ترکی یورپی یونین کا رکن نہیں بن سکتا

جانیئے، ترکی کیوں یورپی یونین کا رکن نہیں بن سکتا؟

‎ترکی نے 1963ء میں یورپی یونین کا رکن بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ 1999ء میں ترکی کو امیدوار ملک کا درجہ دیا گیا اور 2005ء میں یورپی یونین کا رکن بننے کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز کر دیا گیا، جو آج تک جاری ہیں۔ یورپی یونین کا رکن بننے کے لیے کسی بھی ملک کے ساتھ یہ طویل ترین مذاکرات ہیں۔ کئی دیگر ملکوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز اس کے بعد ہوا اور وہ یورپی یونین کا حصہ بھی بن چکے ہیں۔
‎سوال یہ اٹھتا ہے کہ ترکی ابھی تک کیوں یورپی یونین کا رکن نہیں بن سکا؟ برسلز میں واقع یورپی کمیشن میں ایک جرمن اعلیٰ عہدیدار سے میرا بھی یہی سوال تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر ’ترکی کبھی بھی یورپی یونین کا رکن نہیں بن سکتا‘۔

‎1 یورپی یونین کی بنیاد مشترکہ تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی اکائی پر رکھی گئی تھی۔ اگر ترکی یورپی یونین میں شامل کر لیا جائے تو اس مکمل اساس پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے۔ یورپی یونین میں شامل تمام ممالک نظریاتی لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں اور مسیحی اقدار کے ساتھ ساتھ یہودی اقدار رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے کسی بھی مسلم ملک کا اس میں شامل ہونا مشکل بات ہے۔

‎2 ترکی کی آبادی تقریبا اسی ملین ہے۔ اگر وہ یورپی یونین میں شامل ہوتا ہے تو یونین کی طرف سے اسے ملنے والی رقم کا حجم 45 ارب یورو بنے گا۔ ترکی کی سالانہ شرح نمو میں اس کی زراعت کا حصہ چودہ فیصد ہے۔ اس طرح یورپی یونین کی زرعی مراعات کا بھی زیادہ حد تک فائدہ دیگر یورپی ملکوں کی بجائے ترکی کو پہنچے گا۔ یورپی پارلیمان میں سیٹیں آبادی کے لحاظ سے ملتی ہیں۔ اس طرح ترکی کو وہی درجہ مل جائے گا جو اس وقت جرمنی اور فرانس کے پاس ہے۔ ترکی کسی بھی یورپی یونین کی پالیسی پر اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ اس طرح یورپی یونین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی غریب ملک کو مضبوط سیاسی کردار مل جائے گا۔

‎ 3 ترکی مکمل طور پر براعظم یورپ میں شامل نہیں ہے۔ اگر اس کو شامل کیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ یورپی یونین کی سرحدیں کہاں ختم ہوں گی؟ پھر یورپی یونین کو یوکرائن، مشرقی یورپی ممالک اور اسرائیل وغیرہ کو بھی قبول کرنا ہوگا۔ ہاں یورپ استنبول (قسططنیہ) کو یورپی یونین میں شامل کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ کیسے ہو گا کسی کو معلوم نہیں۔

‎4 اگر ترکی یورپی یونین کا حصہ بنتا ہے تو اس کے شہریوں کو ویزہ فری انٹری مل جائے گی۔ اندازوں کے مطابق ترکی سے تقریبا تیس لاکھ افراد یورپی یونین میں ہجرت کر جائیں گے۔ یورپی یونین میں پہلے ہی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ڈیموگرافی کا مسئلہ ہے۔ یورپ میں کم شرح پیدائش اور مسلمان خاندانوں میں بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد یورپی پالیسی سازوں کے لیے پہلے ہی ایک مسئلہ ہے۔ یورپی عوام میں خوف ہے کہ اس براعظم میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے مہاجرین کی مخالفت بھی اسی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔

5 یورپی یونین نے شرط عائد کر رکھی ہے کہ ترکی تب تک یورپی یونین کا حصہ نہیں بن سکتا، جب تک وہ جزیرہ قبرص کا تنازعہ حل نہیں کر لیتا۔ اب قبرص جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہم جزیرہ اور ترکی کبھی بھی اس سے دستبردار نہیں ہوگا۔

‎6 کسی بھی ملک کو یونین میں شامل کرنے سے پہلے یورپی یونین میں عوامی سروے کروائے جاتے ہیں کیوں کہ یورپی یونین عوام میں اپنی مقبولیت کھونے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں ہر صورت میں عوامی مخالفت کو کم رکھنا ہے لیکن آج تک جتنے بھی سروے کروائے گئے ہیں، اس میں ترکی کی شدید مخالفت سامنے آئی ہے۔

‎7 اگر ترکی یورپی یونین میں آتا ہے تو اس کی سرحدوں کی ذمہ داری بھی یورپی یونین کی ہو جائے گی جبکہ ترکی کی سرحدیں بہت حد تک غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ سرحدیں بہت طویل ہیں اور انہیں کنٹرول کرنا بہت ہی مشکل ہوگا۔ ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ، انسانوں کی اسمگلنگ، سبھی کچھ کنٹرول کرنا ہوگا، جو بظاہر ناممکن لگتا ہے۔ یورپ کسی مسلمان ملک کے لیے کبھی بھی اپنے فوجیوں اور سرمائے کی قربانی نہیں دے گا۔

‎تاہم یورپی یونین کے مطالبات کے مطابق اگر ترکی اصلاحات کا عمل جاری رکھتا ہے تو یورپی یونین کی رکنیت دینے کی بجائے اسے تجارت میں مزید مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ فراہم کرنے کی بات کی جائے گی، کسی آزاد تجارتی معاہدے کی بات ہو سکتی۔ نیٹو کا وہ پہلے ہی رکن ہے اور اسی فورم کے ذریعے اس کی مزید عسکری حمایت اور حفاظت کی یقین دلایا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے