کئی دنوں سے اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھا لیکن مصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں ملا۔ اس دوران میں کئی اہل علم و قلم نے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ کسی نے حقوقِ انسانی کی دہائی دی ہے، تو کوئی دہائی دینے والوں کے ”دوغلے پن“ پر تنقید کر رہا ہے کیونکہ جب کئی اور لوگ لاپتہ ہورہے تھے تو یہ دہائی دینے والے ان دنوں خاموش تھے، بلکہ ان میں کچھ بغلیں بھی بجا رہے تھے۔ خیر بغلیں بجانے والے تو اب بھی موجود ہیں لیکن وہ اب لکیر کی دوسری طرف پائے جاتے ہیں!
میرا مؤقف یہ ہے کہ لاپتہ ہونے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہوں یا گم کیے جانے والے بلوچ، جس کسی نے بھی ملکی قانون کی خلاف ورزی کی ہے، اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ کئی قلم کاروں نے جبری گمشدگی کو جواز دینے کے لیے یہ پوزیشن اختیار کی ہے کہ جو لوگ لاپتہ ہوئے ہیں، وہ توہینِ مذہب کے مرتکب ہوئے تھے۔
پہلے تو اس بات کو اس وقت تک محض الزام ہی سمجھا جائے گا جب تک عدالت میں اسے ثابت نہ کیا جائے۔ پھر اگر ایک لمحے کے لیے اسے ثابت شدہ حقیقت بھی مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں کیا انھیں ”گمشدہ کرنا“ چاہیے تھا، یا ان کے خلاف متعلقہ قانون کی رو سے مقدمہ چلا کر انھیں قرار واقعی سزا دلوانی چاہیے تھی؟
اس کے جواب میں عموماً یہ عذر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ عدالت میں جرم کا ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے، اور پہلے بھی جن لوگوں پر توہینِ مذہب کا مقدمہ چلانے کی کوشش کی گئی، انھیں مغربی طاقتوں کے دباؤ کی وجہ سے رہا کرانا پڑا۔
یہاں ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر سوچیے کہ اس عذر میں کتنا دم ہے؟ کیا ان سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو گمشدہ کرنے پر ”مغربی طاقتیں“ خاموش رہ پائیں؟ کیا اب ان کا دباؤ نہیں ہے؟ اگر تب ہم ان کا دباؤ برداشت نہیں کر سکے تو اب کیا کرلیں گے؟ اور اگر ان لوگوں کے خلاف ہونے والے تمام پروپیگنڈے کے بعد اگر انھیں بالآخر رہا کرنا پڑے تو ہمارے یہ عذرخواہ پھر کہاں کھڑے ہوں گے؟
اس سے بھی آگے جا کر سوچیے کہ کیا توہینِ مذہب کے قانون کے صحیح استعمال اور مؤثر نفاذ کا خواب پورا کرنے کے لیے انھیں گمشدہ کرنا مناسب تھا یا اس کے بجائے یہ ضروری تھا کہ ان کے خلاف اس قانون ہی کے تحت کارروائی کی جاتی اور ہر قسم کے دباؤ کے باوجود ان کو سزا دی جاتی؟
جب قانون کے تحت کارروائی کی بات آتی ہے تو بعض قلم کاروں نے یہ لکھا کہ قانون نے اداروں کو اختیار دیا ہے کہ نوے دن تک کسی کو زیرحراست رکھیں۔ یہاں پہلے اس بات کی تصحیح کیجیے کہ یہ اختیار مطلق نہیں ہے، نہ ہی عام ہے۔ تمام اداروں کو تمام امور میں ہر بندے کو اس طرح اٹھاکر ”غائب“ کر دینے کا اختیار نہیں ہے بلکہ ”تحفظِ پاکستان قانون“ کے تحت چند مخصوص جرائم میں چند مخصوص حالات میں چند مخصوص اداروں کو چند مخصوص شرائط کے ساتھ ہی یہ اختیار حاصل ہے، اور اخلاقیات کے اصولوں کی روشنی میں دیکھیے تو وہ بھی ٖغلط ہے، لیکن غیر اخلاقی ہی سہی، ان حدود و قیود میں ہو تو یہ اختیار غیر قانونی نہیں ہے۔ مسئلہ البتہ یہ ہے کہ کسی شخص کے خلاف توہینِ مذہب کے الزام کے تحت اس قسم کی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اہم بات یہ ہے کہ جبری گمشدگی نہ صرف ملکی دستور اور قانون کی رو، بلکہ بین الاقوامی قانون کی رو سے بھی ایک سنگین جرم ہے، خواہ اس کا ارتکاب حالتِ جنگ میں – اور ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف ہی – کیا جائے۔
اس موڑ پر آ کر بعض بہت سنجیدہ اہل ِ قلم نے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں اور یہ کہ پہلے بھی جو لوگ لاپتہ کیے گئے، وہ سارے کسی نہ کسی طرح اس کے مستحق تھے، اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ بعض نے یہاں تک کہا کہ کچھ عرصہ غائب کیے جانے کے بعد جب ایسے لوگوں کو واپس چھوڑ دیا گیا تو یہ سزا سے بہتر تھا۔
سچ یہ ہے کہ ایسے سنجیدہ اور فہمیدہ لوگوں کو یہ ”دلائل“ دیتے دیکھ کر بہت زیادہ افسوس ہوا۔ قانون اور اخلاق کے اصولوں، بلکہ خالص ”عملیت پسندی“ (pragmatism) کی رو سے بھی ان دلائل میں کوئی وزن نہیں ہے۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے جیسا کہ بتایا جارہا ہے تو اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ قانون اور اخلاق کے تمام اصول مزعومہ ”قومی مفاد“ کے نام پر قربان کیے جاسکتے ہیں، اور اس قومی مفاد کے تعین کا اختیار چند پارسا و پاک باز لوگوں کو حاصل ہے! خالص عملیت پسندی کی رو سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ چلی اور جنوبی امریکا میں ہو، یا نیپال و بنگال میں ہو، بلوچستان میں ہو یا وزیرستان میں، کراچی میں ہو یا اسلام آباد میں، اس پالیسی نے کہیں بھی ”فائدہ“ نہیں دیا بلکہ ایسی آگ بوئی ہے جس کی لپیٹ میں پھر – پشتو محاورے کے مطابق – خشک کے ساتھ گیلے بھی جل گئے!
اور پھر یہ ذرا ان لوگوں سے پوچھیے جن کے ”کچھ لگتے“ غائب کر دیے جائیں اور برسہا برس وہ اس اذیت میں گزاریں کہ انھیں معلوم ہی نہ ہو پاتا ہو کہ وہ زندہ ہیں یا مرگئے ہیں؟ ذرا خود کو، یا اپنے کسی پیارے کو اس پوزیشن پر رکھ کر سوچیے۔ کیا ہوگا اگر آپ کے کسی پیارے کو اچانک گم کر دیا جائے اور پھر معلوم ہی نہ ہو پاتا ہو کہ وہ کہاں ہے، زندہ بھی ہے یا مرگیا ہے، کس حال میں ہے، اس کا جرم کیا ہے، کس نے اس کے جرم کا تعین کیا، اسے کیا اور کیسی سزا دی؟
اخلاقیات کا بنیادی اصول ایک مشہور یہودی ربی گملی ایل نے یہ بتایا تھا، جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر پوری ”شریعت“ (یعنی تورات) بیان کرسکتا ہے: ”جو تم نہیں چاہتے کہ دوسرے تمھارے ساتھ کریں، وہ تم ان کے ساتھ بھی نہ کرو؛ یہ اصل ہے؛ باقی تفصیل!“ یہی بات اناجیل میں سیدنا مسیح علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے، اور یہی بات رسول اللہ ﷺ نے بھی بیان فرمائی۔