گلگت بلتستان اورحکومت کی بے توجہی

گلگت بلتستان پاکستان کے اہم مقامات میں شمار ہوتے ہیں، قدرتی وسائل سے مالامال ہیں، اسے اگر انصاف پسند اور صاحب بصیرت لیڈر شب مل جائے۔ تو وہ پوری دُنیا میں اپنا لوہا منواسکتے ہیں 1848ء میں کشمیرکے ڈوگرہ سکھ راجہ نے گلگت بلتستان کے علاقوں پر بزور طاقت قبضہ کر لیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ کشمیر کے زیرِ نگیں تھا۔ 1948ء میں اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔یہ پاکستان کا واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں تین ملکوں سے ملتی ہیں

سن 71 کی جنگ میں اس کے کچھ سرحدی علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں جس میں کئی پاکستانی دیہات بھارتی قبضے میں چلے گئے، یہ علاقہ دفاعی طور پر ایک اہم علاقہ ہے نیز یہیں سے تاریخی شاہراہ ریشم گزرتی ہے۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔یہ حقیقت کسی پر پوشیدہ نہیں کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور گلگت بلتستان اس ازلی دشمن کے ناپاک عزائم ونامراد اہداف سے پاکستان کو بچانے کے لئے ڈھال بنے ہوئے ہیں،

گلگت بلتستان کے جوانوں نے ہر دور میں پاکستان کی سیکورٹی کے لئے ہر چیز کی قربانی دی ہے اور کسی بھی وقت پاکستان کی حفاظت کرنے سے غفلت کیا سستی کا بھی مظاهرہ نہیں کیا ہے، جس پر گواہ 48 اور سیاچن کی جنگ سمیت کارگل جنگ میں گلگت بلتستان کے جوانوں کا کردار ہے ،یہ خطہ پاکستان کے دوسرے شہروں اور علاقوں کے لئے امن کا نمونہ ہے -گزشتہ سالوں اگر چہ گلگت شہر میں امن اور سکون کے داخلی وخارجی دشمنوں نے فسادات کی آگ ضرور بڑهکائی، مذہبی منافرت پیدا کرنے کے لئے پوری توانائیاں خرچ کئیں، لیکن قائد محترم سید راحت حسین الحسینی سمیت کچھ شخصیات کی بصیرت اور دوراندیشی نے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا، یہ حقیقت بھی کسی پر مخفی نہیں کہ گلگت بلتستان میں باصلاحیت افراد کی کوئی کمی نہیں ہے اس خطے کے جوانوں میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں اچھی کارکردگی دکھانے کی بھر پور استعداد پائی جاتی ہے، جس کا واضح ثبوت پاکستان کے شہروں سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں جاکر زندگی کے مختلف شعبوں میں گلگت بلتستان کے جوانوں کے دکھائے جانے والے نمایاں کردار اور کارکردگی ہے ،

حکومت پاکستان کی بے توجہی کے سبب گلگت بلتستان کے لائق ذہین وباصلاحیت افراد ملکی ترقی وپیشرفت میں کردار ادا نہیں کرپارہے ہیں، بادل نخواستہ وہ یا تو دوسرے ملکوں کی ترقی میں اپنا رول ادا کررہے ہیں یا اپنے اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے اپنے ملک میں محنت ومزوری کرکے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے پر مجبور ہیں- گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لئے مارے مارے پھر رہے ہیں اور کوئی انکا پرسان حال نہیں ہے۔ منتخب نمائندے حکمرانوں کی بے انصافی پر خاموش رہ کر اپنے خطے کے غریب عوام سے بے وفائی کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے نوجوان روزگار تعلیم،اور عوام صحت بجلی اور دوسری بنیادی ضروریات زندگی مانگ رہے ہیں مگر حکمران انہیں جھوٹے وعدوں پر ٹرخائےجارہے ہیں ۔ وعدے تو بہت کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچهہ نہیں کرتے ہیں جس کا ایک واضح نمونہ یہ ہے کہ نواز حکومت نے گلگت بلتستان کے کھرمنگ اور شگر کو برای نام ضلع بناکرعوام کو خوش فہمی میں مبتلا ضرور کردیا لیکن حقوق دینے کی جب بات آئی تو کهرمنگ اور شگر کے بنائے ہوئے ضلعے کو خواب سمجھ کر عوام فریبی کا ثبوت پیش کردیا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ تا حال کسی منتخب نمائندے نے اس حوالے سے احتجاج کرنا تو دور کی بات اس پر کوئی بات بھی نہیں کی۔ گلگت بلتستان کے عوام بالخصوص کهرمنگ اور شگر کے عوام اس مجرمانہ خاموشی پر منتخب نمائندوں کا محاسبہ ضرور کریں۔

موجودہ نظام چونکہ اِرتکاز پر قائم ہے اور وسائل چند ہاتھوں میں محدود ہیں، اس لیے عوام کو کچھ نہیں ملتا۔ موجودہ حکومت نعرہ تو جمہوریت کا لگاتی ہے لیکن ایسی جمہوریت اور پارلیمانی نظام پر صد حیف ہے کہ جس میں حکمران غریب عوام کو عدل و اِنصاف فراہم نہ کرسکیں۔ جب تک گلگت بلتستان کے معزز، دیانت دار، تعلیم یافتہ اور قانون و شریعت کا فہم رکھنے والے باکردار لوگ اپنے اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اجتماعی حقوق اور انصاف کے لئے آواز بلند نہیں کریں گے اور اپنے منتخب نمائندوں کے گریبان پکڑ کر ایوان بالا میں عوامی مسائل اور مشکلات کے بارے میں بات کرنے پر مجبور نہیں کروائیں گے عوام اسی طرح ظلم وناانصافی کے دلدل میں پھسی رہیں گی اور حقوق کی مد میں ملنے والی مختصر رقوم بے فائدہ نمائشی منصوبوں ‘‘پہ برباد ہوتی رہیں گی۔ بے روزگاری کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی رہے گی اور ترقی و خوشحالی ہمیشہ کے لئے خواب بن کر رہے گی ۔

سب جانتے ہیں کہ آزادی پاکستان کی جنگ کا مقصد ملک کے ہر باشندے کے لئے عزت، انصاف اور برابری کو فراہم کرنا تھا نہ کہ صرف اقتدار وکرسی کی منتقلی۔ آئین پاکستان میں یہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ بغیر کسی تفریق کے امن اور سلامتی کے ماحول میں باوقار طریقے سے پاکستان کے سارے باشندوں کو جینے کا حق ہے۔ آئین ملک کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 14 قانون کی نظر میں ملک کے تمام شہری کو برابر قرار دیتا ہے، اور آرٹیکل 15 مذہب، رنگ، نسل، ذات، جنس اور پیدائش کی جگہ وغیرہ کی بنیاد پر کسی طرح کے امتیاز پر روک لگاتا ہے، آرٹیکل 16 عوامی روزگار کے سلسلے میں برابر موقع دینے کی ضمانت دیتا ہے اور ریاست کو کسی کے بھی خلاف صرف مذہب، رنگ، نسل، ذات، جنس اور پیدائش کی جگہ وغیرہ کی بنیاد پر تفریق کرنے سے روکتا ہے۔

آرٹیکل 19 شہریوں کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی، ملک کے کسی بھی حصّے میں کہیں بھی آنے جانے کی آزادی، ایک جگہ جمع ہونے کی آزادی ، ملک کے کسی بھی حصے میں بسنے اور رہائش گاہ کی آزادی کے ساتھ ساتھ کسی بھی پیشہ کو اپنانے کی آزادی دیتا ہے۔آئین کے آرٹیکل 21 نے تو ملک کے باشندوں کو عزت والی زندگی جینے کا راستہ ہموار کیا ہے۔ اس کے تحت ہر شہری کو اپنی انسانی وقار کی ساتھ جینے کا حق حاصل ہے۔ اس میں روزی روٹی، بہتر صحت، صاف ماحول، تعلیم، عدالتوں میں فوری سماعت اور قید کے دوران انسانی رویے سے متعلق حق بھی شامل ہیں۔ اس آئینی شق کے تحت بنیادی سطح پر تعلیم کے حق کو ہر بچے کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح آئین نے آرٹیکل 23۔24 کے تحت استحصال کے خلاف حق دیا ہے۔لیکن گلگت بلتستان میں اگر دیکھا جائے تو قانون کی خلاف ورزی کا بول بالا ہے عوام کو انصاف اور برابری سے حقوق دینے کے بجائے اب تو نواز حکومت غریب عوام کی ملکیت اراضی کو حکومت کا خالصہ زمین قرار دے کر بلامعاوضہ قبضہ کررہی ہے جو صددرصد ظلم ہے اور کئی جگہوں پر غریبوں سے ان کی ملکیتی زمین چھین کر وہاں غیر متعلقہ اجنبی لوگوں کو کالونی بناکر بسانے کا پروگرام بنا رہی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے پتہ نہیں ہمارے نمائندوں میں غیرت کا شعور اور ظالم کے ساتھ دینے کی اخروی سزا پر ایمان کب پیدا ہوگا گلگت بلتستان کے عوام کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے گلگت بلتستان کے ہر فرد حکومت وقت سے یہ پوچھ رہا ہے کہ گلگت بلتستان سے حکومت کی بے توجہی کیوں ؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے