پنج پیر کی چٹانیں اور محبّت کا عالمی دن

14 فروری کا دن پچھلی ایک دہائی سے بڑے والہانہ انداز سے  محبّت کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا ہے - اس دن مغربی معاشرے میں کھلم کھلا جبکے مشرقی ممالک میں کہیں چھپ کے تو کہیں سر عام اس دن کو مختلف طریقوں سے منانے کا رواج سال بہ سال ترقی پاتا جا رہا ہے
14 فروری کا دن پچھلی ایک دہائی سے بڑے والہانہ انداز سے محبّت کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا ہے – اس دن مغربی معاشرے میں کھلم کھلا جبکے مشرقی ممالک میں کہیں چھپ کے تو کہیں سر عام اس دن کو مختلف طریقوں سے منانے کا رواج سال بہ سال ترقی پاتا جا رہا ہے
 حکومتی پابندیوں کے باوجود پاکستان میں لوگوں نے اس دن کو مخفی یا سر عام منانے کا اہتمام اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کر رکھا ہوتا ہے - لیکن اس سال ان سب سے ہٹ کے چند سر پھرے نوجوان با جماعت ہو کے اپنے محبوب کو ملنے جا رہے تھا اور وہ محبوب تھا یا تھی پنج پیر کی راکس،،،اسلام آباد سے 70 کلومیٹر دور راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ میں موجود 4 ہزار 8 سو فُٹ بلند پنج پیر راکس اپنے اندر ایک سحر انگیز حسن رکھتی ہیں

حکومتی پابندیوں کے باوجود پاکستان میں لوگوں نے اس دن کو مخفی یا سر عام منانے کا اہتمام اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کر رکھا ہوتا ہے – لیکن اس سال ان سب سے ہٹ کے چند سر پھرے نوجوان با جماعت ہو کے اپنے محبوب کو ملنے جا رہے تھا اور وہ محبوب تھا یا تھی پنج پیر کی راکس،،،اسلام آباد سے 70 کلومیٹر دور راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ میں موجود 4 ہزار 8 سو فُٹ بلند پنج پیر راکس اپنے اندر ایک سحر انگیز حسن رکھتی ہیں
 راولاکوٹ کشمیرکی جانب جاتے ہوئے جب ہم کہوٹہ سے گزرتے ہیں تو کہوٹہ سے راولاکوٹ کے درمیان ایک جگہ نرڑ آتی ہے۔ نرڑ سے ہی ایک سڑک انتہائی خوبصورت پہاڑی سلسلے کی طرف جاتی ہے۔اس پہاڑی سلسلے کو پنج پیر کی پہاڑیاں کہا جاتا ہے۔انجان چہرے ، بھانت بھانت کی بولیاں ،قہقوں کی جھنکار میں سنجیدہ چہروں کی شرمیلی دلہن کی سی مسکراہٹیں ، یہ تھی ابتدائی سفر کی روئیداد ،،،،،سفر کا تعلق یادوں سے ہوتا ہے- اس سفر میں کوئی نئی یادیں بنانے جا رہا تھا تو کوئی پرانی یادوں کو بھلانے کے لئے - خاموشی سے شروع ہونے والے سفر میں باتوں کا سلسلہ ایک دوسرے کے تعارف سے آگے بڑھا اور بڑھتا ہی گیا

راولاکوٹ کشمیرکی جانب جاتے ہوئے جب ہم کہوٹہ سے گزرتے ہیں تو کہوٹہ سے راولاکوٹ کے درمیان ایک جگہ نرڑ آتی ہے۔ نرڑ سے ہی ایک سڑک انتہائی خوبصورت پہاڑی سلسلے کی طرف جاتی ہے۔اس پہاڑی سلسلے کو پنج پیر کی پہاڑیاں کہا جاتا ہے۔انجان چہرے ، بھانت بھانت کی بولیاں ،قہقوں کی جھنکار میں سنجیدہ چہروں کی شرمیلی دلہن کی سی مسکراہٹیں ، یہ تھی ابتدائی سفر کی روئیداد ،،،،،سفر کا تعلق یادوں سے ہوتا ہے- اس سفر میں کوئی نئی یادیں بنانے جا رہا تھا تو کوئی پرانی یادوں کو بھلانے کے لئے – خاموشی سے شروع ہونے والے سفر میں باتوں کا سلسلہ ایک دوسرے کے تعارف سے آگے بڑھا اور بڑھتا ہی گیا
 پائن کے جنگل میں اگر آپکو ٹرک ہوٹل کی چائے مل جائے تو سفر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے - چائے زیادہ کڑک تھی کہ ڈرائیور رستہ ہی بھول گیا۔ ایک غیر معروف سے کہاوت ہے کے سڑک اور ٹھرک (ٹھرک کی تعریف منٹو والی نہ سمجی جائے) انسان کو کہیں بھی لے جاتی ہے۔  اسی کہاوت پر پورا اترتے ہوے ہماری گاڑی بھی اس مقام تک پہنچ گئی جہاں سے اگے رستہ بھی جواب دے جاتا ہے - اور اس کا سبب تھا صرف ایک غلط موڑ

پائن کے جنگل میں اگر آپکو ٹرک ہوٹل کی چائے مل جائے تو سفر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے – چائے زیادہ کڑک تھی کہ ڈرائیور رستہ ہی بھول گیا۔ ایک غیر معروف سے کہاوت ہے کے سڑک اور ٹھرک (ٹھرک کی تعریف منٹو والی نہ سمجی جائے) انسان کو کہیں بھی لے جاتی ہے۔ اسی کہاوت پر پورا اترتے ہوے ہماری گاڑی بھی اس مقام تک پہنچ گئی جہاں سے اگے رستہ بھی جواب دے جاتا ہے – اور اس کا سبب تھا صرف ایک غلط موڑ
 پائن کے جنگلوں سے گزرتے ہوے ہم نڑ گاؤں میں داخل ہوے - اس علاقے میں زمین باقی تمام علاقوں سے مختلف ہے، بڑی بڑی چٹانیں اور انہی چٹانوں پر تعمیر ہوے کچے پکے گھر ،،،معدنی خزانوں سے محروم بانجھ چٹیل چٹانیں ہیں۔ نڑھ کی حدود کے باہر ایک مٹیالی تراشیدہ پہاڑی آپ کے استقبال کے لیے موجود ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے چٹانی پتھر موجود ہیں۔

پائن کے جنگلوں سے گزرتے ہوے ہم نڑ گاؤں میں داخل ہوے – اس علاقے میں زمین باقی تمام علاقوں سے مختلف ہے، بڑی بڑی چٹانیں اور انہی چٹانوں پر تعمیر ہوے کچے پکے گھر ،،،معدنی خزانوں سے محروم بانجھ چٹیل چٹانیں ہیں۔ نڑھ کی حدود کے باہر ایک مٹیالی تراشیدہ پہاڑی آپ کے استقبال کے لیے موجود ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے چٹانی پتھر موجود ہیں۔
 چیڑ کے ہزارہا مسافر نواز درخت سیاحوں کے استقبال کے لیے قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ اس سدا بہار درخت کی قامت اور کشش علاقے کا اصل حسن ہے۔ غیر متوقع طور پر جوں جوں ہم اوپر کی جانب بڑھ رہے تھے ٹریک پر برف کی مقدار بھی بڑھتی جا رہی تھی - بغیر تیاری کے اس پھسلن زدہ رستے پر چلنا آسان تو نہ تھا لکین مصطفیٰ زیدی نے اسی بارے میں لکھا تھا انہی پتھروں پے چل کے آ سکو تو آؤ میرے گھر کے رستے میں کوئی کہکشاں نہیں

چیڑ کے ہزارہا مسافر نواز درخت سیاحوں کے استقبال کے لیے قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ اس سدا بہار درخت کی قامت اور کشش علاقے کا اصل حسن ہے۔ غیر متوقع طور پر جوں جوں ہم اوپر کی جانب بڑھ رہے تھے ٹریک پر برف کی مقدار بھی بڑھتی جا رہی تھی – بغیر تیاری کے اس پھسلن زدہ رستے پر چلنا آسان تو نہ تھا لکین مصطفیٰ زیدی نے اسی بارے میں لکھا تھا
انہی پتھروں پے چل کے آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے رستے میں کوئی کہکشاں نہیں
 پنج پیر کا رستہ عام دنوں میں پتھرورں سے اٹا رہتا ہے لیکن برف باری کے بعد یہ رستہ سفید چادر اوڑھ لیتا ہے - بائیں  طرف نیچے دور تلک چیڑ کاگھنا جنگل دکھائی دیتا ہے۔ قدم جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں برف کی تہہ اور خاموشی کا طلسم گہرا ہوتا چلا جاتا ہے ۔ گرتے پڑتے آخر کار ہم اس مقام پر پہنچ ہی گئے جہاں سے محبوب کی زیارت کی جا سکتی تھی - باقی لوگ تو چلیں جیسے تیسے پہنچ گئے لیکن کمال تو ڈاکٹر صاحبہ کا تھا کے فلیٹ جوتوں کے ساتھ پھسلتی برف پر لڑکھتے ہوئے بغیر گرے اوپر تک پہنچ  گئیں۔

پنج پیر کا رستہ عام دنوں میں پتھرورں سے اٹا رہتا ہے لیکن برف باری کے بعد یہ رستہ سفید چادر اوڑھ لیتا ہے – بائیں طرف نیچے دور تلک چیڑ کاگھنا جنگل دکھائی دیتا ہے۔ قدم جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں برف کی تہہ اور خاموشی کا طلسم گہرا ہوتا چلا جاتا ہے ۔ گرتے پڑتے آخر کار ہم اس مقام پر پہنچ ہی گئے جہاں سے محبوب کی زیارت کی جا سکتی تھی – باقی لوگ تو چلیں جیسے تیسے پہنچ گئے لیکن کمال تو ڈاکٹر صاحبہ کا تھا کے فلیٹ جوتوں کے ساتھ پھسلتی برف پر لڑکھتے ہوئے بغیر گرے اوپر تک پہنچ گئیں۔
 کالی چٹانیں - سرسبز پائن کے درخت - اور ان میں کہیں کہیں سفید برف - یہ تھا پنج پیر کا پہاڑ - اس مقام پر پہنچنے کے  بعد قدرت کے حسن اور انسانی جستجوکے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ یہ چٹیل پہاڑ اپنی بناوٹ  اورخوبصورتی کی وجہ پاکستان کےدوسرے تمام علاقوں سےمنفرد پہچان رکھتا ہے - دور دریاۓ جہلم ایک باریک لکیر کی مانند نظر آ رہا تھا -  پاکستان اور کشمیر کے پہاڑوں کے دامن میں جھومتے اور وطن کی جنوبی سرحدوں کو چومتے ہوئے اس دریا کا یہاں سے فضائی نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

کالی چٹانیں – سرسبز پائن کے درخت – اور ان میں کہیں کہیں سفید برف – یہ تھا پنج پیر کا پہاڑ – اس مقام پر پہنچنے کے بعد قدرت کے حسن اور انسانی جستجوکے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ یہ چٹیل پہاڑ اپنی بناوٹ اورخوبصورتی کی وجہ پاکستان کےدوسرے تمام علاقوں سےمنفرد پہچان رکھتا ہے – دور دریاۓ جہلم ایک باریک لکیر کی مانند نظر آ رہا تھا – پاکستان اور کشمیر کے پہاڑوں کے دامن میں جھومتے اور وطن کی جنوبی سرحدوں کو چومتے ہوئے اس دریا کا یہاں سے فضائی نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
  - اس جگہ کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ نظر  آنے والا جہلم دریا سامنے دھند میں لپٹے پیر پنجل کے پہاڑ  کے دامن میں سے ویری ناگ کے چشمے سے نکلتا ہے ۔پنج پیر کی راکس سے صاف دن میں نظر آنے والی پیر پنجل رینج  کی برف پوش چوٹیاں اغیارکا گلہ بھی کر رہی ہیں اگر کوئی ان کی آواز کو سن سکے تو

– اس جگہ کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ نظر آنے والا جہلم دریا سامنے دھند میں لپٹے پیر پنجل کے پہاڑ کے دامن میں سے ویری ناگ کے چشمے سے نکلتا ہے ۔پنج پیر کی راکس سے صاف دن میں نظر آنے والی پیر پنجل رینج کی برف پوش چوٹیاں اغیارکا گلہ بھی کر رہی ہیں اگر کوئی ان کی آواز کو سن سکے تو

مجھے دریاے جہلم سے اتنا عشق تو نہیں جتنا مستنصر حسین تارڑ کو سندھ سے ہے لیکن ویری ناگ سے لے کر ہیڈ تریموں تک دریاے جہلم کے پہلو بہ پہلوسفر کی خواھش یہ دل نادان ضرور رکھتا ہے – دومیل کے مقام سے نیلم کے نیلگوں پانی کو اپنے اندر سمؤے دھاڑیں مارتا یہ دریا دھان گلی سے ذرا پہلے شانت ہو جاتا ہے اور خاموشی سے اپنا آپ منگلا جھیل میں داخل کردیتا ہے – جھیل میں اپنے اندر پڑی مٹی کو زمین کے سپرد کرتے ہوے ایک بار پھر اپنا سفر آگے کی طرف شروع کر دیتا ہے اور تریموں کے مقام پر خود کو دریائے سندھ سپرد کر دیتا ہے اور دریائے سندھ خاموشی سے ان پانیوں کی انگلی تھامے سفر کرتا سمندر میں اتر جاتا ہے۔اس دریا سے لگاؤ کی ایک وجہ اس کا میرے گھر کے پاس سے گزرنا بھی ہے – جب بھی جہاں بھی یہ دریا برابر آتا ہے یہی خیال اتا ہے یہ پانی میری مٹی سے ہوتا ہوا گذرے گا۔

 ہر کوئی منظر کی تصویر کشی میں محو تھا - لیکن منتظمین کے حوصلے کو داد دینا پڑیگی کہ اتنے خوبصورت نظارے کو چھوڑ کر سب سر پھروں کی پیٹ پوجا کے انتظام میں لگے ہوے تھے - اتنے حسین مناظر کے درمیان اپ کو گرما گرم تکوں کی خوشبو آپ کی بھوک میں بے پناہ اضافہ کر دیتی ہے - کھانے کے بعد ٹھنڈی ہوائیں کچھ زیادہ ہی ٹھنڈی لگنے لگتی ہیں -سورج اشنان کرنے کے بعد ایک گروپ زیارت کی طرف چل پڑا تو دوسرا ریسٹ ہاؤس کی طرف پہاڑی کے شرقی سرے پر ریسٹ ہاوس اور غربی سرے پر مسجد و زیارت ہے۔  بہار کے گل پوش اور ساون کے سبز پوش پنج پیر کا نطارہ اپنی جگہ ، لیکن برف پوش پنج پیر کے دیومالائی حسن وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔

ہر کوئی منظر کی تصویر کشی میں محو تھا – لیکن منتظمین کے حوصلے کو داد دینا پڑیگی کہ اتنے خوبصورت نظارے کو چھوڑ کر سب سر پھروں کی پیٹ پوجا کے انتظام میں لگے ہوے تھے – اتنے حسین مناظر کے درمیان اپ کو گرما گرم تکوں کی خوشبو آپ کی بھوک میں بے پناہ اضافہ کر دیتی ہے – کھانے کے بعد ٹھنڈی ہوائیں کچھ زیادہ ہی ٹھنڈی لگنے لگتی ہیں -سورج اشنان کرنے کے بعد ایک گروپ زیارت کی طرف چل پڑا تو دوسرا ریسٹ ہاؤس کی طرف پہاڑی کے شرقی سرے پر ریسٹ ہاوس اور غربی سرے پر مسجد و زیارت ہے۔ بہار کے گل پوش اور ساون کے سبز پوش پنج پیر کا نطارہ اپنی جگہ ، لیکن برف پوش پنج پیر کے دیومالائی حسن وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔

کسی صاف دن کی روشنی میں یہاں سے مارگلہ سے منگلا تک کا نظارہ کاغذ پر بنے ہوئے نقشے کی طرح کیا جا سکتا ہے- جنوب میں کوٹلی اور راولاکوٹ تک کا علاقہ پھیلا ہوا ہے پس منظر میں مقبوضہ کشمیر کی برف پوش چوٹیاں- کاغان ویلی کے دوسرے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ "مکڑا چوٹی”کو بھرپور رعنائیوں کے ساتھ بہتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے لیکن وہ دن قسمت سے ملتا ہے

 مقامی لوگوں کے مطابق اس جگہ کو پنج پیر اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ پنج پیر کے اونچے مقام پر ایک مزار ہے جہاں پانچ بزرگ آ کر رہے تھے،،مسجد سے ملحق پنج پیر کی بیٹھک ہے۔اس نام کی بیٹھکوں کا سراغ جگہ جگہ ملتا ہے۔ پشاور، ہزارخوانی میں پنج پیر، لاہور کی زیارت پنج پیراں، صوابی میں پنج پیر کی گدی، آیبٹ آباد میں پنج پیر کی قبریں مشہور ہیں۔ شہاب نامہ میں قدرت اللہ شہاب نے رام نگر، جموں میں پنج پیرکے مزار کا ذکر کیا ہے۔ہیر وارث شاہ میں پانچ پیروں کے نام بھی دیے ہوئے ہیں۔ پنج پیر کا سحر طراز حسن واپسی کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے،، لیکن مسافر کو بہرحال لوٹنا ہوتا ہے - لیکن اگر اترتے وقت سورج کے ڈھلنے کا دلفریب نظارہ ہو تو دن بھر کی ساری تھکن لمحوں میں دور ہو جاتی ہے - شام کے ڈھلتے سائے میں نیچے اترتے ہوے ایک سحر انگیز خاموشی کو محسوس کیا جا سکتا ہے وہ خاموشی جو شہر کی چمکتی دمکتی زندگی میں نہ پید ہو چکی ہے

مقامی لوگوں کے مطابق اس جگہ کو پنج پیر اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ پنج پیر کے اونچے مقام پر ایک مزار ہے جہاں پانچ بزرگ آ کر رہے تھے،،مسجد سے ملحق پنج پیر کی بیٹھک ہے۔اس نام کی بیٹھکوں کا سراغ جگہ جگہ ملتا ہے۔ پشاور، ہزارخوانی میں پنج پیر، لاہور کی زیارت پنج پیراں، صوابی میں پنج پیر کی گدی، آیبٹ آباد میں پنج پیر کی قبریں مشہور ہیں۔ شہاب نامہ میں قدرت اللہ شہاب نے رام نگر، جموں میں پنج پیرکے مزار کا ذکر کیا ہے۔ہیر وارث شاہ میں پانچ پیروں کے نام بھی دیے ہوئے ہیں۔ پنج پیر کا سحر طراز حسن واپسی کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے،، لیکن مسافر کو بہرحال لوٹنا ہوتا ہے – لیکن اگر اترتے وقت سورج کے ڈھلنے کا دلفریب نظارہ ہو تو دن بھر کی ساری تھکن لمحوں میں دور ہو جاتی ہے – شام کے ڈھلتے سائے میں نیچے اترتے ہوے ایک سحر انگیز خاموشی کو محسوس کیا جا سکتا ہے وہ خاموشی جو شہر کی چمکتی دمکتی زندگی میں نہ پید ہو چکی ہے
 واپسی کا سفر زیادہ پر لطف اور ہیجان انگیز تھا - دھیمی آنچ پر شروع ہونے والا رقص مرزا صاحب کے وحشی ٹھمکوں پر اختمام پذیر ہوا ،، ٹرک ہوٹل کی چائے نے سفر کی تھکان کافی حد تک کم کر دی اور تمام لوگ ایک بار پھر تازہ دم ہو کر انتاک شری کے لئے میدان میں اتر اے -اس مرحلے میں سب سے مزے کی بات حاجی صاحب اور چھوٹی کی جھڑپیں اور جج صاحب کے پاکستان کی عدالتی تاریخ سے متاثر کن فیصلے تھے ۔حاجی صاحب کی ٹیم اگرچھ تمام تر ڈاکٹری نسخوں کے باوجود ہار گئی لیکن ان کی اور ڈاکٹر صاحبہ کی فائٹنگ سپرٹ کی داد دینا پڑیگی -ڈاکٹر صاحبہ کے بروقت لقموں اور حاجی صاحب کی گائیکی نے مقابلے کو کسی بھی لمحے یکطرفہ نہ ہونے دیا - خاموشی سے شروع ہونے والا سفر دلفریب مناظر، بہترین یادوں اور خوبصورت قہقوں کے ساتھ اپنے اختمام کو ٹھیک اسی مقام پر ختم  ہوا جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔

واپسی کا سفر زیادہ پر لطف اور ہیجان انگیز تھا – دھیمی آنچ پر شروع ہونے والا رقص مرزا صاحب کے وحشی ٹھمکوں پر اختمام پذیر ہوا ،، ٹرک ہوٹل کی چائے نے سفر کی تھکان کافی حد تک کم کر دی اور تمام لوگ ایک بار پھر تازہ دم ہو کر انتاک شری کے لئے میدان میں اتر اے -اس مرحلے میں سب سے مزے کی بات حاجی صاحب اور چھوٹی کی جھڑپیں اور جج صاحب کے پاکستان کی عدالتی تاریخ سے متاثر کن فیصلے تھے ۔حاجی صاحب کی ٹیم اگرچھ تمام تر ڈاکٹری نسخوں کے باوجود ہار گئی لیکن ان کی اور ڈاکٹر صاحبہ کی فائٹنگ سپرٹ کی داد دینا پڑیگی -ڈاکٹر صاحبہ کے بروقت لقموں اور حاجی صاحب کی گائیکی نے مقابلے کو کسی بھی لمحے یکطرفہ نہ ہونے دیا – خاموشی سے شروع ہونے والا سفر دلفریب مناظر، بہترین یادوں اور خوبصورت قہقوں کے ساتھ اپنے اختمام کو ٹھیک اسی مقام پر ختم ہوا جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔
Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے