اقوام متحدہ کا کھیل تمام ہو چکا؟

اقوم متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے جو بات کی ہے ، وہی اصل بات ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی اس پر عمل کرنے کا کسی کے لیے بھی دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا اسی طرف جا رہی کہ وہ بہت جلد یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گی کہ اقوام متحدہ میں بیٹھنے کی افادیت کیا ہے؟

غزہ میں ساٹھ ہزار کے قریب لوگ جان سے گزر گئے ہیں اور اقوام متحدہ کسی بے بس اور لاچار سے انسان کی طرح کونے میں کھڑی دہائیاں دیئے جا رہی ہے۔ عالم یہ ہے کہ خود اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ بے بس ہے۔

معاملہ کسی کمزور کے ساتھ ہو تو اقوام متحدہ ایک طاقت ور ادارہ ہے لیکن جب معاملہ طاقت ور ممالک کے ساتھ در پیش ہو جائے تو اقوام متحدہ کے پاس کوئی قوت نافذہ نہیں رہتی۔ اس کی بے بسی دنیا دیکھتی ہے۔

انٹرنیشنل لا غزہ میں دفن ہو چکا ہے ۔ اقوام متحدہ کا چارٹر ، اس کی قراردادیں ، اس کے ضابطے سب پامال ہو چکے۔دنیا اس سارے عمل سے لاتعلق کھڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ لیگ آف نیشنز کی طرح کیا اقوام متحدہ بھی اپنی طبعی عمر مکمل کر چکی ہے۔ کیا اس سے نجات اور اس کے کسی با معنی متبادل کی تلاش ناگزیر ہو چکی ہے اور کیا اب وہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک نئے عالمی نظام کے قیام پر غوروفکر شروع کر دے؟
اقوام متحدہ کی سب سے بڑی خرابی اس کی تعمیر میں مضمر ہے۔ بظاہر یہ اقوام عالم کا مشترکہ فورم ہے، جہاں تمام ریاستیں برابر ہیں لیکن عملاً یہ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین کا بندوبست ہے جہاں جارج آرویل کے ’اینیمل فارم‘ کی طرح کچھ اقوام کچھ زیادہ برابر ہیں۔

جب یہ ادارہ قائم ہوا اس وقت دنیا کی یہ شکل ہی نہیں تھی جو اس وقت ہے۔ بہت سارے ممالک اس کے بہت بعد میں وجود میں آئے۔یہی خرابی لیگ آف نیشنز میں بھی تھی۔ بظاہر وہ بھی بین الاقوامی ادارہ تھا لیکن سامنے کی حقیقت یہ تھی کہ وہ بھی پہلی عالمی جنگ کے فاتحین کا قائم کردہ بندوبست تھا۔اسی وجہ سے سے لیگ آف نیشنز بھی ناکام ہوئی اور یہی وہ خرابی ہے جس نے اقوام متحدہ کو بھی لاچار اور بے بس کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کی ساخت میں ہی مسائل ہیں۔ یہ اس قابل ہی نہیں کہ یہ دنیا میں امن اور انصاف کو یقینی بنا سکے۔ یہ صرف اس قابل ہے کہ دوسری جنگ عظیم کی فاتح قوتیں کسی کا ناطقہ بند کرنا چاہیں تو ان کا مددگار بن جائے۔

اقوام متحدہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ادارہ انصاف اور برابری کے اصول پر نہیں کھڑا بلکہ یہ کنگ الفریڈ کے قدیم انگلستان کی طرح جاگیردارانہ خطوط پر استوار ہے۔قوام متحدہ نے دنیا کو پانچ بڑے جاگیرداروں میں تقسیم کر رکھا ہے اور انہیں ویٹو پاور دے رکھی ہے۔یہ پانچ بڑے جاگیردار اس بندو بست کے حقیقی بیننیفشری ہیں۔

مزید یہ کہ ان کی اکثریت یا امریکہ جیسا کوئی اکیلا تگڑا ملک کسی اور ملک پر ہاتھ رکھ دے تو اس کے مقابلے میں ساری اقوام متحدہ بے بس ہو جاتی ہے۔ پانچ چودھری ہیں جن میں سے ایک سب سے بڑا چودھری۔ باقی سب درجہ بہ درجہ ان چودھریوں کے گماشتے ہیں۔

یہ بات بالکل غلط ہے کہ اقوام متحدہ میں سب برابر ہیں۔ جنرل اسمبلی میں اقوال زریں کی حد تک ساری اقوام برابر ہیں لیکن سلامتی کونسل میں جہاں عملی اقدامات لینے ہوتے ہیں وہاں سب برابر نہیں ہیں۔ وہاں پانچ عالمی جاگیردار ضرورت سے زیادہ برابر ہیں اور باقی کی دنیا ان کے مزارعین پر مشتمل ہے۔

اقوام متحدہ کا امن اور انصاف کا تصور یہ نہیں ہے کہ دنیا میں ایک عادلانہ نظام قائم ہو بلکہ اس کا امن اور انصاف کا تصور یہ ہے کہ ان پانچ عالمی جاگیرداروں میں سے کوئی خفا نہ ہو۔ یہ پانچ قوتیں باہم ٹکرا نہ جائیں، اس کا نام عالمی امن اور سلامتی ہے۔

باقی کی دنیا چاہے خون میں نہا جائے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔

چنانچہ کسی بھی ملک کے خلاف اس وقت تک طاقت استعمال نہیں کی جا سکتی جب تک یہ پانچوں ملک متفق نہ ہو جائیں۔ ان میں سے کوئی ایک ملک بھی ویٹو کر دے تو پھر چاہے ساری دنیا ایک طرف ہو، پھر چاہے فلسطین میں نسل کشی ہوتی رہے اور چاہے جنرل اسمبلی بار بار قراردادیں لاتی رہے، سلامتی کونسل طاقت استعمال نہیں کر سکتی۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ قانون کی عمل داری سے محروم قدیم جاگیردار معاشروں کی طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ کسی بھی کمزور اور محکوم ملک کے لیے اقوام متحدہ اور اس کا قانون سہارا نہیں بن سکتا۔ ریاستوں کے لیے امان اب اسی میں ہے کہ وہ ان پانچ عالمی جاگیرداروں میں سے کسی ایک کی سرپرستی میں آ جائیں۔ ویٹو پاور کا حامل ملک پشت پر کھڑا ہو تو اقوام متحدہ اور عالمی قانون آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

مسلم دنیا کے پاس ویٹو پاور نہیں ہے۔ چونکہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں مسلمان دنیا شکست خوردہ تھی، اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم دنیا کو ویٹو سے محروم رکھنا محض اتفاق ہے یا اس میں کچھ اہتمام بھی شامل ہے؟

اپنی بنیادی ساخت کی اس کمزوری کو، اقوام متحدہ اپنے طرز عمل سے دور کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ عراق جیسے ملک سے معاملہ ہو تو اقوام متحدہ کی دو قراردادوں کی پامالی پر اسے روند دیا جاتا ہے اور اسرائیل جیسے ملک سے واسطہ پڑ جائے تو جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی ڈھیروں قراردادوں کی پامالی کے باوجود اسرائیل کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا اور اقوام متحدہ کا سیکٹریری جنرل بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔

اسی طرح خود اقوامِ مغرب کا طرز عمل بھی یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ضابطوں کو صرف وہاں خاطر میں لاتے ہیں جہاں ان کے مفاد کا تقاضا ہو۔ جہاں ان کا مفاد کسی اور چیز کا تقاضا کرے، یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے ضابطوں کو پامال کر دیتے ہیں بلکہ یہ متبادل راستے بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ سلامتی کونسل کی مسلمہ بین الاقوامی قوت کے ہوتے ہوئے نیٹو کے ذریعے کارروائیاں کرنا اور اقوام متحدہ سے بالاتر ایف اے ٹی ایف کا عالمی مالیاتی نظام وضع کرنا اسی متبادل کی علامات ہیں۔

لیگ آف نیشنز سے اقوام متحدہ تک، ان دونوں اداروں کی عدم فعالیت، یک رخی اور تضادات کا حاصل یہ ہے کہ اب دنیا کو ایک نئے ادارے کی ضرورت ہے۔ایک ایسا ادارہ جو عالمی جنگ کے فاتحین کا کلب نہ ہو بلکہ اقوام عالم کا حقیقی نمائندہ ادارہ ہو، جہاں کچھ اقوام کے ہاتھ میں ویٹو کی اندھی طاقت نہ ہو بلکہ تمام اقوام کو یکساں عزت اور توقیر حاصل ہو اور جس کا ’انٹر نیشنل لا‘ کسی خاص تہذیبی فکری بالادستی کا مظہر نہ ہو بلک اس کی بنیاد دنیا بھر کی اجتماعی دانش پر رکھی گئی ہو۔یہ کام ظاہر ہے آسان نہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ کرنے کا کام یہی ہے۔ایک نہ ایک دن یہ کرنا پڑے گا۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے