تین چارہ گر (مکمل کالم )

فیض صاحب کا کیا اچھا شعر ہے:

ہر چارہ گر کو چارہ گری کے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے

اِس وقت چارہ گر تین ہیں:نوازشریف صاحب۔آصف زرداری صاحب اورعمران خان صاحب۔ تینوں چارہ گری کرتے دکھائی نہیں دیتے ۔ ان کا گریز قابلِ فہم تو ہے ،قابلِ قبول نہیں۔قابلِ فہم اس لیے ہے کہ تینوں اپنے اپنے گروہی ور ذاتی مفادات کے تناظر میں سوچ رہے ہیں۔یہ سوچ جس حکمتِ عملی کی طرف راہنمائی کرتی ہے،وہ اس پر کاربند ہیں۔قابلِ قبول اس لیے نہیں کہ قوم انہیں گروہی اور شخصی مفادات سے بلندتر دیکھنا چاہتی ہے۔اگر وہ ان کے اسیر رہے تو تاریخ کی عدالت میں سرخرو نہ ہوسکیں گے۔

نوازشریف صاحب کی سیاست پر اس وقت حجاب ہیں۔ان کے عزائم سے کوئی باخبر نہیں۔ بظاہران کی دلچسپی پنجاب اوراپنی بیٹی کی سیاست تک محدود ہو گئی ہے۔اُن کا سیاسی مقام و مرتبہ ان سے کہیں بڑے کردار کا تقاضا کر تا ہے۔وہ آج کے سب سے زیادہ تجربہ کاراورمتین سیاست دان ہیں۔ 2014میں وہ پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف ایک محاذ اور ایک حکمتِ عملی پر کامیابی کے ساتھ جمع کر چکے ہیں۔ ان کا شمار ملک کے مقبول ترین راہنماؤں میں ہوتا ہے۔نون لیگ سے باہر بھی ان کا احترام پایاجاتا ہے۔وہ اگر اختر مینگل صاحب یامولانا فضل الرحمٰن صاحب سے ملک کو درپیش بحران کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں کہ اسے سنا نہ جائے۔ملک کے تمام صوبوں میں ان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔

آصف زرداری صاحب اس وقت ایک اہم منصب پر ہیں۔انہوں نے سندھ کو وفاق سے جوڑے رکھنے میں اہم کردار ادا کیاہے۔وہ بھی ایک قومی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بطور صدرِ مملکت انہوں نے اپنے پہلے دور میں، چھوٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان کے بارے میں جو نقطہ نظر اختیارکیا، اس کو پزیرائی ملی۔ان کا معاملہ بھی یہ ہے کہ وہ کسی سے بات کرنا چاہیں تو وہ انکار نہیں کرے گا۔وہ جس منصب پر ہیں،اس کا اپنا احترام ہے۔نوازشریف صاحب کی طرح وہ بھی سخت بات کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ان کا یہ مزاج انہیں دوسروں کے لیے قابلِ قبول بناتا ہے۔آج انہوں نے خود کو پیپلزپارٹی اور سندھ تک محدود کر دیا ہے جو کسی طوران کے شایانِ شان نہیں۔

عمران خان صاحب بھی ایک مقبول راہنما ہیں۔نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان سے محبت کرتی ہے۔انہیں جو سیاسی عصبیت حاصل ہو چکی،اس کی وجہ سے انہیں نظر انداز کرنا آسان نہیں۔اس سے ان کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مزاجاً کسی ایسی اجتماعیت کا حصہ نہیں بن سکتے جس میں ان کی حیثیت ثانوی یا دوسروں کے مساوی ہو۔نرگسیت نے انہیں اپنی ذات کا قیدی بنا دیا ہے۔ان کی تمام زندگی گواہ ہے کہ ان کے لیے کل کائنات صرف ان کی ذات ہے۔اسی وجہ سے بطور وزیر اعظم وہ کسی کو ساتھ لے کر چل سکے اور نہ آج اس کے قائل ہیں۔

اگر نوازشریف صاحب اورآصف زرداری صاحب گروہی مفادات اورعمران خان صاحب ذات کے اسیر رہتے ہیں تووہ درپیش بحران میں وہ کردار ادا نہیں کر سکیں گے جو انہیں کرنا چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے بطور چیف ایگزیکٹو جو ذمہ داری اٹھائی ہے،اسے خوش اسلوبی سے نبہا رہے ہیں۔ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک کی معیشت کو ایک بار پھر ہموار راستے پر ڈالنا تھا۔وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔اس حوالے سےان کی سنجید گی پرانگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔کوئی ان پر تساہل یا غیرذمہ داری کا الزام نہیں لگا سکتا۔ان کی محنت کا اعتراف اب ان کے مخالفین کو بھی ہے۔مسئلہ ان تین چارہ گروں کے ساتھ ہے جنہیں اس وقت سیاسی عصبیت حاصل ہے۔اگر وہ کوئی پیش قدمی نہیں کرتے تو پھرملک کو درپیش مسئلے کا کوئی پائیدار حل نہیں نکل سکتا۔

ماضی میں اہلِ سیاست کے علاوہ صحافی اور علما بھی بحرانوں میں اہم کر دارا دا کرتے رہے ہیں۔مجید نظامی صاحب زندہ تھے تو انہیں یہ مقام حاصل تھا کہ کوئی سیاسی راہنما ان کی بات کو ٹال نہیں سکتا تھا۔علما میں مولانا ظفر احمدانصاری مرحوم کو سب احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ بزم ہائے سیاست اور مجالسِ علم اب ایسے لوگوں سے خالی ہوچکیں۔محترم مجیب الرحمٰن شامی صاحب اور مفتی تقی عثمانی صاحب کرادرادا کرسکتے ہیں لیکن انہیں بھی چارہ گری سے گریز ہے۔اصل ذمہ داری مگر اہلِ سیاست ہی کی ہے۔سیاست دان بحرانوں میں قوم کو جمع کرتے ہیں ۔

میرے نزدیک تین چارہ گروں میں نواز شریف صاحب اورآصف زرداری صاحب کا کردار زیادہ اہم ہے۔اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک یہ ہے کہ وہ اقتدار میں ہیں۔جو اقتدار میں ہوتا ہے،وہ کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔اس کی یہ حیثیت متقاضی ہے کہ اس کا ظرف بڑا ہو ۔اگر یہ دونوں کسی بات پر متفق ہو جائیں تو عمران خان صاحب کوقومی سیاست کا حصہ بنانے کے لیے پیش قدمی کر سکتے ہیں۔اگر عمران خان اس کا مثبت جواب نہ دیں توپھر اِن سے گلہ نہیں رہے گا۔دوسری وجہ یہ ہے کہ دونوں زیادہ تجربہ کار اور سیاسی مزاج رکھتے ہیں۔انہیں اندازہ ہے کہ سیاست بقائے باہمی کا تقاضا کرتی ہے اور اس کے لیے گروہی مفادات سے بلند ہو نا پڑتا ہے۔یہ جانتے ہیں کہ سیاست مصالحت اور مفاہمت کا نام ہے۔

عمران خان صاحب کو بھی اس بات کا ادارک کرنا ہوگا کہ انہوں نے ریاست کو اپنا حریف بنا لیا ہے جس میں ان کے مزاج کے ساتھ،ان کی جماعت کے ناتراشیدہ سیاسی مہم جووں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔اہلِ سیاست کے ساتھ مخاصمت پہلے ہی عروج پر تھی۔انہیں سمجھنا ہو گا کہ معاملہ ریاست کے ساتھ ہو تو پھر تصادم میں ہمیشہ نقصان ہو تا ہے۔سیاست راستہ نکالنے کا نام ہے اور اس کے لیے اہلِ سیاست کے ساتھ ہم قدم ہو نا پڑتا ہے۔ان کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔اس وقت وہ ریاست اور اہلِ سیاست دونوں سے برسرِ پیکار ہیں ۔اس طرزِ عمل کو حکیمانہ نہیں کہا جا سکتا۔اسے اصولی قراردینا بھی مشکل ہے کہ اقتدار کی سیاست کبھی اس کی متحمل نہیں رہی۔پہلی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے لیے اگر وہ ریاستی اداروں کے ساتھ معاونت، مصالحت اور مفاہمت کا رویہ اختیار کر سکتے ہیں تو دوسری بار کیوں نہیں؟

میری تجویز ہےکہ پہلے مرحلے میں نوازشریف صاحب اور آصف زرداری صاحب کی ملاقات ہو ۔دوسرے مرحلے میں مولانا فضل ا لرحمٰن اوردوسری قومی جماعتوں کو شریک مشاورت کیا جائے۔تیسرے مرحلے میں یہ لوگ بلوچستان کی سیاسی قیادت سے ملیں۔اسی طرح عمران خان صاحب سے بھی رابطہ کیا جائے۔ان ملاقاتوں کا ایجنڈا ایک ہو اور یہ ملک کو دہشت گردی اور عدم استحکام سے نجات دلاناہے۔آخری مرحلے میں ایک متفقہ لائحہ عمل کے لیے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس کے لیے موزوں جگہ ایوانِ صدر ہے۔ان مراحل کے درمیان زیادہ وقفہ نہیں ہو نا چاہیے۔ اہلِ سیاست جب مل بیٹھیں گے تو مسائل کا سیاسی حل نکلے گا۔ جو اس سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنے گا،وہ قوم کے سامنے اپنا وقار کھو دے گا۔

میں اس بات کو دھراتا ہوں کہ اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری نوازشریف صاحب اور آصف زرداری صاحب کی ہے۔ان کو گروہی سیاست سے بلند تر ہو کر قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد کرنااور ملکی سیاست میں استحکام لا نا ہو گا ۔آج وہی چارہ گر ہیں۔سچ یہ ہے کہ چارہ گروں کو گریز نہ ہو توقوم کادکھ لادوا نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے