اقبال اور غالب

چونکہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں ہر شخص انہیں پیار و محبت اور ادب کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ہر شخص اقبال کی شان و شوکت و عظمت کا بخوبی واقف ہے ۔
اقبال کی تصانیف کا مطالعہ میرا روز کا معمول ہے جب میں نے اقبا ل کی کتاب بانگ درا کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے غالب پر ایک غزل پڑھنے کو ملی اس کا ایک شعر اسطرح ہے
دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے

اس وقت میرا ذہن بار بار یہ سوال کر رہا تھا کہ اتنی بڑی شخصیت کا موضوع گر غالب بن رہا تو یقیناً یہ بھی کوئی بڑی شخصیت ہو گی ۔میں نے مرزا غالب کا دیوان ’’ دیوان غالب ‘‘ کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے کچھ خاص محسوس نہیں ہوا کیونکہ میں اس طرح سمجھ نہیں پا رہا تھا تو پھر میں نے ایک دوست سے راہنمائی لی تب مجھے غالب کی ایک غزل کی تشریح معلوم ہوئی مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ غالب گویا آج کے دور کا کوئی شاعر ہے جو موجودہ حالات و واقعات کا جائزہ لے کہ لکھ رہا پر ایسا تو نہیں تھا کیونکہ غالب ۱۹ویں صدی کا شاعر تھا ۔

اردو ادب کی دو ایسی شخصیات جنہیں اگر اردو کا بانی کہا جائے تو کم نہیں ۔ایک مرزا اسد اللہ خاں غالب اور دوسری شخصیت سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ۔یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ میر ۱۸ویں صدی غالب ۱۹ صدی اور اقبال ۲۰ صدی کے عظیم شاعر ہیں ۔جن کی عظمت کا احاطہ کرنا آساں نہیں ۔

[pullquote]غالب[/pullquote]:

غالب ۱۷۹۷ کو اگرہ میں پیدا ہوئے جو کہ ۱۹ویں صدی کے عظیم شاعر،ادیب و مفکر تھے ۔غالب کی عظمت کا راز ان کی شاعری کے حسن و بیاں میں نہیں بلکہ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے اور بڑی سادگی، عام لفظوں میں اسے بیان کر دیتے ۔یہ صلاحیت ہے غالب کی جو کہ کم شاعروں کے پاس تھی۔چونکہ غالب نے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی سلطنت کو اجڑتے ہوئے اور انگریز سلطنت کو قائم ہوتے ہوئے دیکھا یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی ۔

غالب نے اپنا حوش و ہواس سننبھالا نہیں تھا کہ ماں باپ دنیا چھوڑ چکے تھے پھر چچا نے انہیں سایہ عاطفت میں لیا یہ بھی قریباً ۶ سال اللہ کے ہاں حاضر ہو گئے۔اتنا سب کچھ ایک انسان کے بس میں نہیں ہوتا سہنا پر غالب نے نا صرف اسے برداشت کیا بلکہ پھر اسی درد کو شاعری کے ذریعے بیان بھی کیا ۔ غالب کی اولاد بھی کچھ نا تھی پہ در پہ سات بچہ ہوئے جو قریباً قریباً ۳ سال میں سب فوت ہو گئے ۔ایسا شخص جس نے زندگی میں سب کچھ کھویا ہی کھویا پھر بھی اس کے کمالات جو آج تک زندہ ہیں۔

کہتے ہیں غالب مر گیا،پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا،یوں ہوتا تو کیا ہوتا

آخر میں ان کی بیوی کے بھانجے کا بیٹا حسین علی خاں جو یتیم ہو گیا تھا غالب نے اسے اپنی کفالت میں لیا ۔ وہ اسے اپنے حقیقی اولاد سے بھی بڑ کہ پیار کرتے تھے کچھ پل بھی آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے ۔ اب وہی غالب کی زندگی تھی ،غالب کچھ کام سے دہلی چلے گئے وہاں جا کہ ہر روز خط لکھا کرتے تھے جو کہ ان کا روز کا معمول تھا ۔ اب غالب کو نہیں پتا تھا کہ حسیں علی خاں بھی ہمیشہ کے لیے ان سے اور زندگی سے جان چھڑا کے چلے گئے ہیں ،جب گھر واپسی ہوئی تو سب معلوم ہوا ۔غالب نے انکے مرنے پہ ایک غزل بطور نوحا کہ لکھی جس کے کچھ اشعار ہیں ۔

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

۔غالب کو اردو اور فارسی زبان میں دسترس حاصل تھی ۔اردو شاعری میں غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے انہوں نے زندگی کو ایک گہرائی میں جا کر سمجھنے کی کوشش کی اور ان کے تخیل کی بلندی اور شوخی فکر کا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کو شدت سے محسوس کرتے تھے ۔غالب کی شاعری کا اثر حواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پر ایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اس ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں ۔ان کے موضوع میں جو وسعتیں اور گہرائیاں ہیں ان کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظر آتا ہے ،انگنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے ۔

عبر لرحمان نے لکھا کہ ہندوستان میں دو ہی الہامی کتابیں ہیں ایک وید مقدس اور دوسری دیوان غالب ۔

غالب نہایت ہی خوش مزاج اور مزاح طبیعت کے مالک تھے بڑے سے بڑا دکھ درد وہ ایسے سہہ لیتے تھے کہ ان کے چہرے سے خوشی کی آثار ٹپکتے ہوتے تھے ۔ غالب کی حاضر دماغی تو دیکھیے ۔ غالب کے دور میں ایک شاعر تھے ایک دن وہ ان کی گلی سے گزرے تو غالب نے تنزیہ طور پہ کہا۔۔۔
’’ہوا ہے شاخ کا مصاہب پھرے ہے اتراتا ‘‘

اب شاعر نے جا کہ وقت کے بادشاہ سے شکایت کی ، بادشاہ نے محفل رکھی اور غالب کو بھی مدعو کیا، اس شاعر نے بادشاہ سے کہا عالی جا یہ تنزیہ شعر غالب نے کہا تھا ۔ اب غالب کے لیے بہت مشکل کام تھا کہ اس کو کیسے بیان کرے یہاں غالب کی حاضر دماغی کہ کہا جناب وہ تو میری غزل کا مقطع تھا ، بادشاہ نے کہا ذرا ارشاد فرمائیں۔۔۔

’’ہوا ہے شاخ کا مصاہب پھرے ہے اتر
اتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے‘‘

وہیں بیٹھے بیٹھے پوری غزل سنائی اس وقت بادشاہ نے کہا کہ ایسا حاضر دماغ انساں نا میں نے کبھی دیکھا اور نا اس سے پہلے کبھی سنا۔

[pullquote]اقبال:
[/pullquote]

اقبال ۹ نومبر کو پیدا ہوئے وہ معروف شاعر، مصنف ،قانون دان، سیاست دان،مفکر اور مسلم صوفی جانے اور مانے جاتے ہیں ۔حساس دل و دماغ کے مالک تھے ۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا ۔ مارچ ۱۸۹۹ کو ایم اے کا متحان دیا اور ہنچاب بھر میں اول آئے اسی دوران ان کا شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا پر وہ کسی مشاعرے میں نہیں جاتے تھے ،ایک دن ان کے ایک بے تکلف دوست انہیں ایک مشاعرے میں لے گئے جہاں بڑے بڑے استاد تشریف فرما تھے ۔جب اقبال نے اپنی نظم پڑھنا شروع کی اور اس شعر پہ پنچے

موتی سمجھ کے چن لیے شان کریمی نے
قطرے جو تھے میرے عرق انفال کے

بڑے استاد اٹھ کھڑے ہوئے اور داد دینے سے نہ رہے یہاں سے اقبا ل کی بحثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا۔

ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کا تعلق میسّر آیا۔ جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا چونکہ کالج میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پابندی نہ تھی۔ قیام کا بندوبست کالج سے باہر کیا۔ ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔لندن میں قیام کے دوران میں اقبال نے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا، مثلاً اسلامی تصوّف، مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر، اسلامی جمہوریت، اسلام اور عقلِ انسانی وغیرہ بدقسمتی سے ان میں ایک کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔ایک مرتبہ آرنلڈ لمبی رخصت پر گئے تو اقبال ان کی جگہ پر لندن یونیورسٹی میں چند ماہ کے لیے عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔اسی زمانے میں انھوں نے شاعری ترک کردینے کی ٹھان لی تھی، مگر آرنلڈ اور اپنے قریبی دوست شیخ عبدالقادر کے کہنے پر یہ ارادہ چھوڑ دیا۔ فارسی میں شعر گوئی کی ابتدا بھی اسی دور میں ہوئی۔یورپ پہنچ کر انھیں مغربی تہذیب و تمدّن اور اس کی روح میں کارفرما مختلف تصوّرات کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملا۔ مغرب سے مرعوب تو خیر وہ کبھی نہیں رہے تھے، نہ یورپ جانے سے پہلے نہ وہاں پہنچنے کے بعد۔ بلکہ مغرب کے فکری، معاشی، سیاسی اور نفسیاتی غلبے سے آنکھیں چرائے بغیر انھوں نے عالمی تناظر میں امتِ مسلمہ کے گزشتہ عروج کی بازیافت کے لیے ایک وسیع دائرے میں سوچنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ ان پر مغربی فکر اور تہذیب کا چھپا ہوا بودا پن منکشف ہوگیا۔تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو یکم فروری، 1912ء کو موچی دروازہ لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا، جس میں اقبال بھی شریک ہوئے۔ مقررین نے بڑی جذباتی اور جوشیلی تقریریں کیں۔ اقبال کی باری آئی تو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا مینار بن کر اُٹھے اور فرمایا: ’’مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاؤں مارنے چاہیئں۔ ہندوؤں کو اب تک جو کچھ ملا ہے، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اسلام کی تاریخ دیکھو وہ کیا کہتی ہے۔ عرب کے خطّے کو یورپین معماروں نے ردّی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہوسکتی۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا، اور خدا قسم ! روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی، یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بَل پر کھڑی ہوئی۔! ‘‘

اقبال نوجوانوں کو شاہین سے تشبیح دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پرندے میں اقبال کے مرد مومن کی بعض صفات پائی جاتی ہیں ۔ چنانچہ اپنے خط میں جو انہوں نے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو لکھا تھا وہاں شاہین کی تشبیح کی وضاحت فرمائی تھی کہ شاہین کی تشبیہہ محض شاعرانہ تشبیہہ نہیں ہے ۔ اس جانور میں اسلامی فکر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ خوددار اور غیرت مند ہے کہ اوروں کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا بلند پرواز ہے خلوت پسند ہے تیز نگا ہے ۔

یعنی انسان کو سبق یہ ملتا ہے کہ آشیانہ نا بنانا گویا یہ زندگی انسان کا مستقل ٹھکانہ نہیں ۔خود دار یعنی انساں کو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھانا چاہیے نا کہ اس کی امیدیں دوسروں پہ لگی ہوں اور تیسرا کہ بلند پرواز،یعنی انساں کو اپنے اذائم بلند رکھنے چاہیے۔

اقبال فارسی کے ایک شعر میں یوں فرماتے ہیں جسکا مفہوم کہ اے خدا! تو نے مجھے ایسی شاعری عطا فرمائی ہے جو قوم کو بیدار کر سکتی ہے اور میں اپنے دماغ کی تمام قوتوں کو اسی راہ میں صرف کر رہا ہوں اس لئےمیں تجھ سے التجا کرتا ہوں مجھے اس مقصد میں کامیابی عطا فرما ۔ اسی طرح ایک اور فارسی کے شعر کا مفہوم کہ وہ راز جو میں نے ظاہر کر دیا (مسلمان )اس پر نہ چلے انہوں نے میرے درخت شاعری کی شاخ سے کچھور نہیں کھائی (استفادہ نہیں کیا )۔ اے امتوں کے امام ۰(حضرت محمد) میں تجھ سے داد وصول کرنا چاہتا ہوں،لوگوں نے تو مجھے غزل کہنے والوں میں شمار کیا ہے ۔

میں مولانا مودودی صاحب کے خیالات اقبال کے بارے میں لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ شاید ہی ان سے بہتر اقبال کی شخصیت کی کوئی ترجمانی کر سکے۔

مولانا سید اعلی مودودی لکھتے ہیں۔(رسالہ جوہر اقبال نمبر ۱۹۳۸ با حوالہ ، اقبال اور مودودی)

دنیا کا میدان ابتدا سے جدید ترین دور تک اکابر پرستی کی جانب رہا
ہر بڑی چیز کو دیکھ کر ہزار بی ہزا اکبر کہنے کی عادت ،جس کا ظہور قدیم ترین

انسان سے ہوا تھا آج تک اس سے نہیں چھوٹی ہے جس طرح دو ہزار برس پہلے بودھ کی عظمت کا اعتراف اس مخلوق کے نزدیک بجز اس کے اور کسی صورت سے مہ ہو سکتا تھا

کہ اس کا مجسمہ بنا کر اس کی عبادت کی جائے اسی طرح ااج بیسویں صی میں دنیا

کی سب سے زیادہ سخت منکر عبودیت قوم روس کا ذہن لینن کی
بزرگی کے اعتراف کی کوئی صورت اس ککے سوا نہیں سوچ سکتا کہ اس کی شخصیت
کے آگے مراسم عبودیت بجا لائیں ۔

لیکن مسلمان کا نقطہ نظر اس بات میں عم انسانوں سے مختلف ہے۔ اکابر پرستی کا تصور اس کے ذہن کی افتاد سے کسی طرح میل نہیں کھاتا۔ وہ بڑوں کے ساتھ برتاو کرنے کی طرف ایک ہی صورت

سوچ سکتا ہے اللہ نے ان کو زندگی کا سیدھا راستہ بتا دیا تھا جس پر چل کر وہ بزرگی کے
مراتب تک پہنچے ۔ لہاذذا ان کی زندگی سے سبق حٓصل کرو اور اس کے مطابق عمل کرو۔

اسی نقچہ نظر سے اس مختصر سے مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو بتانا چاہتا
ہوں کہ اقبال کی عظمت کا سکہ ان کے دلوں پر بیٹھا ہے اس کی زندگی کیا سبق دیتی ہے
سب جانتے ہیں کہ اقبال نے یہ مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی
یونیورسٹیوں میں ھاصل کرتے ہیں ۔ یہی تاریخ یہی ادن، یہی اقتصادیات یہی سیاسیات یہی
قانون اور یہی فلسفہ انوں نئے بھی پڑھا تھا اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ
منتہی فارغ التحصیل تھے ۔خصوصا فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفر تک کر چکے ہیں ۔

جس شراب کے دو چار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں یہ مرحوم اس کے سمندر پیے بیٹا تھا ۔ پھر مغرب اور اس کی تہذییب کو بھی اس نے محض ساحل پر سے نہیں دیکھا تھا جس طرح ہمارے ۹۹ فیصد نوجوان دیکھتے ہیں بلکہ وہ اس دریا میں غوچہ لگا کر تہ تک اتر چکا تھا اور انس سب مرحلوں گزرا تھا جن میں ہہنچ کر ہماری قوم کے ہزاروں لوگ اپنے دین و ایمان اپنے اصول تہذیب و تمدن اور اپنے وقمی اخلاق کے مبادی تک سے برگشتہ ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ اپنی وقمی زبان تک بولنے کے قابل نہں رہتے ۔لیکن اس کے باوجود اس شخص کا حال کیا تھا ؟ مغربی تعلیم و تہذیتب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا اس کے مجدھار میں پہنچ اس سے زیدہ مسلمان پایا گیا ۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اثر تا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا ۔ یہاں تک کہ اس کی تہ میںجب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود
باقی نہیں رہا ۔ جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا ۔ جو کچھ دیکتا تھا قرآن کی نظر

سے دیکھتا تھا حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے اس شے واح میں وہ اس طرح فنا ہو گیا تھا کہ اس دور کے عمائے دین میں بھی مجھے کوئی شخص نظر نہٰن آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امام فلسفہ اور اس ایم اے پی ایچ ڈی بارایٹ لا سے لگا کھاتا یو،

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا تھا ور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے ۔

رسول ص کی ذات مبارک کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انوں نے اپبنے سارے تفلسف اور اپنی تمام عقلیت کو رسول کے قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذر کر کے رکھ دیا تھا ۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں پرانے مولوی تک کانکحڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں یہ ڈاکٹر آٖ فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایسی کوئی حدیث سن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے