بلتستان میں کڑاکے کی سردیاں شروع ھوچکی ھیں اکتوبر کے آخری ھفتے تک ساری فصلیں سمیٹ لی جاتی ھیں ،پھر نومبر سے لے کر فروری کے پہلے عشرے تک ھر قسم کے کام کاج اور زرعی مصروفیات سے فراغت ھوتی ھے جبکہ دسمبر سے ڈھائی مہینے کے لئے تعلیمی اداروں میں بھی سردیو ں کی چھٹیاں شروع ھیں.
فراغت کے ان لمحات اور یخ بستہ سردیوں میں ویسے تو ھر کسی کو اور بالخصوص نوجوانوں کو لہو گرم رکھنے کے لئے کئی بہانے درکارھوتے ھیں کیونکہ ان کاجنوں فارغ تو نہ بیٹھے گاایسے میں ھر جوان اپناگریباں چاک یادامن یزداں چاک والی کیفیت سےگزررہاہوتاھے.
دامن یزداں تو خیر ہرکسی کے دسترس میں نہیں مگر اپنا گریباں چاک کرنا بھی بچوں کاکھیل نہیں ھےایسے میں دوسروں کے گریباں پہ نظر رکھناھی سب سے آسان کام ھوتاھےمگرمسئلہ یہ ھے کہ سردیوں میں اتنے پہناؤےاور کوٹ پہنے بلکہ جسم پہ چڑھائےجاتے ہیں کہ کسی کاگریباں توکیاگردن بھی نظر نہیں آتی بس چہرہ اور بعض اوقات کنٹوپ کی ٹوپی کے بیچوں بیچ صرف دوعددآنکھوں کے پتلے گھومتے دکھائی دیتے ہیں جن پہ نظرکیارکھنا ان سے نظریں ملانابھی دل گردے کاکام ھوتاھے.
خوش قسمتی سے یہاں ھر بالغ مردوزن پابند صوم وصلاۃ ھے نماز کی پابندی پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاتا مگر اس کی نمائش سے البتہ حتی الامکاں گریز کی پالیسی اپنائی جاتی ھے جو نہ صرف قابل ملامت نہیں بلکہ لائق تحسین ھے.
اکثر مساجد میں شام بالخصوص رات کو محلے کے سارے مرد قرآن خوان حضرات جمع ھوجاتے ھیں اور مخارج کیساتھ قرآن خوانی کیجاتی ھے اس کی صورت یہ ہوتی ہےکہ گاؤں کا عالم یا کوئی بزرگ قرآن کے پہلے پارے سے تلاوت شروع کرتاھے باقی سب خاموشی سے سماعت کرتے رھتےھیں ان کی تلاوت اس وقت تک جاری رھتی ھے جب تک ان سے کسی لفظ کی ادائیگی، مخارج یاقرآت میں کوئی غلطی نہ ھوجائے چونکہ باقی سب ان پہ نظر رکھے ھوتے ھیں اس لئے جب معمولی سی بھی کوئی غلطی ھوجاتی ھے تو سب بلند آواز سے یااللہ کہتے ھیں اس مطلب یہ ھوتاھے کہ آپ کی غلطی پکڑی جاچکی ھے اب آپ خاموش ھوجائیےاور دوسرے کو تلاوت کاموقع دیجیے. اس طرح باری باری سب تلاوت کرتے ھیں اور ھر کسی کی تلاوت کلام پاک پہ دسترس اور مہارت کا پتہ بھی چل جاتاھے .اس محفل قرآن کےشرکاء کی تواضع عام طورپر نمکین چائے اور ازوق نامی مقامی کلچے سے کیجاتی ھے جس کااھتمام باری باری سب گاؤں والےکرتے ھیں.
جہاں جہاں یہ اھتمام مغرب سے پہلے ھوتاھے وھاں مغربین اور کھانے کے بعد لوک کہانیوں اور حضرت علی علیہ السلام کی جنگوں میں بہادری کے واقعات سنانےکی محفلیں سجائی جاتی ھیں جنہیں پرانے وقتوں میں حملہ سنانے سے تعبیر کیا جاتا تھاجن کا بنیادی ماخد حملہ حیدری نامی کتاب ھواکرتی تھی، ان محفلوں میں اڑوس پڑوس کے بزرگ حضرات بھی شریک ھوتے ھیں اور حسب معلومات حصہ لیتے ھیں اس دوران خشک میوہ جات خصوصاخوبانی وغیرہ سےبھرپور انصاف کاسلسلہ جاری رہتاہے.
خواتین عموما شام کے بعد دوسرے گھروں میں جانے سے گریز کرتی ھیں جس کی کسر وہ دن میں پانی کے چشموں ،تالابوں یا ندی کنارے دھوپ سینکتے یاکپڑےدھوتےاجتماعی محافل غیبت سجاکر پوری کرلیتی ھیں ان میں پورے گاؤں کے مردوں اور غیر حاضر عورتوں کی اجتماعی اور نجی معاملات پہ انتہائی ماھرانہ تنقید،تبصرے اور تجزیے کیے جاتے ھیں کبھی کبھار کوئی تجربہ کار ادھیڑ عمر کی خاتون ممکنہ شادیوں یارشتوں کے متعلق بدشگونی پہ مبنی پیشگوئیاں بھی فرماتی ھے جو زیادہ تر سچ ھی نکلتی ھیں جس کے بعد ساس جلی بہوئیں ان سے اپنے گھریلو معاملات پہ ٹوٹکے لینا نہیں بھولتیں اور نتیجے میں چند مہینوں کے اندر خود اس اماں سے زیادہ آزمودہ کار ہوجاتی ہیں اور ساسوں کی بددعاؤں کی ابدی حقدار بن جاتی ھیں.
دن میں نوجوانوں کے لیے ھر کھیت کھیل کا میدان بن جاتاھے جہاں وہ اپنی مرضی سے ھرطرح کے کھیلوں سے لطف اندوز ہوسکتے ھیں مگر کھیل کے اس رنگ میں بھنگ تب پڑجاتاھے جب گاؤں کےکوئی کھڑپنچ ٹائپ کاآدمی مولوی صاحب کے فرمان کاحوالہ دیتے ہوئے ھر قسم کے کھیل وتفریح کو حرام قرار دیتاھے اور یہ اعلان کرتاھے کہ بہتر یہی ھے کہ یہ لچے لفنگے جوان خود ھی کرکٹ فٹبال اور والی بال وغیرہ کھیلنے سے بازرھیں بصورت دیگر وہ مولوی صاحب کے تعاون سے خود اپنے ھاتھوں ان کو اس فعل حرام سے روکنے کا فریضہ سرانجام دے کر عند اللہ ماجور ومثاب ھوگا.
کرکٹ وغیرہ کے حرام ھونے کافتوای اس وقت تک نافذالعمل رھتاھے جب تک مولوی صاحب کا اپنابیٹا بیٹ پکڑنے کے قابل نہ ھوجائے اِدھر یہ برخوردار اپنے نرم ونازک ھاتھ میں بلّاپکڑ لیتاھے اُدھر حرمت کے فتوای کی سانسیں اُکھڑنے لگتی ھیں جب صاحبزادہ پہلا چھکا مارتاھے تو بال کے باونڈری پار کرنے سے پہلے حرام کافتوی گاؤں کی باؤنڈری کراس کرجاتاھے.
اس کے بعد اس باب میں راوی چین ھی چین لکھتاھے اور سارے جوان اس نوجوان کے مشکور وممنون ھوتے ھیں جس کی جوانی کےصدقے راوی کو چین لکھنا نصیب ھوا.
یہی حال عام طور پر پینٹ شرٹ پہنے، داڑھی مونڈنے ،فلم ٹی وی دیکھنے اور ڈش انٹینالگانے کی حرمت کابھی ھوتاھے..
گلگت بلتستان کے اندرحرمت کے معاملے میں تمام ایجادات میں سب سے زیادہ موبائل فون خوش قسمت واقع ھوا ھےکہ کہیں سے اس کے حرام ھونے کا ہلکاسا فتوی بلکہ اشارہ بھی نہیں دیاگیا .
کیاقسمت لے کے آیاھے صاحب یہ آلہ شیطانی!!!
شاید مولوی صاحبان اس بارے کچھ زیادہ ھی حسن ظن کا شکار ھیں یا اس کی مخصوص افادیت کے خاصے قائل ھوچکے ھیں ورنہ موبائل کے آگے دیگر نام نہادشیطانی آلات کیابیچتے ھونگے
دروغ بر گردن راوی سنا یہ گیاھے کہ عالم ارواح میں ریڈیو اور لاؤڈ اسپیکر سے لے کر وی سی آر تک ساری قدیم ایجادات موبائل کی قسمت پہ رشک کرتے اور اپنی مشکلوں میں نوکیاگیارہ سو کی روح سے دم دعاکراتی ھیں.