قائداعظم خودمختارکشمیرچاہتے تھے؟

محمد علی جناح ۲۵ دسمبر ۱۸۷۶ ؁ء کو وزیر مینشن کراچی میں پیدا ہوئے ۔ ۱۸۹۶ ؁ میں انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی ۔بعض مورخین کا کہنا ہے کہ بر صغیر ہند کی فکری و جغرافیائی تقسیم کی ابتدای ذمہ داری ہندو مہاسبھا اور کانگریس کے ہندو لیڈروں پر عائد ہوتی ہے۔سلطنت برطانیہ تاج برطانیہ کے خلاف جدوجہد میں کانگریس کے پودے کو تن آور بنانے میں مسلمان رہنماوں قائد اعظم محمد علی جناح، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر انصاری، خان عبدالغفار خان، بیرسٹر آصف علی، ڈاکٹر سید محمود، رفیع احمد قدوائی ، فخرالدین

قائداعظم محمد علی جناح کشمیر میں
قائداعظم محمد علی جناح کشمیر میں

علی احمد، مولانا حفظ الرحمان اور ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر بھارت جیسے مسلمان رہنماوں کا کردار ہندو رہنماوں مہاتما گاندھی جی، بال گنگا دھر تلک، کشمیری نژاد موتی لال نہرو، ان کے بیٹے پنڈت جوہر لال نہرو، سردار پٹیل، ڈاکٹر راجندر پرشاد، مدن موہن مالویہ، راج گوپال اچاریہ، لالہ لاجپت راے اور بپن چندر پال کے کردار سے کسی طور کم بھی نہ تھا۔

دعوت پبلیکشنز دہلی کی ’’ہندوستانی مسلمان نامی ‘‘ کتاب میں ایک باب کے مصنف غلام الحسنین کیف نوگانوی کا مانناہے کہ کانگریس کا بانی ایک انگریز اے ایچ ہیوم تھا ، ان کے مطابق ابتدا میں کانگریس کا کام انگریز کے حضور درخواستیں پیش کر کے چھوٹی موٹی رعایتیں حاصل کرنا تھا ۔ انگریز سے آزادی کے لیے کانگریس کو ہمت و حوصلہ جوش و ولولہ مسلمانوں نے دیا ۔

 

کانگریس میں گاندھی جی عدم تشدد کے مبلغ تھے ، سوبھاش چندر بوس نے عدم تشدد کو ماننے سے انکار کیا اور انڈین نیشنل آرمی بنا لی ، جنرل شاہنواز ان کے دست راست بنے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا کہ عدم تشدد ہماری حکمت عملی ہو سکتی ہے عقیدہ نہیں ، مگر کانگریس میں ہی رہے۔ انگریز چاہتے تھے کہ مسلمان عدم تشدد کی راہ پر رہیں۔انگریز کو ہندوستان کی تاریخ سے واقفیت اور وسیع و عریض علاقے پر حکومت کرنے کا تجربہ ان بہادر مسلمان حکمرانوں کے ذریعے سے ہی ہوا تھا جن کا تختہ انہوں نے الٹا تھا ۔

انگریزوں نے قائداعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی کی قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے بطور سیاسی رہنما ان کا پورا احترام کیا اور انہیں سیاسی سرگرمیوں کی پوری آزادی دی ۔ اس پالیسی نے ہندوستان میں پر تشدد سرگرمیوں اور نظریات کی حامل قوتوں کو کمزور کیا ۔بھارت نے جموں کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں پر ناروا پابندیاں لگائیں جس سے تشدد کو ہوا ملی۔

 

یہ بھی سب کے علم میں ہے کہ کانگریس میں ابتدا سے ہی ایک مسلم مخالف گروہ رہا جس کی سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمان ناراض تھے، یہ گروہ فرقہ پرست مسلم دشمن تنظیم ہندو مہاسبھا سے ہمدردی رکھتا تھا. اس گروہ کے خاص لیڈروں میں ڈاکٹر این بی کھرے، بپن چندر پال، ڈاکٹر منجے، کے ایم منشی، مدن موہن مالویہ ، جن سنگھ کے بانی شیاما پرشاد مکر جی ، لالہ لاجپت رائے، پرشوتم داس ٹنڈن، آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹرہیڈ گوار اور سردار پٹیل شامل تھے۔

(1944)محمد علی جناح اور فاطمہ جناح علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہونے والے کشمیری طلبہ کے ساتھ
محمد علی جناح اور فاطمہ جناح علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہونے والے کشمیری طلبہ کے ساتھ(1944)

ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوے کیف نوگانوی لکھتے ہیں کہ :

’’ ۱۹۲۰ ؁ میں کانگریس کا جو اہم اجلاس ناگپور میں ہواتھا اس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کانگریس کی پالیسی پر تنقید کی تو انہیں بولنے نہیں دیا گیا، وہ اجلاس سے نکل گے ‘‘ .

گاندھی جی اور ان کے ہم خیال ساتھی شروع میں صوبائی خود مختاری کے حامی تھے . کانگریس میں مکمل آزادی کی تجویز سب سے پہلے مولانا حسرت موہانی نے رکھی۔ ۱۹۳۷ میں جب صوبائی خود مختاری ملی تو صوبوں میں ہندو وزرائے اعلی لائے گے، بہار میں کانگریس کے صدر ڈاکٹر سید محمود تھے مگر انہیں وزیر اعلی نہیں بننے دیا گیا۔ مرکز میں نواب لیاقت علی خان کی وزارت خزانہ نہرو کو ایک آنکھ نہ بہائی ۔ ایسی حرکات سے مسلمانوں میں احساس محرومی بڑھتا گیا۔

 

پنڈت نہرو کی بے جا ضد اور مسلمانوں کے تئیں غیر منصفانہ طرز عمل کو محسوس کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے بر صغیر ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر کانگریس چھوڑ کر ۱۹۱۳ ؁ میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور چودہ نکات پیش کیے ۔ ۱۹۱۶ میں معائدہ لکھنو منظور کرایا، غیر منقسم ہندوستان میں میثاق لکھنو کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ ہندو رہنما بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ پنڈت نہرو اور کانگریس کے دیگر رہنماوں کی بے جا ضد اور ہٹ دھرمی کی نذر ہو گیا۔

 

برطانوی پارلیمنٹ نے۱۸ جولائی ۱۹۴۷ کو قانون آزادی ہند ایکٹ پاس کیا جس کی رو سے برٹش انڈیا تقسیم ہوا، پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو اور انڈیا ۱۵

قائداعظم مظفرآباد کے دورے کے موقع پر
قائداعظم مظفرآباد کے دورے کے موقع پر

اگست ۱۹۴۷ کو دو آزاد مملکتوں کی شکل میں معرض وجود میں آگئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۷ جون ۱۹۴۷ کو مجوزہ قانون آزادی ہند کی کشمیر سمیت سب ہی ریاستوں سے متعلق شقوں کی وضاحت کر دی تھی۔ انہوں نے اپنے اخباری بیان میں فرمایا:

صفحہ نمبر ۲
’’ آئینی اور قانونی طورپر ہندوستانی ریاستیں برطانوی راج کے ختم ہوتے ہی آزاد اور خود مختار ریاستیں ہوں گی اور انہیں اپنی راہ خود متعین کرنے کا اختیار ہو گااور وہ خود مختار ہوں گی کہ ہندوستان میں شامل ہوں یا پاکستان میں یا آزاد رہیں۔ آزاد رہنے کی صورت میں وہ ہندوستان یا پاکستان سے اپنی مرضی اور اپنے فائدے کے مطابق معاہدے کر سکیں گی ‘‘ قائد اعظم (پاکستان ٹائمز ۱۸ جون ۱۹۴۷)

اس بیان کے ٹھیک ۲۴ دن بعد یعنی ۱۱ جولائی کو کشمیری رہنماوں چوہدری حمیداﷲ خان اور پروفیسر اسحاق قریشی نے دہلی میں قائد اعظم سے ملاقات کی اور کشمیر کے مستقبل کے بارے میں ان سے بات چیت کی۔ اس ملاقات کے بعد قائد اعظم نے اخبارات کے نام جو بیان جاری کیا وہ یہ تھا کہ:

’’ کشمیر کے مسلمانوں کے ذہن اور توجہ پر چھایا ہوا یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ آیا کشمیر پاکستان میں شامل ہو رہا ہے ؟ میں ایک سے زائد بار واضح کر چکا ہوں کہ ہندوستانی ریاستیں اس امر کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوں یا ہندوستان کے ساتھ یا خود مختار اور آزاد رہیں۔ ہم پہلے بھی واشگاف الفاظ میں واضح کر چکے ہیں کہ ہم کسی ریاست کو نہ مجبور کریں گے نہ ڈرائیں گے نہ دھمکائیں گے اور نہ کسی قسم کا کوئی دباو ڈالیں گے ۔ ہر ریاست کو اپنی مرضی اور خوشی کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ جو ریاستیں اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہونا چاہیں تو وہ ہمیں خیر مقدم کیلئے مسرور اور مستعد پائیں گی، جو ریاستیں مکمل طور پر آزاد اور خود مختار رہنا پسند کریں گی ہم ان کی اس خواہش کا پورا احترام کریں گے ۔ ‘‘
(بحوالہ ظہور پاکستان از چوہدری محمد علی صفحہ ۲۱۷)۔کشمیر شناسی جی ایم میر صفحہ ۱۰۷)

میر عبدالعزیز مرحوم ایڈیٹر ”انصاف” کے بقول کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ اور ان کے وزیر اعظم رام چندر کاک ہندوستان سے الحاق کے سخت خلاف تھے ۔ مہاراجہ نے اپنے وزیر اعظم کو کشمیر کے مستقبل کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کے پاس دہلی بھیجا، دو ملاقاتیں ہوئیں جنہیں

کشمیری راہنما مزار قائد پر حاضری دیتے ہوئے
کشمیری راہنما مزار قائد پر حاضری دیتے ہوئے

تسلی بخش قرار دیا گیا۔ قائد اعظم کشمیر کی خود مختاری کا کہہ چکے تھے ،اس صورتحال نے پنڈت نہرو اور کانگریسیوں کو پریشانی میں ڈال دیا ۔

 

ہری سنگھ پنڈت نہرو کو ناپسند کرتے تھے ۔ ۱۹۴۶ میں ‘کشمیر چھوڑ دو تحریک‘ کے دوران مہاراجہ کے حکم پر جواہر لعل نہرو اور بیرسٹر ٓسف کو کوہالہ پل پر گرفتار کر لیا تھا۔ کشمیری مورخ جی ایم میر صاحب اپنی کتاب میں وجاہت مسعود صاحب کی کتاب مسئلہ کشمیر اور تقسیم ہند کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ یکم اگست ۱۹۴۷ء کو وائسراے ماونٹ بیٹن نے اپنی انتہائی خفیہ رپورٹ نمبر ۱۵ کے پیرا گراف نمبر ۲۷ میں لکھا :

مہاراجہ اور رام چندر کاک دونوں نہرو سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔ مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ مہاراجہ نہرو کی آمد سے عین پہلے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دے گا اور کاک کچھ ایسا چکر چلائے گا کہ نہرو عین اس وقت گرفتار ہو جائیں جب انہیں دہلی میں مجھ سے اقتدار وصول کرنا ہو گا ‘‘ ۔

برطانیہ کی مورخ وکٹوریہ شیفیلڈ لکھتی ہیں کہ:

’’ ۱۲ اگست ۱۹۴۷ کو مہاراجہ نے ٹیلی گرام کے تبادلے کے ذریعے پاکستان کے ساتھ معاہدہ جاریہ Stans Still Agreement عمل میں لایا جس کا مقصد یہ تھا کہ تجارت آمد و رفت اور رسل و رسائل ڈاک تار وغیرہ کے شعبے اسی طرح کام جاری رکھیں جس طرح برطانوی ہند کے ساتھ چل رہے تھے ۔ پاکستان کو ریل ، ڈاک تار اور دریائی تجارت پر کنٹرول حاصل ہو گیا ‘‘

مگر بد قسمتی سے قائداعظم کی شدید علالت کی وجہ سے ریاستی امور پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی اور کئی اہم فیصلے ان کے علم میں لائے بغیر ہوئے جن میں بقول محترمہ ثریا خورشید کے (آزاد کشمیر کے ایک نوجوان صحافی فرحان احمد خان کو دیے گے تازہ انٹرویو) ”کشمیر پر غیر منظم قبائلی حملہ” اور پاکستان کی مسلح افواج کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو باخبر کے بغیر میجر جنرل اکبر خان کی فوجی مہم جوئی شامل ہے ۔

 

 

E mail Address:

 

Rajammuzaffar@gmail.com

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے