کار سرکار میں غلام گردش

کارِ سرکار میں غلام گردش:

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں نظامِ حکومت کسی لحاظ سے بھی مثالی نہیں شمار کیا جا سکتا۔ یہاں ایک مدت تک انگریزوں نے حکومت کی، اُن کے جانے کے ساتھ ہی وطنِ عزیز آزاد ہوا تو زیادہ تر اُنھی قوانین کو باقی رکھا گیا جو نوآبادیاتی حکمرانوں کے بنائے ہوئے تھے۔ انگریزوں کے بنائے ہوئےقوانین کا ایک مقصد، عوام کو افسر شاہی کے زیرِ تحت لانا بھی تھا۔ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی آئین سازی و قانون سازی پر کام ہونا چاہیے تھا لیکن باوجوہ نہ ہوسکا۔ آج ہمارے رائج کئی قوانین کا بنیادی مقصد حکومتی اداروں کے درمیان غیر ضروری چکر لگانے کے اور کچھ نہیں ہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے، بندہ اپنا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا چکا تھا، سوچا لگے ہاتھوں «ڈومیسائل» بھی بنوا لوں۔ ضلعی انتظامیہ سے رابطے پر معلوم ہوا کہ میرا نام ووٹر لسٹ میں درج نہیں، اِس لیے «ڈومیسائل» نہیں بن سکتا۔ میں سُن کر حیران رہ گیا کہ جس بندے کا شناختی کارڈ بن چکا، پاسپورٹ بھی جاری ہو چکا، جس کی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی حکومت شناخت مانتی ہے، وہ ضلعی اور صوبائی شناخت سے محروم ہے۔ میں نے الیکشن کمیشن کے ضلع دفتر میں باضابطہ حکام سے عرض کیا کہ جب پاکستان میں موبائل کال سروس مہیا کرنے والی کمپنیاں نادرا سے ڈیٹا لیتی ہیں، آپ کیوں نہیں لیتے؟ نادرا کے ڈیٹے سے ہی استفادہ کرتے ہوئے ووٹر لسٹ میں نام شامل کر لینا چاہیے، خیر بھلا ہو سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا جنھوں نے الیکشن کمیشن کو یہی ہدایت کی یوں میرا نام ووٹر لسٹ میں شامل ہوا۔ حیرت کی بات ہے اُن کی ہدایت سے پہلے نادرا الگ شہریوں کا ریکارڈ رکھتا تھا، الیکشن کمیشن الگ سے فہرستیں بناتا تھا، مردم شماری والا کھاتا اِن دو سے الگ تھلگ۔ ڈومیسائل کا پروسیجر بھی عجیب اور بے تُکا ہے، پہلے مقامی ناظم/ لمبردار/ چیئرمین/کونسلر سے تصدیق کرائیں کہ آپ اُس کے حلقے سے تعلق رکھتے ہیں، پھر پٹواری صاحب سے تصدیق کرائیں، پھر قانونگو سے، پھر تحصیلدار سے پھر ضلع کے ڈی سی او کے حضور درخواست پہنچا دیں۔ یہ سب بھی اداراتی غلام گردش کے سوا کچھ نہیں۔ تصدیق صرف مقامی ہی ہوتی ہے، پٹواری لکھتا کہ مقامی ناظم/لمبردار/چیئرمین/کونسلر نے تصدیق کی ہے، جس کی بنا پر میں بھی تصدیق کرتا ہوں۔ وہ زمین کا ریکارڈ بالکل بھی نہیں دیکھتا، قانونگو لکھتا ہے کہ پٹواری صاحب نے تصدیق کی تو میں بھی کرتا ہوں۔ تحصیلدار لکھتا ہے کہ قانونگو نے تصدیق کی ہے، لہذا میں بھی کرتا ہوں، آخر میں ڈی سی او صاحب اِن سب کی فرضی تصدیقوں پر مہر ثبت کرتے ہیں۔ حقیقی تصدیق کسی مرحلہ پر نہیں کی جاتی جبکہ دسیوں اداروں کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں۔ کاش پٹواری کے لینڈ ریکارڈ اور مقامی سطح کی منظم تصدیق پر ہی ڈومیسائل جیسی دستاویز کا اجراء ہو سکتا، ویسے شناختی کارڈ میں ضلع درج ہونے کے بعد ڈومیسائل کا فلسفہ سمجھ سے بالاتر ہے اِسی لیے ابھی تک میں نے نہیں بنوایا۔

مجھے اپنے پاسپورٹ کی تجدید کروانا تھی، اسلام آباد جی 10 میں واقع دفتر میں گیا، وہاں معلوم ہوا کہ ہمارا پاسپورٹ ہمارے ضلع کے دفتر سے نیا بنے گا، ورنہ ایک درخواست دینا ہوگی کہ بندہ عارضی طور پر اسلام آباد میں رہائش پذیر ہے، اس لیے یہیں سے پاسپورٹ کی تجدید کا موقع دیا جائے۔ میں پھر سوچ میں پڑ گیا۔ اگر میں مجرم/ملزم ہوں جس کا باہر جانا منع ہے تو اپنے علاقے سے بھی پاسپورٹ نہیں بننا چاہیے اور اگر میں اچھا شہری ہوں تو پورے ملک سے مجھے یہ سہولت دستیاب ہونی چاہیے۔ شاید حکومتی اداروں میں آن لائن ڈیٹا شیئرنگ کا نظام موجود نہیں۔ یہاں پرائیویٹ کمپنیوں نے نظام بہت مضبوط کر لیا لیکن حکومتی اداروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ یہاں آپ پورے ملک سے جہاں سے چاہیں انگوٹھا لگا کر سم لے سکتے ہیں، لیکن بائیومیٹرک ووٹ کا سسٹم موجود نہیں۔ ووٹ ڈالنے میں آج بھی دھاندلی ہو سکتی ہے، سم خریدنے میں نہیں۔ یہاں ملک بھر کے کسی علاقے سے آپ الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن اپنے حلقے سے باہر ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ بظاہر ہمارے ہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اشرافیہ کو سبھی سہولیات میسر ہیں، باقی عوام ابھی تک انگریز دور کی طرح، معمولی معمولی کاموں کے لیے بے تحاشا سرکاری دفاتر کا چکر کاٹتے ہیں۔ عوام کو مرعوب کرنے والے ہتھکنڈے آج بھی رائج ہیں، اور تو اور، اس سلطانیءِ جمہور میں، انگریز سرکار کا دفعہ 144 جیسا بنیادی حقوق سے متصادم قانون نہ صرف موجود ہے بلکہ لاگو بھی ہوتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے