مولانا عبیداللہ سندھی، ایک باغی

مولانا عبیداللہ سندھی ہندوستانی تاریخ کے اہم سیاسی کارکن اور اہم راہنماؤں میں ایک تھے. 10 مارچ 1872 کو سیالکوٹ میں اُپل کھتری گھرانے میں پیدا ہوئے. عبیداللہ کے والد اُن کی پیدائش سے چار ماہ قبل ہی فوت ہو گئے. جبکہ اُن کے دادا اُن کی پیدائش کے دو سال بعد فوت ہو گئے جس کے بعد اُن کی والدہ اُن کو نانا کے پاس جام پور لے گئیں.

عبید اللہ، جب سکول میں پڑھ رہے تھے، اُن کے ایک ہندو دوست نے اُن کو "تحفتہ الہند” نامی کتاب پڑھنے کیلئے دی، اِس طرح وہ 1887ء میں اپنی اوائل عمری میں اسلام قبول کر گئے. بعد میں دارالعلوم دیوبند کے مولانا رشید گنگوہی اور محمود الحسن سمیت وقت کے دیگر متنبہ اسلامی علماء کے ساتھ منسلک رہے جن سے انہوں نے بخاری، ترمذی اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی.

جنگ عظیم اول کے دوران ہندوستان کی مشہور ریشمی رومال تحریک کے اہم راہنماؤں میں سے ایک تھے. اِس دوران اُن کو ہندوستان سے ہجرت بھی کرنی پڑی. ہندوستان سے ہجرت کر کے ہندوستان میں "اسلامی انقلاب” برپا کرنے میں مدد کے حصول کیلئے کابل کے امیر حبیب اللہ کے پاس چلے گئے جبکہ مولانا محمود الحسن ترکی کے گورنر غالب پاشا کے پاس چلے گئے. اُن کا ابتدائی منصوبہ یہ تھا کہ مولانا محمود الحسن کی قیادت میں حزب اللہ نامی ایک مسلح تحریک شروع کی جائے جس کی راہنمائی کا بندوبست مدینہ اور کابل سے کیا جائے گا. لیکن کابل پہنچنے کے بعد مولانا عبیداللہ کی رائے بدل گئی، اُن کی رائے میں برطانیہ مخالف تحریکِ آزادی کا ساتھ دینا مناسب ہوگا. اِس دوران اُن کو مولانا عبدالکلام آزاد کی مشاورت اور مدد حاصل رہی.

مولانا عبیداللہ سندھی سے ملاقات کیلئے 1915ء کے اوخر میں جرمنی کی وزارتِ جنگ کا ایک وفد ملنے آیا. اُس ملاقات میں جلاوطن راجہ مہندر پرتاب سنگھ، مولانا حفیظ محمد برکت اللہ کے علاوہ جرمنی کے کئی افراد موجود تھے. اُس ملاقات میں یہ منصوبہ بندی کی گئی کہ کابل کے امیر حبیب اللہ کے زریعے ہندوستان میں بغاوت برپا کی جائے گی. لہذا یکم دسمبر 1915ء کو امیر حبیب اللہ کے باغِ بابر میں ایک نشست کے دوران ہندوستان کی "انقلابی حکومت” کی بنیاد بھی رکھی گئی جو اب جلاوطن تھی مگر انقلاب کی کامیاب اور برطانوی سرکار کی بےدخلی کے بعد حکومتی باگ دوڑ سنبھالے گی. اُس تاریخی نشست میں ترکی، جرمنی اور افغانی اہم شخصیات نے شرکت کی تھی. اُس انقلابی تحریک نے سوویت روس، جاپان اور چین سے بھی مدد کی اپیل کی. خصوصاً راجہ مہندر پرتاپ سنگھ روس گئے اور پیٹروگراڈ میں لیون ٹراٹسکی سے ملاقات بھی کی.

لیکن یہ ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی. جرمنی بھی پیچھے ہٹ گیا، امیر حبیب اللہ بھی ہچکچاہٹ کا شکار رہا اور بعد میں امیرحبیب اللہ کا قتل بھی ہو گیا. نیا بادشاہ امان اللہ برطانیہ کا پریشر برداشت نہ کر سکا لہذا مولانا عبیداللہ سندھی افغانستان میں اپنی سات سالہ سکونت ترک کر گئے. جہاں سے وہ سوویت روس چلے گئے. وہاں جاکر وہ بیمار ہو گئے اور وہاں اُن کا سرکاری علاج بھی ہوتا رہا. دریں اثناء سوشلسٹ راہنماؤں سے ملاقاتیں بھی ہوئی مگر ولادیمیر لینن سے ملاقات نہ ہو سکی کیونکہ لینن بھی اُن دنوں شدید بیمار تھے. سات ماہ روس رہنے کے بعد مولانا ترکی روانہ ہو گئے.

1923ء میں عبیداللہ ترکی پہنچے جہاں سے انہوں نے 1924ء میں ولی اللہ تحریک کے تیسرے مرحلے کا آغاز کیا. علاوہ ازیں انہوں نے استنبول سے بھارت کی آزادی کے لئے چارٹر جاری کیا. پھر عبید اللہ 1927ء میں مکہ لئے روانہ ہوئے اور 1929ء تک وہاں رہے.

مولانا عبیداللہ نے کئی کتب بھی تحریر کیں جن میں مقبول ترین "قرآنی شعورِ انقلاب”،” شعور و آگاہی”، "خطبات و مقالات” ہیں. علاوہ ازیں پاکستانی کالم نگار فرمان نواز نے مولانا سندھی کے اردو کے مضامین کے انگریزی تراجم کئے جن میں مشہور ترین "اسلام انسانوں کے لیے ہم آہنگی کا سبق سکھاتا ہے”،” انسانیت کے بنیادی اخلاقی معیار”، "نظریہ تہذیب”،”سروایول آف فِٹسٹ اور اسلام” ہیں.

مولانا کے بقول قرآن کی زبان چونکہ قدیم عربی ہے لہذا مختلف لوگوں نے اِس کے متن کو اپنی مرضی کے پیرہن دے دئیے ہیں، کوئی بھی انسان دوست فرد قرآن کے حقیقی مضمون سے آشنا ہونے چاہے تو تھوڑی سی توجہ سے آشنائی حاصل کر سکتا ہے. اُن کے بقول اسلام باقی مذاہب کو تہس نہس کرنے کیلئے نہیں اتارا گیا. مولانا سندھی نے کہا کہ اسلام تمام مذاہب کی سچائی تسلیم کرتا ہے اور تمام اقوام کے وجود کو تسلیم کرتا ہے. مولانا کے بقول ایک قوم جب کسی مذہب کو اپناتی ہے تو آہستہ آہستہ وہ قوم اُس مذہب کو اپنی اجارہ داری بنا لیتی ہے. مولانا نے اِس رویے کو الحاد کا نام دیتے ہیں.

خطبات و مقالات میں لکھتے ہیں کہ:
"ہم اس وقت جس مذہبیت کا شکار ہو رہے ہیں، یہ روگی ہو چکی ہے۔ یہ سُنی کو شیعہ سے لڑاتی ہے۔ اہلحدیث کا دل حنفی سے میلا کرتی ہے۔ احمدی اور غیراحمدی میں نفرت ڈالتی ہے۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بناتی ہے۔ اس مذہبیت کے طفیل انسان انسان کے خون کا پیاسا ہو گیا ہے۔ میں اس روگی مذہبیت کو مٹانا چاہتا ہوں۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے