چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو آبدیدہ دیکھ کر سب کو حیرانی ہوئی۔۔پیپلز پارٹی میں اصول پسند ی کیلئے مشہور رہنما اور ایوان بالا کے کسٹوڈین کی بے بسی دیدنی تھی۔۔ ووٹ ڈالنے کے بعد اپنی نشست پر بیٹھے تو آنکھوں سے آنسو امڈ رہے تھے ا ور رضاربانی ضبط کے بندھن باندھنے میں مصروف نظر آئے۔۔ایوان میں باقی حاضرین چین کی بانسری بجا رہے تھے کسی کو کوئی ملال تھا نہ خیال۔۔۔رضاربانی پارٹی قیادت کے دباو میں اپنے اصولوں سے انحراف کے مرتکب ہوئے تھے۔۔۔ قانون سازی کے عمل میں وہ ان فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ ڈال آئے تھے جن کے خلاف بولا کرتے تھے۔۔ جن کوغیر ضروری سمجھتے تھے لیکن بادل نا خواستہ فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دینا پڑ گیا تھا۔۔۔ یہ واقعہ 6جنوری 2015 کا ہے جب قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی فوجی عدالتوں کے لیے 21ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی متفقہ طور پرمنظوری دی تھی.
حق رائے دیہی کے استعمال کے بعدرضاربانی گویا ہوئے۔۔سینیٹ کا ووٹ میری پارٹی کی امانت تھا جو پارٹی کے کہنے پر فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے دے دیا۔۔۔بارہ سال سے سینیٹ میں ہوں لیکن کبھی اتنا شرمندہ نہیں ہوا جتنا آج ہوا ہوں۔۔۔یہ الفاظ کہتے رضاربانی آبدید ہ ہو گئے۔۔۔فوجی عدالتوں کا قیام جائز تھا ۔یا ۔نا جائزہ یہ بحث نہیں ہے۔۔۔ بیان صرف یہ کرنا ہے کہ جب ضمیر کا بوجھ ہو تو پھروہ سمجھوتہ کرنے کے باوجود بھی کسی نہ کسی انداز میں سامنے آ جاتا ہے۔۔۔رضا ربانی کی پارٹی نے جب حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے مل کر یہ قانون سازی کی تو تحریک انصاف اس رائے شماری میں شامل نہیں تھی۔۔ جے یو آئی اورجماعت اسلامی نے بھی جواز کیلئے اس عمل سے دور رہنا ضروری سمجھا ۔۔۔
ایک عرصہ بعد رضاربانی کو آج ایک بار پھر ضمیر نے جھنجھوڑا ۔۔۔ ان کی بے بسی بھی عیاں ہے جو کرنا یا کہنا چا رہے ہیں شاید پارٹی اس کی حامی نہیں۔۔اب کی بار رضاربانی نے احتساب کے نظام پر انوکھے انداز میں عدم اعتماد کااظہار کیا ہے۔۔۔ رضا ربانی نے عوام کے نام کھلا خط لکھ کر احتسا بی نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے۔۔۔کہتے ہیں احتساب کا موجودہ نظام کبھی بھی کرپشن کا راستہ روک نہیں سکتا۔۔ پلی بارگین پر بھی سوالیہ نشان چھوڑا ہے۔۔۔احتساب کے نظام میں تقسیم کا بھی ذکر کیا ہے ۔۔ جس میں عام آدمی کیلئے قانون پر عمل درآمد کا معیار کچھ اور ہے جب کہ اشراف شکنجے میں آ کر بھی بچ نکلتے ہیں۔۔
جناب رضا ربانی ۔۔ ہم ہی عوام ہیں۔ آ پ کے موقف سے متفق بھی ۔۔ پلی بارگین کا چور دروازہ ہمیں بھی زہر لگتا ہے۔۔ ہمیں بھی اندازہ ہے کہ ہم دو ماہ بجلی کا تین ہزار روپے بل ادا نہ کریں تو تیسرے ماہ بجلی کٹ جاتی ہے۔۔۔ وزراء، حکام،بااثر طبقہ ، بڑے بڑے سرکاری و نجی ادارے کروڑوں روپے کے نادہندہ ہوں یا سالوں بل ادا نہ کئے ہوں ان کی بجلی نہیں کٹتی۔۔۔کبھی آئیسکو والے نمائشی سا پھیرا مار بھی دیں تو ایک دن میڈیا پر خبر کیلئے بجلی کے کنکشن منقطع ہوتے ہیں دوسرے دن بل ادا کئے بغیر ہی کنکشنز بحال بھی ہو جاتے ہیں۔۔کوئی سفید پوش بینک سے لون لے تو ادائیگی کیلئے مہلت بھی نہیں ملتی گھر گروی ہو جاتا ہے ۔۔ بندہ جیل پہنچ جاتا ہے۔۔۔بڑی مچھلیاں کروڑوں کے قرضے ڈکار لیتی ہیں۔۔۔ کروڑوں کے قرضے معاف ہو جاتے ہیں۔۔مجال ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی ہو۔۔
سر !آپ کا خط ہمارے زخموں پر نمک پاشی کا سامان تو کر سکتا ہے۔۔ ہماری بے بسی میں اضافہ تو کرسکتا ہے لیکن ہمارے کسی کام کا نہیں ہے۔۔یہ کھلا خط اگر ہمیں بند لفافے میں ملتا اور خط دینے والا ہمیں آپ کامدعا بیان کر دیتا تو یقینا ہم خط کھولے بغیر آپ کو واپس کر دیتے ۔۔۔ وہ اس لئے کہ ہم آپ کی مدد نہیں کرسکتے۔۔۔آپ نے اپنا ضمیر ہلکا کرناہے توآپ اس سسٹم کے خلاف وہاں ہی لڑیں جہاں بیٹھے ہیں۔۔۔آواز بلند کرنی ہے تو انہی سیاسی جماعتوں میں نقارہ بن جائیں جو منبع ہیں ایسی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا۔۔۔مگر ہم جانتے ہیں آپ کی وہاں بھی نہیں چلتی ۔۔۔ کوئی سنتا ہوتا تو آپ ہم سے کیوں رجوع کرتے ۔۔۔ اپنے ضمیر کا کیس عوام کی عدالت میں کیوں پیش کرتے ۔۔
کاش جمہوریت سچ میں جمہور کی ہوتی تو ہم آپ کو یوں خالی ہاتھ واپس نہ کرتے ۔۔۔ مگر جمہور کو تو پانچ سال بعد ایک موقع ملتاہے اور ایک ہی طرح کے مال پر مختلف برینڈ کے خول چڑھا کر دھوکہ باز آ جاتے ہیں۔۔ سنہری خواب ۔۔ سبز باغ دکھا کر ٹھپہ لگوا لیتے ہیں۔۔۔ حکومت میں بیٹھیں یا اپوزیشن میں ان کا اندر خانہ مک مکا ہو جاتاہے اورپھر پورا سسٹم آلودہ کردیتے ہیں۔۔ ۔ ایسابھی ہوتا ہے اپوزیشن لیڈرتقریر براہ راست دکھانے کی فرمائش منوا کر ایوا ن میں کھڑے ہو تا ہے ۔۔۔ حکمرانوں پر تنقید کے خوب نشتر چلاتا ہے ۔۔ ۔۔ حقیقی اپوزیشن ہونے کی ایکٹنگ کرتا ہے۔۔ ۔اجلاس ختم ہوتے ہی وہ ان کے چیمبرز میں پہنچ جاتاہے۔۔ ۔ لب کشائی کی گستاخی کرنے کی وضاحتیں پیش کی جاتی ہیں کہ یہ بولنا ضروری تھا۔۔ ۔۔ تاکہ عوام تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہے۔
آپ کے آبدیدہ ہونے کا عوام کو کوئی فائدہ ہوا نہ ہی پلی بار گین پر عوام کے ہم آواز ہونے سے کوئی تبدیلی آنی ہے ۔۔۔ پھر بھی عوام اس بات پر خوش ہیں کہ چلو کوئی تو ہے جس کا ضمیر اسے جھنجھوڑتا ہے۔۔کوئی تو ہے جس کو جھوٹ ، فریب ، دھوکہ دیہی اور غلط پر دکھ ہوتا ہے۔۔ ورنہ ہمیں تو شک ہونے چلا ہے کہ پارلیمنٹ میں ضمیر کی آواز کم اور سیاسی بیان بازی زیادہ ہوتی ہے۔۔ عوام کی بات نہیں ہوتی ۔۔ پانامہ لیکس حکومت اور اپوزیشن کا پسندیدہ موضوع ہے مگر کئی ماہ گزر گئے ہیں نتیجہ اب بھی زیرو جمع زیرو برابر زیرو ہی ہے۔۔ہم آپ سے بجلی نہیں مانگتے کیونکہ میاں صاحب نے وعدہ کیا ہوا ہے بجلی سسٹم میں پوری بھی ہو جائے تو 2018تک عوام کی لوڈ شیڈنگ کی عادت خراب نہیں کریں گے۔۔گیس سردیوں میں پتہ نہیں کہاں گم ہو جاتی ہے مگر آپ کو شکایت نہیں کرتے۔۔۔چونکہ آج آپ نے عوام سے رجوع کیا ہے تو ہم عوام کا ہی ایک مقدمہ آپ کے حضور پیش کریں گے۔۔ نیا قانون بھی نہیں بنانا۔۔ بس بنے ہوئے قانون پر عملد درآمد کرنا ہے ۔۔ ہم یہ بات اسحاق ڈار یا وزیراعظم سے بھی کہہ سکتے تھے لیکن چونکہ وہ سی پیک میں بہت مصروف ہیں۔۔ اس لئے پلیز رضا ربانی صاحب حکومت نے مزدورکی جو کم سے کم تنخواہ 14ہزار مقرر کی ہے اس پرعمل درآمد کیلئے زور لگائیں ہو سکتا ہے حکمرانوں کو آپ کی آواز پر یاد آ جائے کہ جو قانون سازی کرتے ہیں اسے نافذ کرنا بھی حکومت کا ہی کام ہو تاہے۔۔