گذشتہ دو ماہ سے اور خاصکر 30 ستمبر2016 سے پاکستان تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کا اعلان کررہے تھے۔چھ ستمبر کو عمران خان نے کراچی میں ایک جلسہ کیا جس میں اتنے ہی لوگ تھے جو عام طور پر کراچی میں ایم کیو ایم کی کارنر میٹنگ میں ہوتے ہیں اور خان صاحب نےپہلی مرتبہ کراچی میں کھل کر الطاف حسین کے خلاف تقریر کی جس کی وجہ الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریرتھی۔ لیکن پھر بھی وہ کراچی کے جلسے میں الطاف حسین کے خلاف کم اور وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن کے الزامات اورپاناما لیکس پر زیادہ بولے۔ 30 ستمبر کو عمران خان نے رائیونڈ کے اڈہ پلاٹ پر ایک بڑا جلسہ کیا، اس جلسے میں شرکا کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھی۔عمران خان نے نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ یا تو آپ تلاشی دیں یا آپ استعفی دیں ورنہ 30 اکتوبر کو پی ٹی آئی اسلام آباد کو لاک ڈائون کرئے گی لیکن کسی نے ان کو چھیڑا کہ 30 اکتوبر کو اتوار ہے تو انہوں نے اسلام آباد کو لاک ڈائون کےلیےدو نومبر کا اعلان کیا۔ لاک ڈائون کا سیدھا سیدھامطلب ہوتا ہے سب کچھ بند۔
دو نومبر کو کھیلے جانے والا‘‘اسلام آباد لاک ڈائون’’ میچ نواز شریف اور شہباز شریف کی جمہوری حکومتوں نے جمرات 27 اکتوبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت حسین صدیقی کے ایک متنازہ فیصلے کے بعد ہی شروع کردیا اور خود حکومت نے ہی اسلام آباد کوتقریباً لاک ڈائون کرڈالا ۔ جسٹس صدیقی نے احتجاج کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ دو نومبر کو کسی کو بھی اسلام آباد بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔عمران خان کو اسلام آباد بند کرنے سے روکتے ہوئے پریڈ گراؤنڈ میں احتجاج کرنے کو کہا گیا تھا، جسکو انہوں نے فوری طور پرمسترد کردیا تھا۔ لیکن حکومت نے فورا ہی اس فیصلے کے خلاف جس میں کہا گیا تھا کہ راستے بندنہیں کیے جاینگے، اسلام آبادجانے والے راستے بند کردیے۔اس کے علاوہ اسلام آباد میں پہلے اور بعد میں پورئے پنجاب میں دفعہ 144 کا نفاد کردیا گیا۔ عمران خان کے بنی گالہ کےگھر جانے والے راستے کو طاقت کے زریعے بند کیا گیا اور پولیس اپنے روایتی انداز میں عمران خان کے گھر کی طرف جانے والوں کو روکنے کے لیےبھرپور طاقت کا مظاہرہ کرتی رہی۔ لاہور اور پشاور سے اسلام آباد کی طرف آنے والے راستوں کو کنٹینرلگاکر بند کردیے گئے جسکا اثرکراچی اور پشاور کے درمیان چلنےوالے ٹریفک پر بھی براہ راست پڑا۔
اتوار 30 اکتوبر کو نوشہرہ کے علاقے مانکی شریف میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا تھا کہ ہمیں بنی گالا جانے سے دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی، عدلیہ آزاد ہے، عمران خان کو بنی گالا سے نکال کر دکھائیں گے، وفاق نے غیور پٹھانوں کو للکارا ہے، پٹھان تحریک انصاف ہے اورتحریک انصاف پٹھان ہے۔ پرویز خٹک نے کہا کہ نواز شریف سے کہتا ہوں ہمارا حق نہیں دیتے، ہماری بات نہیں سنتے، باغی بنانا چاہتے ہو، باغی بن گئے تو ملک کا حشر نشر ہوجائے گا۔ نواز شریف سے کہتا ہوں، چوہدری نثار سے کہتا ہوں اور شہباز شریف سے کہتا ہوں آپ نے ہمارے راستے بند کردیئے، ہمیں پاکستان سے کاٹ دیا ہے، پاکستان سے جدا کرو گے تو برا حشر کرکے دکھاؤں گا ،تم میرے صوبے میں کیسے آؤگے، صوبے میں کبھی نہیں چھوڑوں گا ۔ اس تقریر کے بعد ایم کیو ایم نے یہ بیان دیا کہ اگر یہ تمام باتیں ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے کی جاتیں تو شاید اب تک ہم غدار قرار دیے جاچکے ہوتے،جبکہ قومی سطح پر اس تقریر کی مذمت کی گئی ہے، یہ تقریر ایک کھلے تعصب کا اظہار تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنےپہلے سے اعلان کردہ یکم نومبرکوپاناما لیکس کے معاملے پر کارروائی کا آغاز کیا۔ سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کی وجہ سے سامنے آنے والے الزامات کے سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سے کہا کہ وہ پاناما پیپرز کے کمیشن کے لئے اپنے ٹی او آرز عدالت میں جمع کروائیں ۔ عدالت نے الزامات کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا جسکو دونوں فریقین نے تسلیم کیا ہے، عدالت نے یہ بھی واضع کیا کہ کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سمجھا جائے گا اور فریقین کو لازمی اسے ماننا پڑے گا۔ افسوس عمران خان دو نومبر کا میچ یکم نومبر کو ہی ہا ر گئے اور یکم نومبر کوتحریک انصاف کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم سپریم کورٹ میں اپنا میچ جیت گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ اب دو نومبرکوہم اسلام آبادکو لاک ڈائون کرنے کے بجائے پریڈ گراونڈ میں یوم تشکر منایں گے۔اس موقعہ پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ یاد آئے جو کہتے ہیں کہ عمران خان نواز شریف کی بہت مدد کررہے ہیں۔ نواز شریف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جو بات عمران خان نے سات ماہ بعد مانی ہے اگر پہلے ہی مان لیتے تو یہ سب کچھ نہ ہوتا جو ہوا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر آصف کرمانی کا کہنا تھاکہ عمران خان یوم پسپائی اور لال حویلی یوم رسوائی منائے گا، پی ٹی آئی کا دھرنا کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ثابت ہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا کہنا تھا کہ ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلانے کی کوشش ناکام ہوگئی امید ہے شکست خوردہ لوگ اپنی شکست سے سبق سیکھیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے دھرنا اور احتجاج ختم کرنے کے بعد کافی سیاسی رہنمائوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ علامہ طاہر القادری نے عمران خان کے اس فیصلے پر اناللہ وانا الیہ راجعون کہا اور یوم تشکر کے سلسلے میں ہونے والے جلسہ میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔تحریک انصاف کے سابق صدر اورسینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کا یہ یوم تشکر نہیں یوم تضحیک ہے، عمران خان قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں اور خود کو سمجھتے ہیں کہ ان سے زیادہ عقلمند کوئی نہیں ہے۔سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے احتجاج میں کم عوامی شرکت کے پیش نظر لاک ڈاؤن موٴخر کیا ہے۔سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامیوں کی اکثریت انکے فیصلے کی حمایت کررہی ہےجبکہ کچھ اپنی قیادت پر جارحانہ انداز میں تنقید کررہے ہیں۔ عمران خان سے پوچھا جارہا ہے کہ اگر آپ کو یکم نومبر کو ہی میچ ختم کرنا تھا توکے پی کے اور دوسرئے علاقوں سے آنے والےہزاروں لوگوں کو امتحان میں کیوں ڈالا گیا، جو نوجوان کھجوریں، چنے، پانی کی بوتلیں ساتھ لیکر آئے تھے وہ ایک عزم اور مقصد کیلئے آئے تھے یہاں یوم تشکرمنانے نہیں آئے تھے۔
سینئر تجزیہ کاروں نے پریڈ گراونڈ میں ہونے والے سیاسی میلہ کے سلسلے عمران خان سے پوچھا ہے کہ وہ کس بات پر جشن منارہے ہیں، کیا وہ اس پانچ دن کے بچے کی ہلاکت کا جشن منارہے ہیں جسے وہ تحریک کا پہلا شہید قرار دے رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی عمران خان سے یہ ہی پوچھا جارہا ہے کہ عمران خان کس کامیابی پر یوم تشکر منارہے ہیں، کیا وہ اپنے دو کارکنوں کی شیلنگ سےجاں بحق ہونے اور ایک فوجی افسر کی ناگہانی موت کا جشن منارہے ہیں۔ عمران خان نےکیوں حسب سابق یو ٹرن لیتے ہوئےاسلام آبادکو لاک ڈائون کرنے کے بجائے یوم تشکر کا اعلان کیا؟ جواب سیدھا سیدھا ہےکہ عمران خان اورپی ٹی آئی کی قیادت اپنے دعوی کے برخلاف عوام کو نہ ہی متحرک کرسکے اور نہ ہی بڑی تعداد میں انکواسلام آباد لاسکے۔ اسلام آبادکو لاک ڈائون کرنے کے حوالے سے ہلچل صرف پنجاب اور کے پی کے میں تھی، سندھ اور بلوچستان میں عوامی سطح پر اسلام آباد میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
یوم تشکر کے جلسے میں عمران خان نے جو کچھ کہا وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں، جلسے میں شرکا کی تعداد عمران خان کے دعوں کے برعکس بہت کم تھی، یہ ایسی ہی تھی جیسے عام طور پر ماضی میں پی ٹی آئی کے جلسوں میں رہی ہے۔ جلسے میں موجود کارکنوں میں جوش وخروش تو تھا لیکن ان میں سے بعض عمران خان کی جانب سے دھرنے کی کال واپس لیے جانے پر مایوس تھے۔ یوم تشکرمیں شرکت کے بعد پی ٹی آئی کے کارکن شاید آپس میں کہہ رہے ہونگے ‘لاک ڈائون تو ہوانہیں آوُ اب لوٹ چلیں’۔ اصل جشن تو نواز شریف کو منانا ہے، وہ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں اتنی جلدہی فیصلے نہیں ہوا کرتے۔موجودہ چیف جسٹس 30 دسمبر کو ریٹائر ہوجاینگے اور تب تک شاید فیصلہ نہ ہوپائے، پاکستان میں عدالتی فیصلوں میں ایک مدت درکار ہوتی ہے،اصغر خان کیس کی مثال ہمارئے سامنے موجود ہے۔سپریم کورٹ سےقتل کےایک ملزم مظہرکو انیس سال بعد انصاف ملتا ہے اور رہا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، بے شک انصاف ہوا بس فرق صرف اتنا ہوا کہ مظہر کو جب رہائی ملی تو اس کو طبعی موت مرئے ہوئے دو سال ہوچکے تھے۔ یوم تشکر میں موجودراولپنڈی کی ایک خاتون سمیہ کا کہنا تھا کہ‘پہلے دھرنا دینا تھا اب صرف جلسہ ہورہا ہے۔۔۔ لیکن کوئی بات نہیں ایک دن عمران خان لیڈر بن ہی جائیں گے’۔