گھریلو تشدد!!!

ایک گھر کے ماحول میں کسی شخص پہ جسمانی تشدد یا دیگر استحصالی چیزوں کا بیجا استعمال "گھریلو تشدد” کہلاتا ہے. خاوند اور بیوی کا ایک دوسرے پہ تشدد یا گھر کے کسی فرد کا کسی دوسرے فرد پہ تشدد یا گھر کے بچوں پہ تشدد بھی اسی زمرے میں آتا ہے. گھر کے کسی فرد کی طرف سے جسمانی، زبانی، جذباتی، معاشی، مذہبی اور جنسی استحصال گھریلو تشدد ہی کہلاتا ہے.

قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ گھریلو تشدد صرف جسمانی استحصال ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ جذباتی اور نفسیاتی بدسلوکی اکثر جسمانی تشدد سے زیادہ سنگین ہو سکتی ہے.

عالمی سطح پر گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والوں کی غالب اکثریت خواتین ہیں. کئی ممالک میں گھریلو تشدد کو جائز اور قانونی سمجھا جاتا ہے خصوصاً غیرت کے نام پر قتل، رجم اور کفر کے الزام کی صورت میں ایسے اقدام کو ناجائز نہیں سمجھا جاتا. ایسے ممالک میں صنفی مساوات اور گھریلو تشدد کی حقیقی شرح کے درمیان براہ راست اور اہم تعلق موجود ہوتا ہے.

عالمی سطح پر گھریلو تشدد سب سے کم رپورٹ ہونے والے جرائم میں سے ایک ہے. گھریلو تشدد زیادہ تر اُس وقت ہوتا ہے جب تشدد کرنے والے کے پاس تشدد کا جواز ہوتا ہے یا جب اُس کو یقین ہوتا ہے کہ یہ جرم رپورٹ نہیں ہو گا. اِسی وجہ سے گھریلو تشدد کے شکار لوگ خود بھی اِس جرم میں ملوث دیکھے جا سکتے ہیں. تشدد کرنے والے افراد کی بہت کم تعداد اِس امر کو جرم سمجھتی ہے کیونکہ اُن کے خیال میں تشدد کی وجہ بننے والے مسئلے کا کوئی دوسرا حل دستیاب نہیں تھا.

گھریلو تشدد کی شکار زیادہ تر خواتین تنہائی، طاقت اور اختیار کی کمی، ثقافتی قبولیت، مالی وسائل کی کمی، خوف، شرم یا بچوں کی حفاظت کی بنا پر ایسے حالات میں پھنسی رہتی ہیں. گھریلو تشدد کے شکار افراد جسمانی اور زہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں. گھر کے ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے بھی نفسیاتی مریض بن سکتے ہیں.

اٹھارویں صدی کے نصف تک تقریباً تمام دنیا میں خاوند کے ہاتھوں بیوی پہ تشدد کو غلط نہیں سمجھا جاتا تھا، بلکہ یہ خاوند کے اختیارات میں شامل تھا. لیکن اٹھارویں صدی کے دوسرے نصف میں دنیا کے کئی قانون ساز اداروں میں اِس معاملے پر بحثیں شروع کر دی گئیں. اُس کے باوجود 1993ء تک گھریلو تشدد کو قانون کی گرفت سے دور سمجھا جاتا تھا. 1993ء میں اقوام متحدہ نے "درپیش گھریلو تشدد کے لئے حکمت عملی” کے عنوان سے ایک مینوئل شائع کیا جس کے بعد گھریلو تشدد کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے.

گھریلو تشدد کے واقعات پوری دنیا میں ہوتے ہیں. مختلف ممالک میں اِس جرم کی رپورٹ ہونے کی شرح زیادہ سے زیادہ 69 فیصد اور کم از کم 10 فیصد تک ہے.

(1) ماہرین کا کہنا ہے کہ تشدد کا شکار فرد تشدد کی وجہ سے اتنا خوفزدہ ہوتا ہے کہ وہ اِس معاملے کو چھپانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے. یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے مشہور پروفیسر "چن کولنگ” کی 2011ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہلکے پھلکے تشدد کے شکار افراد کی تعداد میں مرد و خواتین کی تعداد تقریباً برابر ہوتی ہے، مگر شدید تشدد کے معاملے میں شکار ہونے والوں میں اکثریت عورتوں کی ہوتی ہے.

(2)گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی بھی مختلف ممالک میں مختلف قسم کی ہے. تقریباً تمام مغربی ممالک میں گھریلو تشدد کی تمام صورتوں کو جرم ہی سمجھا جاتا ہے. لیکن مشرقی ممالک میں ابھی بھی کچھ رکاوٹیں موجود ہیں مثلاً متحدہ عرب امارات کی سپریم کورٹ کے 2010ء کے ایک فیصلے کے مطابق مرد کو اپنی بیوی اور بچوں پہ تشدد کا حق حاصل ہے بشرطیکہ اُنکے جسم پہ تشدد کے نشانات نہ پڑیں.

(3)ایک تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ جب تشدد کے شکار افراد اُس ماحول کو ترک کرتے ہیں یا تشدد کرنے والے سے تعلق توڑتے ہیں یا گھر چھوڑ دیتے ہیں تو اُس کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی. مشہور محققین "کے اے ویٹیز” اور "ایس بی سوریسن” کی تحقیق کے مطابق پانچ میں سے ایک گھریلو قتل تعلق ترک کرنے کے دو دن کے اندر اندر واقع ہو جاتا ہے، اور ہر تین میں سے ایک قتل قطع تعلقی کے ایک ماہ کے دوران ہوتا ہے.(4)

گھریلو تشدد کے حوالے سے مختلف علاقے کے لوگوں کی اور ایک ہی علاقے کے مختلف لوگوں کی سوچ بھی مختلف پائی جاتی ہے. غیرترقی پسند و کہنہ مزاج سماجوں اور افراد کی نظر میں میاں بیوی کا رشتہ برابری کا نہیں ہوتا بلکہ اُن کے مطابق بیوی کے لیے فرض ہے کہ وہ خود کو خاوند کی اطاعت میں غیرمشروط سپرد کر دے. حتی کہ بعض ممالک میں تو اِس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے، مثلاً یمن کے "ضابطہ عروس” کے مطابق بیوی پہ خاوند کی اطاعت لازم ہے اور وہ خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جا سکتی ہے.

(5)پاکستان سمیت پوری دنیا میں اکثریتی رویہ یہی ہے کہ مار کھانے والی اور تشدد سہنے والی عورت اِس کی حق دار ہوتی ہے. یہی سمجھا جاتا ہے کہ عموماً عورت ہی مرد کو تشدد پہ اکساتی ہے. مزید حیران کن بات یہ ہے کہ عورتوں کی اکثریت بھی یہی سمجھتی ہے. اکثر خاوند کی طرف سے بیویوں کی پٹائی بیوی کے "نامناسب” طرز عمل کا ردعمل سمجھا جاتا ہے. جبکہ کئی علاقوں میں غیرت کے نام پر انتہائی کارروائیاں بھی معاشرے کی ایک اکثریت کی طرف سے منظور شدہ ہیں. بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اردن کی 34 فیصد نوجوان نسل غیرت کے نام پر قتل کو درست سمجھتی ہے.

(6) جبکہ یونیسف کی 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 15 سے 19 سال کے 57 فیصد لڑکے اور 53 فیصد لڑکیاں "بیوی پہ تشدد” کو درست سمجھتے ہیں.

(7) یونیسف کی ہی رپورٹ کے مطابق 63 فیصد افغان خواتین خاوند کو بیوی کی پٹائی کا حق دار سمجھتی ہیں.

(8)بلغاریہ کے ایک مرد نے اپنی بیوی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا. اُس کو عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے پوچھا "تم پہ بیوی کو تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام ہے”، مرد نے جواباً کہا کہ”بطور خاوند مجھے حق حاصل ہے اور میں اِس کو جرم نہیں سمجھتا”.

(9) قبرص، ڈنمارک، ایسٹونیا، فن لینڈ، لٹویا، لتھوانیا، مالٹا اور سلووینیا میں ہونے والے سروے مطابق 70 فیصد آبادی یہ سمجھتی ہے کہ عورتوں کے "اشتعال انگیز رویے” خواتین کے خلاف تشدد کا سبب بنتے ہیں.

(10)اسلام اور گھریلو تشدد کے حوالے سے بھی معاملہ تنازعہ کا شکار ہے. قرآن کی سورہ نساء کی تفسیر کرتے ہوئے اکثر علماء کرام کی نظر میں خاوند کی جانب سے بیوی پہ تشدد شرعاً ممنوع نہیں ہے.

(11) لیکن بعض علماء کے مطابق اِس سورہ کی آیت 34 کا مطلب یہ نہیں کہ بیوی کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے. سنن ابی داؤد کی ایک حدیث کے مطابق مرد سے بیوی کی پٹائی متعلق سوال نہیں کیا جا سکتا.

(12) ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں گھریلو تشدد کی شرح دنیا بھر میں زیادہ ہے جہاں 85 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں.

(13) جبکہ پاکستان میں 80 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں.

(14)گھریلو تشدد اور اُس حوالے سے خواتین کی نفسیات کی دو بنیادی وجوہات ہیں. اولاً خواتین معاشی ناہمواری اور محتاجی کی وجہ سے تشدد کو برداشت کرتی ہیں کیونکہ اُن کو کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا. دوم خواتین اولاد کی محبت میں بھی یہ نفسیات پروان چڑھاتی ہیں کیونکہ اولاد مرد کے نام سے منسوب ہوتی ہے.

1. Heise, Lori; Ellsberg, Mary; Gottemoeller, Megan (1999). "Ending violence against women” (PDF). Population Reports. Series L. Johns Hopkins University, Population Information Program, Baltimore. XXVII (4): 11.

2. Chan, Ko Ling (March–April 2011). "Gender differences in self-reports of intimate partner violence: a review” (PDF). Aggression and Violent Behavior. 16 (2): 167–175. doi:10.1016/j.avb.2011.02.008.

3. CNN Wire Staff (19 October 2010). "Court in UAE says beating wife, child OK if no marks are left”. cnn.com. CNN. Archived from the original on 25 March 2012. Retrieved 24 January 2014.

4. http://injurypreventionbeta.bmj.com/content/14/3/191

5. Amnesty International (November 2009). Yemen’s dark side: discrimination and violence against women and girls. Amnesty International.

6. Maher, Ahmed (20 June 2013). "Many Jordan teenagers ‘support honour killings'”. BBC news. BBC.

7. Khazan, Olga; Lakshmi, Rama (29 December 2012). "10 reasons why India has a sexual violence problem”. The Washington Post. Nash Holdings LLC.

8. Monitoring the Situation of Women & Children. Afghanistan Multiple Indicator Cluster Survey 2010/2011. Central Statistics Organisation. UNICEF. January 2013.

9. Staff writer (8 March 2014). "Seven women die in EU each day due to domestic violence”. Novinite. Bulgaria: One Click Media Group.

10. TNS (September 2010), "Annexes: Tables: QC4.11 Please tell me whether you consider each of the following to be a cause of domestic violence against women, or not?: The provocative behaviour of women.”, in TNS, Special Eurobarometer 344: Domestic violence against women, Brussels, Belgium: European Commission

11. Ayat 34, Nisa, Quran

12. Sunan Abu Dawood, 11:2141

13. Afghanistan – Ending Child Marriage and Domestic Violence Human Rights Watch (September 2013), pages 11-13

14. Four in five women in Pakistan face some form of domestic abuse: Report The Tribune (Pakistan), March 2, 2011

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے