میڈیا سے وابستہ کچھ لوگ عمران خان کے دھرنے میں صحافت کرنے نہیں بلکہ سیاست کرنے گئے ہوئے ہیں ۔ ابھی کچھ ویڈیوز دیکھیں تو میں حیران رہ گیا ۔ میڈیا اداروں کو اپنے رپورٹرز کی تربیت کرنی چاہیے کہ رپورٹنگ کیسے کرنی ہے ۔
جو مناظر میں نے دیکھے ، وہ رپورٹنگ کے بجائے کسی پارٹی کے کارکنان کو اشتعال دلانے جیسے اعمال پر مبنی تھے ۔ میں کئی ایسے لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ جنہوں نے ایسے موقعوں کو ذاتی شہرت کیلئے استعمال کیا ۔ صحافی کا کام خبر دینا ہے ، خبر بننا نہیں .
پریس کلب اور صحافتی تنظمیوں کو اس رویے پر غور کرنا چاہیے اور میری ذاتی رائے میں تو اس کی سخت سر زنش کی جانی چاہیے ۔ ممکن ہے کہ میرے کچھ صحافی دوستوں کو میری بات بری لگے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم اس قسم کی حرکتیں کرکے اپنے پیشے کا وقار اور اعتماد مجروح کر رہے ہیں . ہمارے اینکرز تو چھاتہ بردار ہیں لیکن رپورٹنگ کی حساس ترین ذمہ داری نبھانے والوں سے میں کبھی بھی اس قسم کی توقع نہیں رکھ سکتا تھا ۔
ہمارے ٹی وی چینلز کی پالیسیوں میں بھی واضح جھکاو محسوس ہو رہا ہے ، یہ چھوٹے چینل نہیں بلکہ بڑے اور نمائندہ ٹی وی چینلز ہیں ۔ جیو نیوز اسی جھکاو کی وجہ سے اپنی ساکھ داو پہ لگا رہا ہے ۔ اسی طرح اے آر وائی کی مثال بھی آپ کے سامنے ہے ۔ سما ٹی وی ، ایکسپریس اور دنیا کو بھی آپ دیکھتے ہیں کہ ان میں ایک خاص لائن دکھائی دیتی ہے ۔ حال ہی میں منظر پر آنے والے بول نیوز کے بارے میں بھی یہی رائے پائی جاتی ہے کہ اس کا نشریہ ایک خاص لائن کے تحت ہے ۔ یہ سب کچھ انتہائی قابل افسوس ہے کیونکہ اس سے صحافیوں اور میڈیا ہاوسسز کا وقار اور اعتماد مجروح ہورہا ہے .
بے شک سیاسی اور مذہبی ایشوز پر آپ کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے ، آپ طنز بھی کر سکتے ہیں لیکن میڈیا کا مائیک اٹھا کر ، میڈیا کے کیمرے کے سامنے ، میڈیا کا کارڈ گلے میں ڈال کر ، جلسہ گاہ میں میڈیا کی جگہ پر بیٹھ کر اس قسم کا کام کرنا غیر پیشہ وارانہ طرز عمل ہے ۔ آپ اپنی ذاتی رائے کا اظہار ضرور کیجئے لیکن اس وقت آپ کو موقع کا خیال ضرور کرنا چاہیے . جلسہ گاہ میں ایک خاص ماحول ہوتا ہے اور ہمارا کام رپورٹ کرنا ہے ، کسی کا تمسخر اڑانا یا کسی کا استہزا مقصود نہیں ہوتا ، اگر آپ ایسا کر رہے ہیں تو یاد رکھیے ” آپ پر ہونے والا حملہ آزادی صحافت کا مسئلہ نہیں بنے گا ” . حملہ کسی کا بھی کسی پر روا نہیں اور ناہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے تاہم مروجہ ماحول میں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنا آپ کا کام ہے ، کسی اور کا نہیں .
آپ تو صحافی کے بجائے فریق بن گئے ، اب اگر اس صورتحال میں کوئی گڑ بڑ ہو جاتی ہے تو یہ آزادی صحافت کا مسئلہ نہیں بلکہ تربیت اور ذمہ داری کا احساس نہ ہونے کا معاملہ ہے ۔ بد قسمتی سے اکثر لوگ درسگاہ صحافت سے نہیں اٹھے بلکہ ان کی کڑیاں رصد گاہ سے ملتی جلتی ہیں ۔ اکثر کی تعلیم بھی ماشاءاللہ ہے ۔
امید ہے کہ جو لوگ مجھے پڑھ رہے ہیں ، انہیں بات سمجھ آ گئی ہو گی ورنہ یہ مائیک ، کیمرے اور میڈیا کارڈ بندر کے ہاتھ میں استرے والی بات ہی ہے ۔