نیب کی پلی بارگین کیا ہے ؟

بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کیس میں پلی بارگین کے بعد ملک بھر میں پلی بارگین اور نیب کو متنازعہ بنایا گیا ، حکومت نے بھی جلدبازی میں ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا ، لیکن کسی نے بھی پلی بارگین کے قانون کو سمجھنے کی کوشش نہ کی ، پلی بارگین کا قانون اتنا غلط نہیں تھا جتنا سمجھا گیا. اس قانون کا بنیادی طور پر استعمال غلط ہو رہا تھا ، حکومت نے ترمیمی آرڈیننس میں نا اہلیت بڑھا دی اور عدالت سے منظوری کی شرط رکھ دی ، حتی کہ ترمیم بنانے والوں کو پتہ نہیں چلا کہ نیب پچیس بی میں پہلے ہی عدالت کی منظوری کو شامل کیا گیا ہے ،

مشتاق رئیسانی کی دو ارب روپے کی پلی بارگین ڈیل کے بعد سیاستدانوں ، تجزیہ نگاروں اور ہر شعبے نے نیب کو آڑے ہاتھوں لیا اور پلی بارگین کے خلاف ہر سطح پر ایک مہم چلائی گئی ، جس کا دفاع نیب کی طرف سے کیا گیا ، نیب کی طرف سے اس کا دفاع بھی غلط کیا گیا اور نہ ہی نیب کے میڈیا ونگ کی طرف سے عوام کو بہتر طرح سے اس قانون سے آگاہ کیا گیا ،

بنیادی طور پر نیب کا پلی بارگین قانون انتہائی موثر اور بہترین قانون ہے لیکن جب تک یہ غیر سرکاری افراد پر استعمال کیا جائے ، اس کا استعمال سرکاری افسران ، سیاستدانوں ، قومی خزانے کو لوٹنے والوں کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے ، کیوں کہ ایسے افراد کو سخت سے سخت سزا اور مثال کے طور پر لیا جانا چاہیے تاکہ کوئی اور سرکاری افسر اور سیاستدان بھی اس سے سبق سیکھے ، لیکن مضاربہ سکینڈل ، الیگزر گروپ ، ڈبل شاہ ، سینکڑوں ہائوسنگ سوسائٹیوں کے کیس اور بنک قرض نادہندگان کے لیے ہر صورت پلی بارگین سب سے بہتر انتخاب ہے ،

اس لیے کہ اس طرح کے کیس جن میں عوام کا براہ راست پیسہ لوٹا جاتا ہے اور عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے ان کیسوں میں پلی بارگین کرنی چاہیے اور تمام رقم جرمانے کے ساتھ واپس ہونی چاہیے اور نیب اس رقم کو متاثرین تک پہنچا دیتا ہے ، نیب نے اس وقت تک اربوں روپے ہزاروں افراد میں مختلف قسطوں کی صورت میں واپس لوٹائے جس پر نیب تعریف کا مستحق ہے ، نیب نے غریب افراد سے پلاٹوں اور سکیموں کے نام پر لوٹے جانے والے لاکھوں روپے واپس کیے ، کیوں کہ اس کے علاوہ اور کوئی بھی صورت نہیں کہ نیب اربوں روپے لوٹنے والوں سے رقم وصول کر سکے، ان کے لیے پلی بارگین اور وی آر ایک بہترین قانون ہے ،

لیکن نیب ایک بہت بڑا تحقیقاتی ادارہ ہے ، اس میں سینکڑوں تحقیقاتی افسران ہیں ، کروڑوں روپے کا بجٹ ہے ، ہر سطح پر نیب کو تحقیقات کے لیے رسائی ہے ، ملزمان اور کرپٹ افراد کو کئی کئی ماہ تحقیقات کے نام پر حراست میں رکھا جاتا ہے ، ایسی صورت میں نیب کو سرکاری افسران کے ساتھ پلی بارگین نہیں کرنی چاہیے بلکہ جو رقم وہ پلی بارگین کے نام پر خود دینے کے لیے راضی ہیں وہ نیب کو تحقیقات کے ذریعے ریکور کرنی چاہیے ،

ایک زیر حراست سرکاری افسر اگر دو ارب روپے نیب کو دینے کے لیے رضا مند ہے تو یہ دو ارب روپے اس کے پاس کسی نہ کسی صورت موجود ہوتے ہیں نیب کو یہ رقم اپنی صلاحیتوں ، تحقیقات کے ذریعے ہر صورت ریکور کرنی چاہیے ، اس کے بعد سزا کی طرف کیس کو بڑھایا جائے ، لیکن نیب دوران تفتیش زیر حراست کرپٹ افسر سے رقم وصول نہیں کر سکتا تو پلی بارگین کی صورت میں کیس کو منطقی انجام تک پہنچاتا ہے جس سے کارکردگی شدید متاثر ہوتی ہے ،

دوسری طرف آرڈیننس میں ترمیم سے نیب کے اندر کرپشن کی ایک بہت بڑا راستہ نکالا جا رہا ہے ، اس وقت بھی نیب کے پچاس سے زائد افسران و ملازمین کو کرپشن اور بدعنوانی پر فارغ کیا گیا اور ان کے خلاف انکوائریاں کی گئیں ، پلی بارگین کے بغیر یا عدالت سے منظوری کرنے کی وجہ سے نیب کے تفتیشی افسران کے لیے کرپشن کی نئی راہیں کھلیں گی ،

ایک کرپٹ افسر جو نیب کی زیر حراست ہے وہ تحقیقاتی افسر کے سامنے پلی بارگین کے زریعے اربوں روپے واپس کرنے کے لیے صرف اس لیے راضی ہو جاتا ہے کہ اس طرح اس کی کیس سے جان چھوٹ جائے گی تو اگر یہ آپشن بھی اس کے پاس نہیں ہو گا تو وہ تحقیقاتی افسر کو کس حد تک اربوں روپے کی رشوت کی آفر دے کر اس کیس سے جان چھڑا سکے گا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہو گا ،

اس طرح ترمیمی آرڈیننس سے بھی نیب کے اندر اور باہر مشکلات میں اضافہ ہو گا ۔نیب کو تحقیقات کو مزید بہتر بنا کر اربوں روپے جو پلی بارگین کے ذریعے وصول کیے جاتے ہیں وہ تحقیقات کے دوران صلاحیتوں کی بنیاد پر برآمد کیے جائیں اور سرکاری اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو سخت سزادی جائے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے