"ہم پاکستان” سیمینار ؛ ضم شدہ اضلاع میں نوجوانوں کی قیادت میں ایک پُرامن اور خوشحال پاکستان کا خواب

پشاور؛ 10 اپریل 2025 ؛ اگر ہم خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع میں نوجوانوں کو صحیح ، علم، جدید تقاضے اور اقدار سے روشناس کریں تو امن صرف ایک خواہش نہیں بلکہ ایک مشترکہ حقیقت بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز ، سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے رکن اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ہیں .

ایک روزہ قومی سیمیناربعنوان "پاکستان کے پرامن اور خوشحال مستقبل میں نوجوانوں کا کردار” کا انعقاد شیف انٹرنیشنل کے پروگرام "ہم پاکستان” کے نام سے یہ اقدام (Countering and Preventing Terrorism in Pakistan-CPTP) منصوبے کی ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ یورپی یونین کی مالی معاونت سے، نیکٹا کی قیادت میں، اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات وجرائم (UNODC) کی جانب سے CHEF Internationalکے ذریعے چلایا جا رہاہے۔ جبکہ پیغامِ پاکستان، اور سینٹر فار ایکسیلنس، کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم (CVE)، خیبرپختونخوا کے باہمی تعاون سے اس پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے ۔

بز نس انکوبیشن سنٹر ، پشاور یونیورسٹی میں منعقدہ اس سیمینار میں خیبرپختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع،باجوڑ، مہمند، خیبر، کرم، اورکزئی، شمالی و جنوبی وزیرستان، اور سرحدی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد نوجوان رہنماؤں، تعلیمی ماہرین، سول سوسائٹی کے نمائندوں، اور پالیسی سازوں نے شرکت کی۔
 ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ نوجوان پاکستان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ اگر انہیں تنقیدی سوچ، رواداری، اور مکالمے کی تربیت دی جائے تو وہ شدت پسندی کے خلاف سب سے مؤثر قوت بن سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عامر رضا نے شرکاء کو یاد دلایا کہ امن کا آغاز انسان کے اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا”دنیا کو بدلنے سے پہلے، ضروری ہے کہ آپ اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر کام کریں ۔”ان کے اس پیغام کی تائید شیف انٹرنیشنل کے پروجیکٹ لیڈ غلام مرتضیٰ نے بھی کی، جنہوں نے نوجوانوں کو مرکزیت دینے والے طریقہ کار اور انہیں قومی سطح کی کوششوں سے ہم آہنگ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

سیمینار کی خاص بات ایک مؤثر اور بھرپور پینل گفتگو تھی جس کی نظامت تیمور شاہ نے کی۔ اس سیشن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی چار بااثر شخصیات نے اپنی رائے کا اظہار کیا:محترمہ شُگفتہ ملک نے پرجوش انداز میں شمولیتی طرزِ حکمرانی پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ ہمارے جمہوری نظام کو نوجوانوں کے لیے دروازے کھولنے چاہئیں تاکہ وہ فیصلہ سازی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ڈاکٹر ساویرا پرکاش، جو ایک نوجوان ہندو سیاستدان ہیں، نے سیمینار میں اپنی جدوجہد کی کہانی بیان کی جو انہوں نے ضلع بونیر میں سیاسی مہم کے دوران کی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح ایک اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون کے طور پر انہیں متعدد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کی ثابت قدمی اور حوصلہ انہیں آگے بڑھاتا رہا۔ انہوں نے نوجوانوں کو آگاہ کیا کہ وہ بے خوف ہو کر اپنے خوابوں کی پیروی کریں اور مشکلات کے سامنے ڈٹے رہیں۔ ڈاکٹر منہاس مجید خان، چیئرپرسن شعبہ بین الاقوامی تعلقات، جامعہ پشاور، نے زور دیا کہ نوجوانوں کے لیے یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو مکالمے اور فکری آزادی کے مراکز بنانا ہوگا۔تحمید جان، جو ایک مذہبی سکالر اور امن کے داعی ہیں، نے مذہبی ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ معاشرتی تقسیم کو مٹانے اور مشترکہ مستقبل کی تعمیر کے لیے رواداری اور بین الادیانی رابطہ ناگزیر ہے۔

مکالمے میں کئی اہم موضوعات زیرِ بحث آئے، جن میں ڈیجیٹل انتہاپسندی، تعلیمی میدان میں صنفی و معاشی تفاوت، اور روایتی تنازعہ حل کے طریقوں (جیسے جرگہ) کو جدید امن کوششوں میں ضم کرنے جیسے مسائل شامل تھے۔

سیمینار سے ایک واضح پیغام یہ سامنے آیا کہ مقامی مسائل کا حل مقامی سطح پر ہی تلاش کیا جانا چاہیے جس میں بالخصوص نوجوانوں کی شمولیت، ان کی قیادت اور چیلنجز سے نمٹنے کا حوصلہ ناگزیر ہے۔ ”

اپنے اختتامی کلمات میں، ڈاکٹر قبلہ ایاز شریعت اپیلیٹ بنچ، سپریم کورٹ کے رکن نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو ایک پرامن اور متنوع معاشرہ بنانے کے لیے نوجوانوں کو اخلاقی رہنمائی، معیاری تعلیم، اور شہری ذمہ داری سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے