اسے غفلت لاپرواہی کہیں، حادثے کا نام دیں یا پھرقمست کے کھاتے میں ڈال کر بھول جائیں لیکن حقیققت یہ ہے کہ شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب کے تقریباً وسط میں بدھ دس فروری کو پیش آنے والے ہولناک سانحہ نے بہت سوں کو ہلاکر رکھ دیا،، جس میں کئی افراد لقمہ اجل بنےکئی اب بھی موت و حیات کی کشمکش میں اسپتال میں زیرعلاج ہیں،، جبکہ لواحقین اپنے زخموں پر مرہم پٹی کے لئے کسی درمند کے منتظرہیں،،،،،
حادثہ میں گاوں محمودپورہ کے ایک ہی خاندان کے نو افراد آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجائے دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔۔ جن میں محنت کش چنگ چی ڈرائیور حماد فاروق، اس کا بیٹاحمزہ فاروق، بیٹی شازیہ فاروق، بھتیجاولید شہزاد کے علاوہ سال اول کی طالبہ زونیرہ ظفراللہ اور سکول ٹیچر شگفتہ جبار شامل ہیں۔تمام بچوں کی عمریں دس سال سے کم ہیں۔ جو موٹرسائیکل رکشہ پر بیٹھ کر اپنے گاوں سے سات آٹھ کلومیٹر دور کوٹ وار اڈہ میں واقع اپنے سکول جارہے تھے کہ موت کے فرشتے نے مستقبل کے معماروں کو ان کے والد اور استانی سمیت اچک کر ان کے تمام خواب چکنا چور کردیئے۔۔۔اب محمود پورہ میں صرف آہیں سسکیاں ہی باقی ہیں،،
دوسری طرف خانقاہ ڈوگراں کا مقامی صحافی امجد علی بھی دیگر تین افراد کے ساتھ شعلوں کی بھینٹ چڑھ گیا،،، غم اور سوگ کی فضا نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،،،
مقامی صحافی صفدر شاہین نے حادثے کی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ٹینکر حیدرآباد کے ایک پلانٹ سے گیس بھر کامونکی لے جارہا تھا،، ڈرائیور نورمحمد نے کوٹ وار کے علاقے میں سسرال میں رات گذاری اور جب منزل مقصود کے لئے صبح سویرے ٹینکر سٹارٹ کرکے سڑک کی جانب موڑنے لگا تو دھند کے باعث خانقاہ ڈوگراں سے آنے والی ایک مہران گاڑی ٹینکر سے ٹکرا گئی،،،گیس سے بھرا ٹینکر لیک ہوا اور آگ پکڑلی جو اس شدت اور تیزی سے پھیلی کی کہ اس نے آس پاس کوئی انسان، گاڑی، دکان یا کوئی اور شے نہ چھوڑی،،
صفدر کے مطابق صحافی امجد کی گاڑی ٹینکر کی نوزل سے ٹکرائی اور غیرمعیاری آلات کے استعمال کی باعث ٹینکر میں موجود گیس لیک ہوئی،، امجد کی گاڑی اور اس میں سوار تمام افراد سب سے پہلے آگ سے بھسم ہوئے جس کے بعد حماد فاروق کا چنگ چی رکشہ اور اس میں سوار افراد آگ کی لپیٹ میں آئے۔ قریب واقع دکانیں اور وہاں کھڑے پولیس اہل کار بھی شعلوں سے اپنے آپ کو نہ بچا سکے۔۔۔
صفدر نے شک کا اظہار کیا کہ ٹینکر اور اس کی نوزل نہ صرف غیرمعیاری تھی بلکہ اس میں گیس بھی مقررہ مقدار سے زیادہ بھری گئی تھی، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک چھوٹی گاڑی کی ٹکر سے اتنا بڑا سانحہ پیش نہیں آتا۔۔
محمودپورہ سوگ میں ڈوبا ہوا ہے، ہر آنکھ اشکبار ہے،، ہر شخص نوحہ کناں ہے،، گاوں سے نو جنازےاٹھائے گئے ،،، مرحوم حماد کا گھر ماتم کدہ بنا ہوا ہے،، ، ایک بیٹا، پوتے اور پوتی کھونے والی حماد کی والدہ غم کی تصویر بنی ہوئی ہے جبکہ بڑے بھائی کو کسی چیز کا ہوش نہیں وہ اپنے بھائی کی جدائی کو برداشت کرے یا پنے لخت جگر کو گنوانے کا ماتم کرے،،، اسے کوئی پتہ نہیں،، چھوٹا بھائی زندہ لاش کی طرح بے سود پڑا ہے۔۔۔ کسی سے بات تو کجا اشارہ کرنے کی طاقت بھی گویا ختم ہوگئی ہے۔۔
خاندان کے ایک فرد انجینئر حافظ عمران کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ دو سو گھروں پر مشتمل گاوں محمود پورہ میں صرف ایک پرائمری سکول ہے جو یہاں کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا،،اگر گاوں میں تعلیم کا حصول ممکن ہوتا تو کیوں یہ لوگ سات آٹھ کلومیٹر دور جاتے،،،اور کیسے اس حادثے کا شکار ہوتے لیکن ساتھ وہ اس سارے واقعہ کوقدرتی آفت قرار دے کر اپنے دل کو تسلی دیتے نظرآتا ہے۔۔
حافظ عمران اور گاوں کے دیگر لوگوں کو کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں لیکن وہ اپنے زخموں پر مرہم پٹی کے لئے وزیراعلٰی شہبازشریف کے ضرور منتظر ہیں۔۔۔ انہیں کبھی کبھی غصہ بھی آتا کہ کل سے وزیراعلٰی کی آمد کی باتیں سن رہے ہیں ، گاوں میں ہیلی پیڈ بھی بنادیا گیا لیکن وہ نہ آئے بلکہ مقامی ایم این اے ڈاکٹر شیزہ کو امدادی چیک دے کر بھیج دیا۔۔ حافظ عمران کہتا ہے کہ انہیں پیسوں کی ضرورت نہیں انہیں تو دلاسہ چاہیئے،، جو وزیراعلٰی اینٹوں کے بھٹے پر ہیلی کاپٹر اتار سکتا ہے اور سیلاب اور بارشوں میں لانگ بوٹ پہن کر پانی میں اتر سکتا ہے اس کے لئے غریب حماد کے اہل خانہ کو تسلی دینے کے لئے وقت کیوں نہیں ہے؟؟
گیس ٹینکرکا ڈرائیور فرار ہوچکا ہے اس کے خلاف تھانہ مانانوالہ میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔لیکن کیا حکومتی ادارے گیس ٹینکر اور اس میں استعمال ہونے والے آلات کا جائزہ لیں گے؟ کیا اگر کوئی قصورہوا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ذہنوں میں گردش کررہے ہیں،،، کیونکہ سوال یہ نہیں کہ یہ حادثہ کب۔ کہاں اور سب کیسے ہوا؟ ؟؟ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سانحہ کیوں پیش آیا؟؟ کیا اس کا روکا جانا ممکن تھا؟؟ اور کیا آئندہ اس کے تدارک کیا جانا ممکن ہوگا؟؟؟ کوئی اس کا نوٹس لے گا یا پھر اسی طرح دیگر حادثوں کی طرح اس کو بھی فائلوں کی نذر کردیا جائے گا؟؟؟ سڑکوں، پلوں اور میٹرو کے حوالے سے شہرت رکھنے والے وزیراعلٰی محمود پورہ اور اس جیسے دیگر دیہات میں تعلیمی اداروں کا جال بچھانے کے لئے بھی اقدامات کریں گے تاکہ بچے گھروں کے نزدیک ہی علم کی پیسا بھجا سکیں اور انہیں آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی تعلیم کے حصول کے لئے کئی میل سفر نہ کرنا پڑے؟؟؟