مجھے دریاے جہلم سے اتنا عشق تو نہیں جتنا مستنصر حسین تارڑ کو سندھ سے ہے لیکن ویری ناگ سے لے کر ہیڈ تریموں تک دریاے جہلم کے پہلو بہ پہلوسفر کی خواھش یہ دل نادان ضرور رکھتا ہے – دومیل کے مقام سے نیلم کے نیلگوں پانی کو اپنے اندر سمؤے دھاڑیں مارتا یہ دریا دھان گلی سے ذرا پہلے شانت ہو جاتا ہے اور خاموشی سے اپنا آپ منگلا جھیل میں داخل کردیتا ہے – جھیل میں اپنے اندر پڑی مٹی کو زمین کے سپرد کرتے ہوے ایک بار پھر اپنا سفر آگے کی طرف شروع کر دیتا ہے اور تریموں کے مقام پر خود کو دریائے سندھ سپرد کر دیتا ہے اور دریائے سندھ خاموشی سے ان پانیوں کی انگلی تھامے سفر کرتا سمندر میں اتر جاتا ہے۔اس دریا سے لگاؤ کی ایک وجہ اس کا میرے گھر کے پاس سے گزرنا بھی ہے – جب بھی جہاں بھی یہ دریا برابر آتا ہے یہی خیال اتا ہے یہ پانی میری مٹی سے ہوتا ہوا گذرے گا۔
کسی صاف دن کی روشنی میں یہاں سے مارگلہ سے منگلا تک کا نظارہ کاغذ پر بنے ہوئے نقشے کی طرح کیا جا سکتا ہے- جنوب میں کوٹلی اور راولاکوٹ تک کا علاقہ پھیلا ہوا ہے پس منظر میں مقبوضہ کشمیر کی برف پوش چوٹیاں- کاغان ویلی کے دوسرے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ "مکڑا چوٹی”کو بھرپور رعنائیوں کے ساتھ بہتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے لیکن وہ دن قسمت سے ملتا ہے