی جدوجہد ہے۔اگر کوئی اس سیاسی نظم کو تبدیل کر نا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ ریاستی و حکومتی جبر کو صبر کے ساتھ براشت کرنا اور رائے عامہ کو ہم نوا بنا نا ہے۔ آج ریاستی جبرماضی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جیلوں میں جو سہولتیں آج میسر ہیں،ماضی میں نہیں تھیں۔آج اس سے زیادہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کو گرفتار کر لیا جائے۔اگر اس سے بڑھ کر کچھ ہو ،توبھی صبر سے بہتر حکمتِ عملی کوئی نہیں۔

اس جدوجہد کا دورانیہ تین ساڑھے تین برس سے زیادہ نہیں ہوگاکیونکہ اس کے بعد الیکشن لازم ہو جائیں گے۔اگر عوام تبدیلی کے حق میں ہیں توالیکشن سے تبدیلی آ جائے گی۔ تین سال زیادہ نہیں ہیں۔یہ تو تبدیلی کے خواہش مندوں کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہیں اگر انسانی جان اور مال کو خطرات میں ڈالے بغیر، محض تین سال میں تبدیلی ممکن ہو جائے۔وہ اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ تبدیلی کی جد وجہد خلا میں نہیں ہو گی۔ وہ کسی نظام میں رہتے ہوئے ہوگی۔ایک نظام کو جب آپ اکھاڑنے کی کوشش کریں گے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ مزاحم نہ ہو ؟یہ سیاسی قیادت کی حکمت کا امتحان ہے کہ وہ انسانی جان و مال کو محفوظ بناتے ہوئے ،تبدیلی کو ممکن بنائے۔ ہاں، اگر آپ انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں تو پھردوسری بات ہے۔پھر گفتگو آئین کے دائرے میں نہیں ہو گی کہ انقلاب کسی آئین کا پابند نہیں ہو تا۔اس بارے میں سوچتے ہوئے اس بات کو نظر انداز نہیں کر نا چاہیے کہ دنیا میں انقلاب کا دور ختم ہو گیا۔جمہوریت میں صرف پُرامن جد وجہد ہی کا راستہ کھلا ہے۔

آج تبدیلی کے علم برداروں کے لیے صرف ایک ممکنہ راستہ ہے۔وہ اگلے انتخابات کا انتظار کریں ۔انہیں شفاف بنانے کے لیے حکومت سے معاملہ کریں۔ اس دوران میں رائے عامہ کو اپنے حق میں بیدار کریں۔اگر وہ یہ کام سچ بول کر کریں گے تو ان کی اخلاقی قوت میں اضافہ ہوگا۔ بصورتِ دیگر بھی یہی راستہ ہے۔اس کے علاوہ جو راستہ اختیار کیا جائے گا،اس کا انجام بخیر نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ الیکشن سے بھی صرف یہ ہو گا کہ کسی کے لیے غیر پسندیدہ لوگ مسندِ اقتدارسے اتر جائیں اور ان کی پسند کے لوگ اسے سنبھال لیں۔ پُرامن سیاسی تبدیلی سے یہ ضرورہوگا کہ سماجی سطح پرمزید انتشار پیدا نہیں ہو گا۔رہی سماج تبدیلی تو وہ سیاسی تبدیلی سے پہلے کبھی آئی ہے اور نہ اب آئے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے