ڈیول ایڈوکیٹ اور امریکی انتخابات

پیر ، فقیر اور ولی یوں تو ہر خطے ، رنگ ، نسل اور مذہب کی ریت اور روایت کا حصہ رہے ہیں لیکن یہ اعزاز رومن کیتھولک چرچ کو ہی حاصل ہے کہ اس نے مذہب سے نتھی ہر چھوٹی بڑی جزیا ت کی طرح اس پیری فقیری کو بھی ایک سسٹم کے اندر سمودیا ۔ کلیسا کی طرف سے ولی کی زندگی اور روحانیت پر باقاعدہ طور تحقیقات ہوتی تھی جن کے بعد ولایت کا پروانہ جاری کیا جاتا تھا جو کسی کی بزرگی کا حتمی اعلان تصور ہوتا تھا۔اس سارے عمل کو (canonization)کے نام دیا جاتا تھا۔

جب بھی کوئی نیک شخص مرتا ،جس کی کرامات کا چر چا ایک دنیا میں ہوتا تھا تو اس کی ولایت کی تصدیق یا تردید کے لئے کلیسا کی طرف سے ایک کمیٹی بنائی جاتی جو ایک طرح کے ٹرائل کورٹ کی مانندہوتی تھی۔کچھ لوگ جج مقرر کئے جاتے تو کچھ متحارب دلا ئل دینے کے لئے فر یق مقرر ہوتے ۔ایک فریق اس بزرگ کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے اور اس کی پاکبازی اور کرامات کو ڈھونگ ثا بت کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتا اس کو ڈیول ایڈوکیٹ (devil advocate)کہا جاتا اور دوسری طرف جوان الزامات کو دفع کرنے کے لئے دلائل اور گواہ پیش کرتا اس کو گا ڈ ایڈوکیٹ سمجھا جاتاتھا ۔نتیجہ جو بھی نکلے لیکن ایک بات طے ہوتی تھی کہ اس ساری جرح اور قدح کے دوران عام عوام کی نظر میں اس ڈیول ایڈوکیٹ کی لئے نٖفرت عروج پر ہوتی ہوگی جو ان کے محترم اور متبرک بزرگ کورندہ ثابت کرنے کے زمین آسمان ایک کئے ہوتا ہوگا۔

گزشتہ ایک سال سے جاری امریکی انتخابات جو پوری دنیا کے ہواس پر چھائے ہوئے ہیں ان کی اصل کہانی بھی کلیسا کے اس (cannonization)کے عمل سے کچھ مختلف نہیں ہے۔منہ پھٹ،متکبر،بدکردار،عیاش اور انسان دشمن ڈونلڈ ٹرمپ کا ڈرامائی عروج کی طرف حیرانی سے اٹھتی سوالیہ نظریں بھی اگر کہیں اس کے آخری مرحلے تک پہنچنے کاجواب تلاش کرسکتی ہیں تو وہ یہی صدیوں سے چلا آنے والے ولایت کی سرٹیفکیشن کے کلیسائی نظام میں ہے۔امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پا ور ہے ، اس کی پالیسیاں دنیا کے سماجی،سیاسی اور معاشی حرکیات میں جس طرح کی تبدیلیاں لاتی ہیں ،ان کی وجہ سے پوری دنیا کی اس ملک کی سیاسی تبدیلی کے عمل میں دلچسپی اور تفکر ایک سمجھ میں آنے والا امر ہے۔جہاں تک امریکی عوام کی بات رہ گئی تو ان کے لئے وائٹ ہاؤس کا مکین کسی مسیحا یا ولی سے کم نہیں جو ان کے بین الاقوامی سے لے کر لوکل ایشوز کو اپنے تکوینی پالیسیوں ، اختیارات اور فیصلوں کے ذریعے حل کرسکے۔

امریکی صدر کے انتخاب دو مرحلوں میں ہوتا ہے پہلے مرحلے میں دو بڑی مین سٹریم پارٹیاں اپنے امیدواروں کی چھانٹی کر کے ایک سیاستدان کو بڑے دنگل کے لئے نامزد کرتی ہے اس پہلے مرحلے کو پرائمری ا لیکشن کہا جاتا ہے، دوسرے مرحلے میں نامزد دو امیدوار وائٹ ہاوٗس میں پہنچنے کے لئے اپنے سینگ لڑاتے ہیں ۔امریکی ووٹ بینک کو دیکھا جائے تو اس میں واضح قسم کی تقسیم موجو د ہے۔ ایک ڈیموکریٹ، ریپبلکن ووٹرز تو اپنی پارٹی کے امیدوار کوہی ووٹ ڈالتے ہیں لیکن اصل اہمیت تیسرے (non-commited voters) غیر جانب دارووٹرز کی ہے۔آخری جنگ ان کو اپنے زیردام لانے کے لئے لڑی جاتی ہے۔۔اس سارے عمل کے دوران جو ایک سال سے کچھ اوپر ہی جاری رہتا ہے، امیدواروں کو اپنے وژن سے لے کر ذاتی زندگی تک ہر چیز کو عوام کے سامنے سکین کرانا پڑتا ہے اور انھیں امریکی رائے عامہ کو جلسے ،جلوسوں، تقاریر،کنونشنز، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر انٹرویوز اور اشتہاری مہمات کے ذریعے قائل کرکے یہ باور کرانا پڑتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے مکین کے طور پر وہ سب سے قابل امیدوار ہیں۔

اس تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ساری انتخابی مہم کو دیکھا جائے تو ہر ایشو پر اسکا سٹینڈ با لکل منفی نظر آتا ہے۔تارکین وطن کا معاملہ ہویا کالوں اور دیگر اقلیتوں کے ایشوز، مشرق وسطی کے حالات ہوں یامسلمانوں کے بارے میں بیانات، چین اور روس کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہو یا مستقبل کی پالیسی سازی، روایتی یا عقلی دلیلوں سے ہٹ کر موقف اختیار کرنا ہی ٹرمپ کی روش رہی ہے۔ٹرمپ کا یہ سٹینڈ کثیر القومی امریکی سماجی اور خلاقی اقدارسے متصادم تونظر آتا ہے لیکن اس کے باوجودبعض ایشوز پر اس کے انتہا پسند موقف نے قدامت پسند گورے امریکیوں میں ٹرمپ کو مقبول بنا دیا ہے۔لیکن یہ حمایت اس کو فیصلہ کن برتری نہیں دلا سکی ۔ٹرمپ کے برعکس مخالف امیدوار ہیلری کلنٹن کا ہر ایشو پر اختیار کیا گیا میانہ رو،رواداری،امریکی اقدار اور احترام انسانیت پر مبنی اسٹینڈنے اسکی نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی ساکھ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر بنائی ہے۔ ہیلری کلنٹن واضح طور پر اب امریکی ووٹرز کے سامنے ان کے ایشوز پر گاڈ ایڈوکیٹ بن کر کمپئین کر رہی ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو میڈیا سے لے کر امریکی عوام کے بڑے حصہ میں ڈیول ایڈوکیٹ گردانا جا رہا ہے۔

اسی تناظر میں جب سے ریپبلکن پارٹی میں ٹرمپ کی نامزدگی یقینی ہوئی ہے تب سے ہر طرف یہی دہائیاں مسلسل دی جارہی ہیں کہیں یہ خبطی امریکہ پر مسلط ہوکر اس ملک کا بیڑہ نہ غر ق کردے۔صدارتی مباحثوں میں بھی اینکرز کا رویے صاف ہیلری کی حمایت میں نظر آتا تھا ۔پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے ٹرمپ کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں اور اب تمام پول اور سرویز کے علاوہ ہوا کا رخ بھی یہ لگنا شروع ہوگیا ہے کہ ہیلری باسانی معرکہ مار لے گی ۔ اس انتہاؤں کی سیاست کے با رے میں بعض لوگوں کی یہ رائے بھی صائب ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے انتہا پسند کو سامنے ہی اس لئے لایا گیا ہے تاکہ ہیلری کی کڑوی گولیاں اور منافقت بھرے ڈھکوسلے لوگوں کو بھانے لگیں ۔

ٹرمپ کی متوقع شکست کے باوجود تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ امریکی رائے عامہ بعض اوقات آخری لمحوں میں بظاہر ہارنے والے امیدوار کے حق میں ہموار کر دی جاتی ہے اور اگر ٹرمپ جیسے جنونی کے حق میں یہ ہوجائے تو اس سے زیادہ بدترین بات کیا ہوسکتی ہے۔ ہوا کے رخ بدلنے کی سب سے تازہ مثال 2004کے امریکی انتخا بات ہیں۔نائن الیون کے بعد شروع ہونے والے سے جنگ سے تباہ حال امریکی معیشت،ہزاروں امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور پوری دنیا میں امریکہ کے خلاف پھیلی نفرت نے اس وقت کے صدر اور صدارتی امیدوار بش کی مقبولیت کا گراف خوفناک حد تک نیچے گرا دیا تھا اور بش آج کے ٹرمپ کی طرح ڈیول ایڈوکیٹ بنا ہوا تھا اس کے مقابلہ میں جان کیری جنگ کو محدود کرنے اور دوسرے عوام دوست انتخا بی نعروں کی وجہ سے یقینی فاتح امیدوار گردانا جارہا تھا۔پھر الیکشن سے چند دن قبل اسامہ بن لادن کا ایک ویڈیو پیغام سامنے آیا جس میں اس نے الیکشن کے دنوں میں امریکہ کو خاک اور خون میں نہلانے کی دھمکیاں دی ۔اس ویڈیو پیغام کے بعد چشم زدن میں امریکی ووٹرز کو بش اپنا نجات ہندہ اور جنگی جنون میں حق بجانب لگنے لگا اوراس ادلا بدلی (role reversal)کی وجہ سے اسے چار سال مزید کھل کھیلنے کا موقع میسر آگیا۔

غرض یہ کہ جو ساری جمہوری روایا ت اورعوامی اقتدار کی نیلی پری ہمیں امریکی انتخابات میں نظر آتی ہے وہ سب وہاں کے پالیسی ساز اداروں اور کارپوریٹ سرمایہ داروں اور میڈیا کے ہاتھوں یر غمال ہے۔ امریکی ریاست کے یہ ستون اتنے طاقتور ہیں کہ کسی بھی وقت اپنے مقاصد کے حصول کے لئے شیطان کو فرشتہ اور فرشتہ کوشیطان ثابت کر کے حالات کا رخ اپنی مرضی کے مطابق بدل سکتے ہیں۔اگر ہیلری کلنٹن بالفرض اس الیکشن میں جیت بھی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ٹرمپ جیسے خبطیوں کے لئے وائٹ ہاؤس کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہوگئے کو ئی ایک ایک سکینڈل، ویڈیو ٹیپ ، دہشتگردی کی بڑی کاروائی یاکوئی سانحہ اس شخص کو دنیا کا طاقتور ترین حکمران بنا سکتا ہے جو چند کروڑ لوگوں کے لئے اربوں لوگوں کی زندگیوں کو چین لوٹ سکتا ہواس لئے امریکی جمہوریت کے گن گاتے ہوئے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا رنگ بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی ہے اور یہ رنگ اصل میں اتنے خوشنما نہیں ہیں جتنے بظاہرلگتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے