خاموش محاذ آرائی

اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اہم ریاستی اداروں کے آپس میں غیر تسلی بخش تعلقات اور ایک دوسرے کے ساتھ خاموش محاذ آرائی ہے ۔ یہ ادارے آئین میں طے شدہ اختیارات سے تجاوز کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ آرمی چیف کی تبدیلی کے بعد یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ سول ملٹری تعلقات بہتر ہو جائیں گے ۔ خواہش تو بہت اچھی ہے لیکن تعلقات بہتر بنانے کیلئے سب سے پہلے سول ملٹری قیادت کو منافقت چھوڑنی ہو گی۔

سابق آرمی چیف راحیل شریف نے اپنی ریٹائرمنٹ سے دس ماہ قبل اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے ۔ فوج کے سربراہ کی طرف سے اس غیر معمولی اعلان کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے جو کسی اور وقت بیان کریں گے لیکن اس اعلان کے بعد بھی وزیر اعظم نواز شریف سے بار بار کہا گیا کہ راحیل شریف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی جائے ۔ مسلم لیگ (ن) کی کچھ اہم شخصیات نے مجھے اصرار سے کہا کہ میں راحیل شریف کو توسیع دلوانے کی حمایت کروں۔

جب میں یہ پوچھتا تھا کہ وہ تو خود توسیع نہیں لینا چاہتے آپ انہیں توسیع کیوں دلوانا چاہتے ہیں تو مجھے کہا جاتا کہ میڈیا پر کئے جانے والے اعلانات کو چھوڑئیے، یہ خاطر جمع رکھئے کہ اگر توسیع نہ دی گئی تو ملک میں مارشل لاء لگ سکتا ہے ۔ راحیل شریف کیلئے توسیع کے معاملے پر حکمران جماعت اور وفاقی کابینہ دو گروپوں میں بٹی ہوئی تھی ۔ اس گروپ بندی کی ذمہ داری فوج پر عائد نہیں کی جا سکتی ۔ اس گروپ بندی کی وجہ حکمران جماعت کی اندرونی کمزوریاں تھیں اور انہی کمزوریوں کی وجہ سے راحیل شریف کی توسیع کے مخالف ایک وزیر پرویز رشید کو کابینہ سے نکالنے کا فیصلہ ہوا ۔

2نومبر کو عمران خان کی طرف سے اسلام آباد کو بند کرنے کا منصوبہ ناکام ہو گیا جس کے بعد توسیع کا حامی گروپ تین سال سے ایک سال پر آگیا لیکن نواز شریف نہیں مانے۔ پھر جب آصف زرداری نے اعلان کر دیا کہ وہ واپس آرہے ہیں تو راحیل شریف کو یقین ہو گیا کہ انہیں توسیع نہیں ملے گی اور اس اعلان کے اگلے ہی روز انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ جا رہے ہیں ۔ ان کے لئے الوداعی تقریبات میں وزیر اعظم نواز شریف نے انکی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے لیکن جیسے ہی جنرل قمرجاوید باجوہ کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا گیا تو ایک وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ صاحب نے فرمایا کہ سابق صدر پرویز مشرف کو آئین سے غداری کے مقدمے میں عدالتی کارروائی سے بچانے کیلئے راحیل شریف نے اہم کردار ادا کیا اور راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں مشرف کو چھپائے رکھنے کا فیصلہ بھی راحیل شریف کا تھا۔ جب تک راحیل شریف وردی میں تھے کسی حکومتی وزیر نے ایسی حق گوئی نہیں دکھائی ۔ یہ حق گوئی انکی وردی اترنے کے بعد دکھائی جا رہی ہے ۔ سول ملٹری تعلقات کی بہتری کے راستے میں یہ رویہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کا مظاہرہ دونوں طرف سے ہوتا ہے ۔

امید رکھنی چاہئے کہ سول ملٹری قیادت ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ منافقت کی پالیسی چھوڑ دیگی ۔ دونوں اپنا تلخ ماضی بھلا دیں اور ایک دوسرے کو معاف بھی کر دیں تو کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر دونوں کو تاریخ معاف نہیں کریگی اور سول ملٹری تعلقات کیلئے کم از کم ایک خطرہ موجود رہے گا۔ یہ خطرہ پاکستان کے اندر نہیں بلکہ پاکستان سے باہر ہے ۔ اس خطرے کا نام پرویز مشرف ہے ۔

آئین سے غداری اور قتل کے متعدد مقدمات میں مطلوب ملزم پرویز مشرف کو پاکستان سے فرار کرانے کی اصل ذمہ دار مسلم لیگ (ن) ہے ۔ مسلم لیگ (ن) نے مسلم لیگ (ن) کو یقین د لایا تھا کہ اگر پرویز مشرف کو پاکستان سے جانے کی اجازت دیدی جائے تو پاکستان کو بڑا فائدہ ہو گا۔ عمران خان کے دھرنے ختم ہو جائیں گے اور سیاسی استحکام آ جائے گا۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ کا نام استعمال کرکے مشرف کو پاکستان سے فرار کرا دیا حالانکہ کورٹ نے ایسی کوئی اجازت نہیں دی تھی ۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کو کرائی جانے والی یقین دہانی سفید جھوٹ نکلی۔ عمران خان کسی کے قابو میں نہ آئے اور مفرور ملزم پرویز مشرف نے بیرون ملک سے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ایسے ایسے بیانات داغے کہ مسلم لیگ (ن) نے مسلم لیگ (ن) پر بند کمروں میں جھوٹ اور دھوکہ دہی کا الزام لگا دیا۔ جب تک پرویز مشرف بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان کی منتخب حکومت کو للکارتا رہے گا اور کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران پاکستانی میڈیا پر مشرف کی وکالت کرتے رہیں گے سول ملٹری تعلقات خطرات کی زد میں رہیں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن آئین سے غدار ی کے ملزم کو پاکستان سے فرار کرانے کے بعد آئین کی دفعہ چھ ایک مذاق بن چکی ہے ۔

ہر پاکستانی پر واضح ہو چکا ہے کہ یہ آئین سول قیادت کو جیل میں پھینک سکتا ہے اور حکومت سے بھی نکال سکتا ہے لیکن ایک ریٹائرڈ فوجی جرنیل کا احتساب نہیں کر سکتا۔ مشرف کی حمایت کرنے والے ایک انتہائی کمزور اور بودی دلیل دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اکیلے مشرف کا احتساب کیوں کیا جا رہا تھا یہ احتساب 1999ء سے کیوں شروع نہیں کیا گیا جب عدلیہ نے مشرف کی پہلی فوجی بغاوت کو جائز قرار دیا؟

مشرف کے حق میں دی جانے والی یہ دلیل سیاسی ہے قانونی نہیں، سپریم کورٹ نے مشرف کے خلاف 3نومبر 2007ء کو آئین معطل کرنے کے الزام میں غداری کا مقدمہ چلانے کاحکم دیا تھا ۔ 12اکتوبر 1999ء اور 3نومبر 2007ء کے بارے میں عدالتی فیصلے مختلف ہیں۔ 12اکتوبر 1999ء کو مشرف نے مارشل لاء نہیں لگایابلکہ خود کو چیف ایگزیکٹو قرار دیا۔ صدر رفیق تارڑ کو نہیں چھیڑا، عدلیہ اور میڈیا پر پابندی نہیں لگائی، کئی ماہ تک ججوں سے پی سی او پر حلف نہ لیا۔ مشرف نے نواز شریف حکومت کی عدلیہ اور میڈیا سے محاذ آرائی کا فائدہ اٹھایا اور عدلیہ سے تین سال تک حکومت کی اجازت حاصل کرلی۔

3نومبر 2007ءکی ایمرجنسی میں مشرف کا ٹارگٹ عدلیہ اور میڈیا تھے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظربند کر دیا گیا میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں اور ایمرجنسی کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کے باوجود ایمرجنسی لگا دی گئی ۔ اگر سپریم کورٹ مشرف کے علاوہ تمام کور کمانڈروں پر بھی توہین عدالت لگا دیتی تو کہا جاتا کہ سپریم کورٹ نے فوج کو مذاق بنا دیا۔ کورٹ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک فوجی حکمران کے احتساب کا حکم دیا لیکن سول اور ملٹری قیادت نے آپس میں سازباز کرکے اس عدالتی حکم کی دھجیاں بکھیر دیں۔

اس ساز باز کے باوجود سول ملٹری تعلقات میں بہتری نظر نہ آئی اور جب جب مفرور پرویز مشرف پاکستان سے باہر بیٹھ کر منتخب حکومت کو للکارے گا تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ کچھ طاقتور لوگوں کی زبان بول رہا ہے ۔ جن لوگوں نے مشرف کو ٹرائل سے بچایا ان لوگوں کو تاریخ کے ٹرائل سے کوئی نہ بچا پائے گا یہ لوگ ایک دوسرے کی چارج شیٹ کی زد میں آئیں گے ۔کسی طریقے سے مشرف کو خاموش کروا کر سول ملٹری تعلقات کو بہتر بنا لیا گیا تو خطرہ ہے کہ حکومتی جماعت 1999ء کی طرح سول جوڈیشری تعلقات میں کشیدگی نہ لے آئے ؟

آئین میں 24ویں ترمیم کے پیچھے پیچھے 25ویں ترمیم کی تجویز بھی اپنا پھن پھیلائے بیٹھی ہے جس کا مقصد عدلیہ کے اختیارات مزید کم کرنا ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے اتحادی اندر ہی سے 25ویں ترمیم کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ حکمران جماعت کو اچانک عدلیہ سے خطرہ کیوں محسوس ہونے لگا ہے ؟آپ سمجھدار ہیں فیصلہ خودکرلیں۔ میں تو یہ عرض کرکے اجازت چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کو اصل خطرہ کسی اور سے نہیں صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) سے ہے ۔

بشکریہ : روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے