بلاول اور زرداری کیا کریں گے۔

27 دسمبر آیا اور گزر گیا، بلاول بھٹو زرداری کی دی گئی ڈیڈ لائن بھی گزر گئی، پہلی ڈیڈلائن پر بلاول نے اور ان کی پارٹی نے ایسا "یوٹرن” لیا کے کوئی بھی صاحب شعور آدمی ان کے اس "یوٹرن” پر تنقید کے نشتر نہیں چلا سکتا۔ پیپلزپارٹی کی تاریخ سے واقف لوگ یہ جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی ایک جمہوری حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کی غلطی کبھی نہیں کرے گی کیوں کہ پیپلزپارٹی کی تاریخ آمروں کے خلاف تحریکوں سے عبارت ہے اور اس مقصد کیلئے وہ مسلم لیگ ن جیسی روایتی حریف کے ساتھ میثاق جمہوریت جیسا تاریخ ساز معاہدہ بھی کرچکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے فیصلے سے سڑکوں کی سیاست کرنے والوں کو یقینا مایوسی ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے لیے اس میں ایک پیغام بھی ہے کی جب قومی اسمبلی میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو موجود ہوں گے تو سڑک والوں کی اہمیت مزید کم ہوجائے گی۔

زرداری بلاول مل کر پارلیمنٹ کے راستے پیپلزپارٹی کے احیاء کی کوشش میں کامیاب ہوگئے تو سڑکوں کی راہ لینے والوں کا مستقبل پھر سڑکوں پر ہی گزرے گا اورملک ایک بار پھر دو جماعتی سیاسی نظام کی طرف لوٹ جائے گا جس کے ذمہ دار میری نظر میں عمران خان ہوں گے اور شاید کسی حد تک سراج الحق بھی۔۔

آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پارلیمنٹ میں کیوں آ رہے ہیں؟ وہ اعلان کے باوجود سڑکوں پر کیوں نہیں آئے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آصف علی زرداری کے اسلام آباد میں آخری خطاب جس میں انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا اعلان کیا تھا سے لیکر اب تک بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو ان کی اورعمران خان کے سیاست میں صرف ایک فرق دھرنا تھا ورنہ دونوں کا لب و لہجہ، حکومت مخالف بیانات اور ن لیگ کی پالیسیوں سے متعلق موقف میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔ یہاں تک کہ دو ماہ قبل بلاول نے چارنکات پیش کرتے ہوئے ان کی منظوری نہ ہونے کی صورت میں 27 دسمبر کا دن طے کیا کہ وہ بھی سڑکوں پر آنے کے فیصلے کا باقاعدہ اعلان کریں گے گویا بلاول اس معاملے میں بھی عمران خان کے ہم رکاب بننے جا رہے تھے۔

اس صورتحال میں اچانک سابق صدرآصف علی زرداری نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا اور27 دسمبر کو وہ اعلان کیا جس کی امید اس لئے کم تھی کہ پیپلزپارٹی کئی بار کہہ چکی تھی کہ بلاول آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے اور وزیراعظم بن کر ایوان میں آئیں گے۔ حکومت کے خلاف سخت لب ولہجہ اختیار کرنے کے باوجود پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ میں آنے کا فیصلہ کر کے ایک پارلیمنٹ کو مضبوط کیا ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ انہیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ بلاول کی تمام تر کوششوں کے باوجود سندھ کے علاوہ پیپلزپارٹی کو عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ سڑکوں میں آنے کی صورت میں عوامی حمایت کا نہ ملنا ان کی جماعت کے لئے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے جس کا فائدہ مسلم لیگ ن یا پھر تحریک انصاف کو ہوگا۔ اسی وجہ سے دونوں باپ بیٹے نے پارلیمانی سیاست میں آکر اپنی جماعت کو دوبارہ زندہ کرنے کی ایک بہترین کوشش کا آغاز کیا ہے۔

یہاں پر کئی سوال اور بھی ہیں جو ذہن میں گردش کر رہے ہیں کہ کیا آصف علی زرداری عہدہ صدارت پر پانچ سال رہنے کے بعد ایک عام رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے ایوان میں خود کو ایڈجسسٹ کر پائیں گے یا نہیں؟ کیا بلاول بھٹو زرداری اپنے والد کی موجودگی میں قائد حزب اختلاف بن سکیں گے؟ اور کیا نئے قائد حزب اختلاف پبلک اکاونٹنس کمیٹی کے چئیرمین بن کر حکومتی اداروں کی بے ظابطگیوں کے خلاف کاروائی کر سکیں گے؟ بظاہر یہ سوالات بہت سادہ ہیں لیکن پارلیمانی نظام، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے طرز سیاست اور ان کی سیکیورٹی کے حوالے سے درپیش مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بہت اہم بھی ہیں۔ تیرہویں قومی اسمبلی میں سابق صدر پاکستان فاروق لغاری مرحوم بھی ایک رکن اسمبلی کی حیثیت سے منتخب ہو کر آئے اور پارلیمانی صحافت کرنے والے میرے صحافی دوست جانتے ہیں کہ وہ خود کو اور ایوان ان کو اجنبی محسوس کرتا تھا،، اس وقت قومی اسمبلی میں ایک سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی بھی منتخب ہو کر موجود ہیں اپنی لاکھ کوشش کے باوجود وہ خود کو اس ایوان میں مس فٹ ہی محسوس کرتے ہیں اور حکومتی جماعت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی سال میں ایک آدھ بار بولتے ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو وہ حکومتی رکن لگتے ہیں اور نہ ہی سابق وزیراعظم بلکہ ان دونوں عہدوں کے درمیان کوئی الجھی ہوئی شخصیت کے مالک لگتے ہیں۔

اس ساری بات کا مطلب یہ ہے کہ بڑے عہدے سے چھوٹے عہدے پر آنا اور ایڈجسٹ کرنا کم از کم ہمارے سیاسی نظام میں ناممکن نہ سہی البتہ مشکل ضرور ہے۔

دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری جو کہ اپنی جماعت کے سربراہ ہیں وہ ایوان میں منتخب ہو کر آئیں گے تو انھیں قائد حزب اختلاف بننا پڑے گا، یقینا پارلیمانی سیاست میں نا تجربہ کاری ان کے آڑے ضرور آئے گی لیکن ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ان کے والد کی ایوان میں موجودگی ہوگی کیونکہ جہاں انھیں والدہ کی وجہ سے احترام ملے گا وہیں حکومتی کرپشن پر بات کرتے ہوئے انہیں اپنے والد کے دور حکومت میں ملک کی حالت زار جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی سندھ کے علاوہ تقریبا پورے ملک میں اپنا وجود کھو بیٹھی اس پر سخت باتیں بھی سننا پڑیں گی جو ایک بیٹے کیلیے کافی مشکل ہوگا تاہم انھیں تلخ سیاست سیکھنے کا موقع ضرور ملے گا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان میثاق جمہوریت کے تحت پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چئیرمین قائد حزب اختلاف کو ہونا ہے اور اگر بلاول بھٹو زرداری قائد حزب اختلاف بن جائیں تو اس عہدے کے حوالے سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ایک نیا تنازعہ ضرور سامنے آئے گا۔
اس وقت قومی اسمبلی میں وزیر اعظم نواز شریف، عمران خان، فریال تالپوراور حمزہ شہباز ایوان میں حاضری کے حوالے سے کوئی اچھا ریکارڈ نہیں رکھتے اس وجہ سے آصف زرداری اور بلاول کیلیے حاضری نہ صرف کڑا امتحان بلکہ بڑا چیلنج ہوگی کیوں کہ بیرون ملک قیام اور مصروفیات کے باعث اجلاسوں میں عدم شرکت سے ان کے ایوان میں آنے کے مثبت کم اور منفی اثرات زیادہ مرتب ہوسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے