صبح صبح کا وقت ہے۔
آپ بڑے انہماک سے کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں کہ اچانک موبائل پر ایک پیغام آتا ہے، اور پھر اوپر تلے کئی میسیجز کی ٹونز بجنے لگتی ہیں۔ آپ کام روک کر موبائل اٹھاتے ہیں اور میسیجز کھولتے ہیں۔ ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے، میچور شخص کی طرف سے چار پانچ رومانٹک سے پھولوں اور "گڈ مارننگ” کے پیغامات ہوتے ہیں۔
ہر روز صبح فجر کے وقت سے لے کر نو یا دس بجے تک آپ کو اس قسم کے بیس پچیس میسیجز موصول ہوتے ہیں۔
پھر رات کو کچھ "گڈ نائٹ”، دعاؤں اور نیک تمناؤں والے پیغامات آتے ہیں۔
جمعہ کے دن فجر سے شام تک "جمعہ مبارک” کی بھرمار جاری رہتی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب پیغامات بھیجنے والے عموماً پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے آپ کی ایک فیصد بھی بےتکلفی نہیں ہوتی۔
پچھلے دنوں میں ایک بک شاپ پر کچھ کتابیں لینے گیا۔
دو کتابیں دستیاب نہ تھیں۔ دکاندار نے کہا، "کچھ دنوں میں آ جائیں گی، آپ اپنا نمبر دے دیں، کال کر کے اطلاع دے دوں گا۔”
میں نے نمبر دے دیا۔ اگلے دن صبح گڈ مارننگز والے پیغامات میں ایک نیا اضافہ ہو چکا تھا۔
پینٹ کی دکان پر گیا، کچھ رنگ کے ڈبے خریدے۔ دکاندار نے کہا، "سر، اپنا نمبر دے دیں، واٹس ایپ پر تفصیل بھیج دوں گا۔”
موصوف نے اگلی صبح سرخ سرخ گلابوں کے ساتھ ایک پیغام بھیجا، جن کے ساتھ بنے ہوئے ہونٹ بھی تھے۔
ایک انتہائی تجربہ کار، عمر رسیدہ اور جہاندیدہ سینئر صحافی نے تو حد ہی کر دی۔
صبح صبح کم از کم بیس سے بائیس پھول، چند دعائیں، کچھ حدیثیں، اور آخر میں ایک بڑا سا "السلام علیکم” بھیجنا اپنا معمول بنا لیا۔
میں نے انھیں فون کیا اور پوچھا، "سر، آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟”
بولے، "آپ کی خیریت دریافت کرتا ہوں نا۔”
میں نے کہا، "سر، آپ روزانہ صبح مجھے فون کر کے میری خیریت پوچھ لیا کریں۔
ویسے، آپ روز میری خیریت کیوں دریافت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا میں آئی سی یو میں ہوں؟”
بس، اس بات پر وہ ناراض ہو گئے۔
اب بتائیے، کوئی کیا کرے؟
ایک دو ستم ظریف تو ایسے لطیفے بھیج دیتے ہیں کہ عجلت میں ڈیلیٹ کرنا پڑتے ہیں—کہیں بیگم صاحبہ یا کوئی برخوردار نہ دیکھ لے اور میری ساری شوھریت یا پدرانہ عزت خاک میں نہ مل جائے۔
آپ لاکھ منع کریں، سمجھائیں، طنز کریں، لیکن یہ واٹس ایپ کے مجاہد، یہ رضاکار، یہ دیوانے کسی طور باز نہیں آتے۔
انھیں روکنا ایسے ہی ہے جیسے چنگیز خان کے ہراؤل دستے کو روکنا۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں، اگر واٹس ایپ نہ ہوتا، تو یہ میری خیریت دریافت کرنے والے کیا کرتے؟
یہ میرے مخلص، میرے دردمند، میرے لیے ہر روز فکر مند ہونے والے آخر تب کیا کرتے؟
کیا یہ در در جا کر میرے حال کی خبر لیتے؟ یا ہر جمعہ دروازے پر پھول لیے کھڑے ہوتے؟
یا شاید صبح اذان کے ساتھ گھر کے باہر آ کر پکارا کرتے:
"جاگئیے، آپ کی خیریت معلوم کرنی ہے!”
آخر یہ ایسا کیوں کرتے ھیں
کیا یہ کوئی بیماری ہے؟
کوئی ذہنی پیچیدگی؟
کوئی نفسیاتی مسئلہ؟
یا کوئی اندرونی احساسِ کمتری؟
یا سراہے جانے کی لاشعوری خواہش؟
یا پھر معدے کا کوئی عارضہ؟
کچھ نہ کچھ تو غیر معمولی ضرور ہے ان لوگوں کے ساتھ۔
ورنہ ذرا سوچیے…
ایک بھلا چنگا آدمی، کم از کم ایم اے پاس، اچھا خاصا برسرِ روزگار، شادی شدہ، چار بچوں کا باپ…
ایسا شخص صبح جاگتا ہے، منہ ہاتھ دھونے کے بجائے موبائل اٹھاتا ہے، اور چار پانچ پھول اپنے موبائل میں موجود تمام نمبروں پر بھیج دیتا ہے۔
آخر کیوں؟
وہ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟
وہ ایسی حرکت سے کیا پیغام دینا چاہتا ہے جو کھل کر نہیں بول سکتا؟
وہ آپ کی نظروں میں کون سی اہمیت چاہتا ہے؟
میں دو کام کرتا ہوں:
ایک تو دل ہی دل میں ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتا ہوں،
اور دوسرا، دل پر پتھر رکھ کر انھیں بلاک کر دیتا ہوں۔
کیوں کہ یہی میرے اختیار میں ہے۔