یوم تشکر: امریکہ کی برابری

سوچتا ہوں کہاں سے شروع کروں؟ ۔ چلیں، پہلے فیس بک پر ہونے والے تبصروں سے شروع کرتے ہیں۔ فیس بک ، سوشل میڈیا کا اہم ذریعہ بن چکا ہے، اس میں آپ جن کے ساتھ جڑتے ہیں وہ آپ کے دوست یعنی فیس بک فرینڈز کہلاتے ہیں لیکن ہم لوگ جب کوئی سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہیں تو تہذیب کا ، اخلاق کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ جس کے مزاج کے خلاف ہو، وہ آپ کو ایک منٹ میں انتہائی بداخلاقی کے ساتھ تہذیب اور اخلاق سکھائے گا۔

فیس بک آپ کا ذاتی پیج ہے آپ جو بھی لکھیں وہ صحافت نہیں مگر کچھ لوگوں کو اگر کوئی بات گراں لگے تو وہ آپ کو فوری طور پر لفافہ صحافی کہے گا، سکھائے گا کہ صحافت میں غیرجانبدار ہونا چاہئے۔ ایسے لوگ اگر پی ٹی آئی سے ہوں تو انہیں حسن نثار، مبشر لقمان اوراگر مسلم لیگ ن سے ہوں تو انہیں نجم سیٹھی اور عطاالحق قاسمی بھول جاتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں آپ نے پیسے پکڑ رکھے ہیں۔ایسے لوگ اگر صحافی ہیں تو آپ کو غیرجانبداری کا درس دینے والے ان صحافیوں کی ڈی پی ۔۔ ان کے اپنے پسندیدہ سیاسی لیڈر کی تصویر ہوتی ہے۔ واہ رے کمال کی غیرجانبداری ہے۔

کئی لوگ شہر بند کرنے کے اعلان پر بہت خوشی مناتے ہیں لیکن اگر ان کی خوشی برباد ہونے کے حوالہ سے اگر کوئی سٹیٹس اپ ڈیٹ ہو جائے تو پھر آپ کو فوری بتایا جاتا ہے کہ آپ سمجھدار اور سینئر ہیں آپ کو سمجھنا چاہئے ملک انتشار سے بچا ہے۔ تلاشی ہم نے تھوڑا لینی ہے عدالت نے لینی ہے تو وہ لے گی۔اور پھر یہی بھائی صاحب اسی شام ہونے والے خان صاحب کے جلسے میں نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ ممکنہ تشدد پر یہی نعرے بھی لگاتے پائے جاتے ہیں۔
کپتان کے جلسے کے ذکر سے مجھے یاد آیا اپنے خان صاحب نے دو نومبر کو اسلام آباد میں تاریخی دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔ وہ اس کو آخری معرکہ قرار دے رہے تھے، ان کا کہنا تھا پانامہ لیکس کے حوالہ سے کسی ثبوت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے ثابت ہو گیا ہے نواز شریف چور ہے۔ لیکن پھر خود اسی کیس میں سپریم کورٹ میں چلے گئے۔وہاں سے جیسے ہی ٹی او آرز بنانے پر سب راضی ہوئے ۔۔ عمران خان نے دھرنا سے ایک روز پہلے ہی اسے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

اس سے پہلے دو تین روز بلکہ ایک ہفتے سے جو کچھ ہو رہا تھا ۔۔ کنٹینرز لگ رہے تھے، اس پر خان صاحب نے پچاس پش اپس کے بجائے کیا کیا؟ کچھ نہیں۔ راولپنڈی میں شیخ رشید احمد نے کمال کا لکی ایرانی لگایا کوئی پولیس والا انہیں پکڑنے نہیں بھاگا مگر وہ بھاگتے بھاگتے میڈیا کی گاڑیوں تک پہنچے خطاب کیا اور نکل بھی گئے، ساتھ میں ان کی سوشل میڈیا ٹیم کے لوگ بھی پچھلی موٹر سائیکل پر سوار تھی جو ہر لمحہ کی وڈیو بنا بنا کر فیس بک پر چڑھاتے رہے۔ بہرحال شیخ رشید احمد کا کمال تھا کہ وہ سڑک پر ضرور آئے لیکن عمران خان اس میں ناکام رہے۔

عمران خان نے دھرنا کا اعلان کیا تو لوگ رکاوٹیں توڑ کے بنی گالہ پہنچے، تھوڑے سہی مگر یہ سارے عزم لے کر آئے تھے۔ گولی، لاٹھی اور آنسو گیس کی پروا کیے بغیریہ تمام لوگ اپنے لیڈر کے حکم پر بنی گالہ پہنچے۔ پہنچے تو علی امین گنڈا پور بھی لیکن ان کی شہد کی بوتل پولیس والوں نے پکڑ لی جس کے بعد وہ ناراض ہو کر بھاگ نکلے، پھر بھی کارکن وہاں پہنچے لیکن یکم نومبر کو اچانک کپتان کے دھرنا ختم کرنے کے غیر متوقع اعلان نے بہت سے کارکنوں کو مایوس کیا۔ کئی لوگ اسی وقت اپنے بستر لپیٹ کر واپس روانہ ہو گئے۔ بہت سے پھر بھی رکے رہے۔

کپتان کا فیصلہ ظاہر ہے ان کا اپنا فیصلہ ہے اور وہ اپنا برا بھلا بہتر سمجھتے ہیں لیکن جو تبصرے اور فیس بک سٹیٹس نظر آ رہے ہیں وہ بہت لطف دے رہے ہیں ظاہر ہے ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم کو بھی موقع ملا ہے۔ جس سو روپے کے نوٹ پر قائد اعظم کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا گو نواز گو۔۔ اب ن لیگ سوشل میڈیا ٹیم نے اس گو نواز گو کے اوپر لکھ دیا ظالما ساڈاسو سو لوٹا دے۔

ایک تبصرے میں لکھا ہے کشتیاں جلا کر جانے والے پراڈو پر بیٹھ کر گھر کو روانہ ہو گئے۔۔ ظاہر ہے اگر کشتیاں جلائی گئی ہیں تو واپسی کا سفر کیسے ہو سکتا ہے۔۔ تو جناب پیش خدمت ہے بلٹ پروف امپورٹڈ ٹویوٹا لینڈ کروزر۔۔ جس میں ارب پتی علیم خان بطور ڈرائیور موجود ہوتا ہے۔ایک جگہ لکھا تھا دھرنا تو نہ ہوا لیکن لوگوں کو یہ معلوم ہو گیا شہد کسے کہتے ہیں پہلے وہ غلط چیز استعمال کرتے رہے ہیں اب وہ ہمیشہ ریڈ لیبل یا بلیک لیبل شہد ہی استعمال کریں گے۔ غالباً ریڈ لیبل چھوٹی مکھی کا اور بلیک لیبل بڑی مکھی کاشہد ہے۔

ایک دل جلے نے لکھا جو مر گیا وہ شہید، جو بچ گیا وہ غازی اور جو بھاگ جائے وہ نیازی۔۔ میں اس بات کی سخت مذمت کرتا ہوں۔۔ نیازی بھاگا نہیں تھا اس نے بس ہتھیار ڈالے تھے ۔ اس سے زیادہ معلوم نہیں کیوں مگر کی بورڈ ٹائپنگ کرنے سے منع کر رہا ہے۔ ایک اور دوست نے لکھا قالین بیچنے والے پٹھان والا کام ہوا ہے یعنی قالین کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے لگائی اور ڈیڑھ سو میں فروخت کر دیا۔ یار کتنے گندے بچے ہیں ایسی باتیں کرتے ہیں جن کا سر پیر نہیں ہوتا۔ حیرت کی بات اس وقت ہوتی جب کوئی ڈیڑھ سو کا بتا کے ڈیڑھ لاکھ میں قالین فروخت کرتا۔

ایک دوست نے مجھے پیغام بھیجا ہے، اس کا کہنا ہے پی پی پی کے خورشید شاہ کا بیان پڑھ کر مجھے بہت ہنسی آئی ہے کیونکہ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے ہمیشہ نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، حالانکہ ڈبل شاہ صاحب خود فرینڈلی اپوزیشن ہیں۔۔ میں اپنے اس دوست کو کہتا ہوں ڈاکٹر صاحب، آپ غلط بات نہ کریں۔ خورشید شاہ کی تو بات چھوڑیں یوسف رضا گیلانی بھی کرپشن کے سخت خلاف ہیں، آصف علی زرداری بھی کرپشن کے خلاف ہیں۔۔ اب آپ ہنسیں مت ، یہ ہنسی کی بات نہیں ہے۔۔ انہیں کرپشن سے سخت نفرت ہے، ایک دوست کو سگریٹ سے نفرت تھی وہ کہتا تھا میں سگریٹ کو پی پی کر ختم کر دوں گا اسی طرح پیپلز پارٹی بھی کرپشن کر کے اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اب آپ پھر ہنس رہے ہیں حالانکہ یہ ہنسنے والی بات نہیں۔میں سنجیدہ ہوں۔

بہرحال لوگ کچھ بھی کہیں مجھے عمران کا یہ دھرنا نہ کرنے کا فیصلہ بہت پسند آیا ہے، بہت سارے صحافی دوست جو دھرنا ڈیوٹیاں دے دے کر تنگ آ گئے تھے ان سب نے اس فیصلے کو سراہاہے اور سب مل کر کہتے ہیں شکریہ عمران خان۔میرے پاس تاریخ کا ایک واقعہ ہے جسے میں پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ وہ خود فیصلہ کر سکیں کہ یہ فیصلہ غلط ہے یا درست؟ لیکن سب سے زیادہ دکھ میڈیا ہاؤسز کو ہوا ہے جنہیں ابھی مزید حکومتی اشتہارات بھی ملنے تھے اور عمران خان کو دکھانے پر بھی ریٹنگ کی بارش ہونا تھی مگر عمران کی جلد بازی نے ایسا نہیں ہونے دیا۔

کہتے ہیں ویت نام میں امریکہ کو شکست فاش ہوئی تو سوچا گیا کس منہ سے جائیں گے؟ ایک امریکی سینیٹر جارج ڈیوڈ ایکن نے تجویز دی کہ فتح کا اعلان کر دیا جائے، جس کے بعد امریکہ بہادر نے ویت نام کی کامیابی کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اس روز یوم تشکر منانے کا بھی اعلان کر دیا۔ آپ لوگ خوامخواہ اسے قالین کے واقعہ سے جوڑتے ہیں۔ اگر امریکہ نے یہ فارمولہ استعمال کر کے دنیا کا سپر پاور ہونے کا اعزاز پایا تو سوچیں جلد ہی عمران خان بھی پاکستان کی سپر پاور ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے