سقوط جونا گڑھ

پاکستان سے الحاق شدہ ریاست پر بھارتی فوجی قبضے کی کہانی

متحدہ ہندوستان کے وقت 562 ریاستیں ایسی تھیں جن کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنا تھا۔ان ریاستوں میں سے صرف 14 پاکستان کی سرحد کے ساتھ متصل تھیں جبکہ باقی کا پاکستان کے ساتھ زمینی رابطہ نہ تھا۔ انہی ریاستوں میں سے ایک جونا گڑھ کی تھی۔

ہندوستان کی 562 ریاستوں میں سے چھٹی بڑی اور امیر ترین ریاست کی حکمرانی نواب مہابت خانچی کے پاس تھی۔یہ ریاست قدرتی وسائل سے مالا مالاور جغرافیائی طور پر بھی بہت اہمیت کی حامل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت کی اس پر رال ٹپک پڑی۔ ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ یہ ریاستیںاپنے الحاق کا فیصلہ خود کریں گی۔ چونکہ نواب مہابت خانجی کو قائداعظم سے قرابت تھی اور وہ تحریک پاکستان میں بھی شامل رہے تھے۔ اسی باعث ان کی طرف سے الحاق پاکستان کا فیصلہ یقینی امر تھا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا اور 1947 ہی میں نواب مہابت خانجی نے تقسیم کے فوری بعد الحاق پاکستان کا فیصلہ کرلیا وہ اس فیصلے کی توثیق کے لیے پاکستان آئے اور قائداعظم محمد علی جناح سے ملے۔ قائداعظم نے ان کے فیصلے کو خوب سراہا اور اس کا خیر مقدم کیا۔چنانچہ 19 ستمبر 1947 کو قائد اعظم پاکستان کی قومی اسمبلی میں الحاق جونا گڑھ قرارداد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیاگیا۔ یوں جونا گڑھ با ضابطہ طورپر پاکستان کا حصہ بن گیا۔

بھارت سرکار کو یہ ہضم نہ ہوا۔ چنانچہ اس پر فوجی قبضے کے لیے تگ ودود شروع ہوگئی۔ کراچی جوناگڑھ سے صرف 380 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ یوں ہم سمندری راستے سے جونا گڑھ سے مل سکتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا میں ایسی مثالیںموجود ہیں کہ دو خطے آپس میں جن کا زمینی راستہ نہیں ہے لیکن وہ ایک ملک ہیں ۔ لیکن بھارت نے اسی بات کو جواز بنا کر کہ جونا گڑھ اگر پاکستان کے حصے میں آیا تو خوراک کی فراہمی اور دیگر معاملات میں بری طرح متاثر ہوں گے۔چنانچہ فوری طور پر جونا گڑھ میں نواب مہابت خانجی کی حکومت کو گرانے کے لیے کاوشیں شروع ہوئیں 9 نومبر 1947 ء کے دن بھارت سرکار نے اپنی فوجیں جونا گڑھ میں داخل کردیں۔ اور یوں باقاعدہ پاکستان کی سرحد کی خلاف ورزی کی گئی اور عالمی قوانین کی پامالی کی گئی، جونا گڑھ کی ریاستی فوج نے اگر چہ بھارتی فوج کا مقابلہ کیا لیکن وہ تعداد کی اور وسائل کی قلت کے باعث زیادہ عرصہ ٹھہر نہ سکی۔ بھارت نے نواب مہابت خانجی کی حکومت کو گرانے کے بعد وہاں پر ایک عارضی حکومت قائم کی جوکہ ان لوگوں پر مشتمل تھی، جو بھارت کے وفادار تھے۔ جس شخص کو نگر ان وزیر اعلیٰ بنایا گیا، وہ جونا گڑھ کا رہائشی نہ تھا، وہ مہاتما گاندھی کا بھتیجا تھا۔ یوں بھارت نے پاکستان کو اطلاع دی کہ یہاں ہم صرف اس لیے حملہ آور ہوئے ہیں کہ ہمیں یہاں کی ریاست کی طرف سے مدد کی درخواست کی گئی تھی۔ وہ درخواست تو نجانے کہاں تھی۔ البتہ بھارت نے یہ موقف اختیارکیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کریں گے۔ یہ موقف اس وقت اختیار کیا گیا کہ جب پاکستان نے اس جارحیت کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ روایتی مکاری سے کام لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ہم جونا گڑھ میں رائے شماری کروائیں گے۔ اور عوام جو فیصلہ دیں گے اس کو منظور کیا جائے گا۔چنانچہ بھارت کے مفاد پرست ایجنٹوں کی زبیر نگرانی ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا جس کے نتائج بھارت کے بقول اس کے حق میں رہے، برصغیر میں معمولی سیاسی شعور رکھنے والا بھی ایسے ریفرنڈم اور الیکشنوں کی حقیقت سے خوب واقف ہے کہ حکومتی سرپرستی میں کروائے جاتے ہیں ان کی شفافیت اور منصفانی ہونے پر بہت سوالات اٹھائے گئے لیکن بھارت نے ان کا جواب نہ دیا، یوں باقاعدہ فوجی جارحیت کے بعد پاکستان کی ایک اہم ریاست جوناگڑھ پر بھارت نے قبضہ کرلیا۔

1947 ء میں پاکستان ایک نومولود اور وسائل سے محروم ریاست تھا۔ اس کے باوجود پاکستان کی جانب اس مسئلہ پر نہ صرف احتجاج کیا گیا بلکہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھارت کو احتجاجی خطوط بھی لکھے۔ یہ مسئلہ سرگرم رہا لیکن پاکستان اس وقت اپنے مسائل میں اس قدر الجھا ہوا تھا کہ یہ مسئلہ سرد خانے کی نذر ہوتا چلا گیا۔ بھارت نے اس پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ لیکن پاکستان اس مسئلے کو بھولا نہیں اور 1971 میں اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جایا گیا اور کشمیر کے ساتھ اس کو منسلک کیا گیا۔ اقوام متحدہ میں اس پر بھی قراردادیں موجود ہیں لیکن جس طرح بھارت نے کشمیر پر قراردادوں کو نظر انداز کر رکھا ہے اسی مانند جوناگڑھ ریاست کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔

نواب مہابت خان جی پاکستان میں مقیم تھے اور وہ پاکستان میں ہی رہے ان کا مقبرہ جونا گڑھ ہاؤس میں موجود ہے۔ اب مہابت خانجی کے پوتے نواب جہانگیر خانجی آج بھی جونا گڑھ کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں ۔انہوںنے گزشتہ دنوں بھی یہ موقف دہرایا کہ وہ جونا گڑھ پر بھارتی تسلط کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو کشمیر کے ساتھ ساتھ جونا گڑھ کے مسئلے کو بھی عالمی فورمز پر اٹھانا چاہئے اور اس معاملے میں رائے عامہ کو ہموار کرنا چاہیے۔

بڑے افسوس سے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے عوام مسئلہ کشمیر سے تو واقف ہیں اور سقوط ڈھاکہ بھی کسی حد تک ہمیں یاد ہے لیکن جونا گڑھ کے مسئلے کو شاید ہم پس پشت ڈال چکے ہیں۔

9 نومبر1947 ء کے دن کو جہاں یوم اقبال کے طور پر منایا جاتا ہے وہیں اس دن جونا گڑھ پر بھارتی قضے کو دنیا کے سامنے اور بالخصوص پاکستان کی عوام کے سامنے اجاگر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں بھارت سے اپنے تمام مقبوضہ علاقے جونا گڑھ ، مناوادراور حیدرآباد دکن واپس لینے ہیں اور اس مقصد کے لیے اپنی کوششوں اور کاوشوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے