مائے نی میں کنوں آکھاں : (خود کشی کے پس منظر میں لکھی جانے والی ایک تحریر)

ماں مجھے تیری عظمت اور دیدہ دلیری پہ ناز ہوتا ہے ، اس پتھر دل سماج میں تو نے مجھے جنم دیا ، میں تجھ پر بیتے لمحہ با لمحہ دکھ کی شاہد ہوں ، خود کو سنبھالنے اور مجھ کو پالنے میں جو تو نے تکلیفیں اور مشکلات جھیلیں بھلا وہ سارے کرب میں اپنی یاد داشت سے کیسے ڈیلیٹ کر سکتی ہوں ۔

سوال یہ ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی تم نے مجھے جنم کیوں دیا ؟
کیا تجھے نہیں پتا تھا کہ تو نے خاتون ہونے کی کتنی بھاری قیمت چکائی ہے ماں پھر بھی تو نے مجھے جنم دیا کیوں ؟
تجھے اچھے سے پتا تھا کہ اس دوغلے اور منافق سماج میں ایک خاتون پر کیا گزرتی ہے پھر بھی ماں کیوں ؟

تجھے بخوبی علم تھا کہ اس منافق سماج میں ایک خاتون پیدا ہوتے ہی نجانے کس طرح کی روایتی زنجیروں میں جکڑے ہوتی ہے ، چوائس اور انفرادیت تو بہت دور کی بات ہے سانس لینے اور جسم تک پر کڑے پہرے ہوتے ہیں ، پیدا ہوتے ہی اسے لڑکی ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے کہ کہیں وہ بھول نہ جائے کہ اس کی اوقات کیا ہے ؟

مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ تم نے خاتون ہونے کے نجانے کتنے عذاب جھیلے ہیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی تم نے میرا رسک کیوں لیا ؟
ایک امتحان کے بعد دوسرا امتحان کیوں ؟
کہیں تجھے سماج کی سوچ میں بدلاؤ کا وہم تو لاحق نہیں ہوگیا تھا ؟

جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تم پر بیتے ایک ایک امتحان کی امین ہوں ، کیسے تجھے گھریلو امتحانات میں سے گزرنا پڑا ، ابو کا رویہ ، گھر میں موجود دوسری خواتین کا رویہ ، میرے تعلیم دلوانے پر ابو کا بےرخی والا انداز اور لوگ باگ کا یہ کہنا کہ بچی کا گھر سے باہر نکلنا بھلے پڑھائی کی خاطر ہی کیوں نہ ہو خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور پڑھنے لکھنے سے بچیاں خراب اور بددماغ ہو جاتی ہیں ، یہ سب سن کر تیرا پھوٹ پھوٹ کر رو دینا مجھے سب یاد ہے ماں!
لیکن پھر بھی تو نے مجھے دنیا میں لانے کا فیصلہ کیا کیوں ؟

ذرا سا دوپٹہ سرکنے یا مجبوری کے تحت باہر نکلنے پر چالو ، طوائف ، رنڈی ، رکھیل اور نجانے کیا کچھ ہمارے کردار پر چپکا دیا جاتا ہے ، حیرت ہوتی ہے ماں تجھ پر سب کچھ جانتے ہوئے بھی تم نے مجھے دنیا میں لانے کا رسک لے لیا ؟

اپنی تمام تر کاوش ، محنت ، صلاحیت اور لوگوں کے طعنے سننے کے باوجود بھی تم مجھے پوری شخصیت کی مالک نہیں بنا پائی ، میرے اندر چھپی محرومیوں کو دور نہیں کر پائی کیونکہ تم سماج کے قائم کردہ دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتی تھی ، اسی لیے سماجی جبر کے سائے میں ادھ ادھوری سی تعلیم کے ساتھ تم نے مجھے اس ذہن کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا کہ میں ” پرایا ” مال ہوں اور ایک دن اپنے خود کے گھر کی ظلمتوں سے نکل کر اس آس پر اگلے گھر چلی جاؤں گی کہ شاید وہاں مجھے اپنے خوابوں کی تعبیر مل جائے ؟

کاش! ماں میں تجھے بتا پاتی کہ خوابوں کی تعبیریں تو ماں باپ کے آنگن میں پوری ہوا کرتی ہیں آگے تو امتحان ہوتا ہے ، جن بیٹیوں کی تعبیریں ماں باپ کے گھر پوری نہیں ہوتیں وہ آگے بھی تشنہ رہتی ہیں ، بیٹی کی آنکھوں میں چھپے سپنے اور حقیقی کرب کا گیان تو صرف ماں باپ کو ہی ہوتا ہے نا!

لیکن بیٹی کے معاملے میں تو سبھی انجان سے بنے رہتے ہیں ، اعلیٰ تعلیم دلوانے کی کیا ضرورت ہے یہ تو پرایا مال ہے بھئی ، بلا وجہ باہر مت نکلنے دو لوگ کیا کہیں گے ، دوپٹہ و اسکارف ڈھنگ سے لو ، زیادہ زور سے مت ہنسا کرو ، فلاں کرو اور فلاں نہ کرو ، کیا ہم انسان بھی ہیں یا نہیں یا دوسروں کے اشاروں پر چلنے والے محض جنسی روبوٹ ہیں ؟

ہمیں تو اپنے ہی ماں باپ کے سامنے اپنی خواہش کا کھل کر اظہار کرنے کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ، اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہمیں شروع دن سے یہ بتا دیا جاتا ہے کہ تمہاری بقا ، تحفظ و عزت اپنی دلی خواہشات کا گلا گھونٹنے میں پنہاں ہے ، تمہارے من میں کوئی بھی خواہش انگڑائی لے اسے وہیں دفن کردو کہ کہیں معاشرے کو بھنک نہ لگ جائے ورنہ اگلی زندگی پر فرق پڑے گا ۔

کیا ہماری کل زندگی کا دارومدار فقط اگلی زندگی پر اٹکا ہوتا ہے جس کی کمان مرد کے ہاتھ میں ہوتی ہے ؟

زندگی کے اتار چڑھاؤ اور دل میں پیدا ہونے والے پرکیف سے مچلتے لمحے ، حسین خیالات کی اٹکھیلیاں اور دل و دماغ میں رچے بسے خوبصورت سے خوابوں کی بلی فقط اس وجہ سے چڑھا دو کہ معاشرہ کیا کہے گا ؟
ماں تجھے یاد ہے نا کہ ایک دن میرے دل میں بھی ایک خواہش نے انگڑائی لی تھی ، ساری زندگی تو دوسروں کے اشاروں پر گزری تھی بس ایک زندگی اپنے حساب سے جینا چاہتی تھی ، لڑکی ہونے کی وجہ سے نہ تو کبھی بارش کی بوندوں کو محسوس کر پائی اور نہ ہی ڈھلتے ابھرتے سورج کی رعنائیوں اور توانائی کو اپنی روح کی اتھاہ گہرائیوں میں سمو پائی ، ماں یوں سمجھ لیں کہ اپنے جنس کی وجہ سے جو دروازے بھی مجھ پر بند تھے میں نے کبھی بھی انہیں کھولنے کی جرات نہیں کی صرف اس ڈر سے کہ لوگ کیا کہیں گے ؟

ماں باپ کیا سوچیں گے ؟

میں تو ساری زندگی خود سے ہی بیگانہ رہی ، اپنی خوبصورتی اور دلکشی سے بےخبر رہی ، اپنے لہلہاتے سے سیاہ بالوں کی رعنائی کو جان ہی نا پائی ، بس اسی فکر میں والدین کی مرضی سے کسی اور کی ہوگئی کہ بس عزت و عصمت محفوظ رہے لیکن خود سے لاتعلق رہی ۔

بس ایک ہی خواہش نے انگڑائی لی تھی اور خواہش پر بھلا کس کا کنٹرول ہوتا ہے ؟

اک چہرے میں مجھے اپنے خوابوں کی تعبیر دکھائی دینے لگی تھی ۔

خود کو لاکھ سمجھایا کہ اپنی خواہش کا اظہار مت کر پگلی ، لڑکیاں تو پیدائشی گونگی ہوتی ہیں ، پگلی جہاں تو نے ساری زندگی چپ کی کیفیت میں گزار دی تو اس چہرے کو بھی جانے دو ، کیوں خود پر بےشرم اور بےقابو ہونے کا ٹیگ لگوانا چاہتی ہو ۔

لیکن ماں میں خود کو روک نہیں پائی ، مجھے لگتا تھا کہ میرے سپنوں کی تعبیر یہی راج دلارا پوری کر دے گا ، وہی ہوا جس کا مجھے شائبہ تھا ، تم نے مجھے خاموش رہنے کو بول دیا اور دھمکی دی کہ اگر تیرے باپ کو پتا چلا تو وہ تیرا گلا گھونٹ دے گا ۔

ماں میں سہم گئی تھی اور چپکے سے سر تسلیم خم کر دیا تھا ، ماں جس کھونٹے سے تم نے مجھے باندھ دیا تھا میں وہیں صابر و شاکر رہی ، لیکن ماں میرے دکھ تو بڑھتے ہی چلے جارہے تھے ، میں اپنے میکے میں ایک چلتی پھرتی زندہ لاش تھی ، ذہن کہیں جسم کہیں ، میں نجانے کتنے ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی ۔

جس کے کندھے پر سر رکھ کر دکھ سنا سکتی تھی وہ تو فکر معاش کے سلسلے میں پردیس جا بسا تھا ، یہاں جو میرے آس پاس تھے وہ مجھے پاگل کہنے لگے تھے ، سچی بات ہے ماں مجھے بھی کبھی کبھی لگنے لگا تھا کہ میں اپنے حواس میں نہیں رہتی ہوں ، اپنی اسی کیفیت کا ذکر میں نے پردیس میں بسے شوہر سے بھی کیا ، اس نے مجھے علاج و معالجہ کی طرف توجہ دینے کو کہا ۔

ماں میں اسے کیسے بتاتی کہ دل ودماغ پر لگے گہرے زخموں کا کوئی مرہم نہیں ہوتا ، زخم بھی ایسے جو ناسور بن چکے ہوں ، ماں میں نے اسے بہت کہا کہ میں اپنا حال دل تمہیں سنانا چاہتی ہوں ، تمہارے گلے لگ کر کھل کے رونا چاہتی ہوں ، تمہارے بنا بیتے ایک ایک لمحے کو تم سے سانجھا کرنا چاہتی ہوں ، ماں میں رونا بھول چکی تھی اب تو بس ایک ہی خواہش تھی کہ مجھے جتنا جلدی ہو سکے شوہر کا کندھا مل جائے جس کے گلے لگ کر میں اپنے سارے آنسو اور دکھ اسے ہدیہ کرتے ہوئے اپنے بےچین سے دل کا بوجھ ہلکا کرلوں ۔

ماں اس نے بھی وہی جواب دیا کہ ابھی چھٹی نہیں مل سکتی بس تم خود کو سنبھالو ، ماں میں تھک چکی ہوں اب ، بس بہت ہو گیا ، میں اپنے دکھوں کا بوجھ اکیلے اٹھانے کے قابل نہیں رہی ، میں اب ابدی نیند سونا چاہتی ہوں ۔

مجھے جینے کا کوئی مقصد نظر نہیں آرہا ہے ، میری دو چھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں میں ان کو بڑا کرکے ان کی نظروں میں گرنا نہیں چاہتی ، میں ان کو بےبسی کی کیفیت میں دیکھنا نہیں چاہتی ، کہیں بڑے ہوکر مجھ سے بھی وہ وہی سوال نہ کر بیٹھیں کہ ہمیں ایک ایسے سماج میں جنم ہی کیوں دیا تھا کہ جہاں ہمارے لیے گنجائش نہیں ہے اور ہمارے کردار پر بےرحمی سے پہرہ دیا جاتا ہے ۔

ماں مجھے معاف کرنا میں اپنی بچیوں کے جوان ہونے تک زندہ ہی نہیں رہنا چاہتی ، میں موت کو گلے لگانے جارہی ہوں ، بچیوں کو اس کے باپ کے رحم و کرم پر چھوڑے جارہی ہوں ، پلیز ماں مجھے معاف کر دینا ، میں تھک گئی تھی اور اب میں موت کی آغوش میں اپنے حصے کی راحت ڈھونڈنے کی کوشش کروں گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے