کشمیرلبریشن سیل یا”لبریشن Sale”؟

تحریک آزادی کشمیرکے نام پر کروڑوں روپے فنڈز حاصل کرنے والا ادارہ جموں و کشمیر لبریشن سیل سیاسی جیالوں کی ایڈجسٹمنٹ کے سوا کوئی کام نہ کر سکا۔ لبریشن سیل کی ایڈوائزری کونسل کا طریقہ کار ختم کر کے دانشوروں اور اہل قلم کی شمو لیت کے بجائے حکمرانوں کے منظور نظر افراد کی بھرتی کا سلسلہ چل نکلا اور ادارے کو کونسل کے ذریعے چلانے کے بجائے اسے وزیر اعظم کی صوابدید بنا دیا گیا ۔اس طرح سالانہ آٹھ کروڑ(2016 تک) کا بجٹ اور بے حساب فنڈز لینے والا یہ ادارہ تحریک آزادی کیلئے تو کچھ نہ کر سکا لیکن حکومتیں اسے جیالا نوازی کیلئے استعمال کرتی رہیں۔

سابقہ حکومت کے دورانیہ میں دیکھا گیا ہے کہ لبریشن سیل کے تحت کسی بھی کشمیر سینٹر میں کشمیر کے حوالے سے پروگرام میں ہمیشہ دیہاڑی والے مزدور بلا کر تعداد پوری کی جاتی رہی ہے۔حالانکہ سابقہ حکومت میں 80 کے لگ بھگ جیالے یہاں ایڈجسٹ کیے گئے تھے جو یکم اگست کو فارغ کیے گئے اور اب نئی حکومت نے بھی ابتدا کی ہے اور پہلے مرحلے میں دس سیاسی کارکنوں کوبطور کوآرڈینیٹر بھرتی کیا ہے۔

[pullquote]لبریشن سیل کا قیام [/pullquote]

1988ء میں قائم ہونے والے جموں و کشمیر لبریشن سیل آرڈیننس کو2010 میں مکمل سرکاری ادارے کی حیثیت دے دی گئی۔21مارچ 2012ءکو آزاد کشمیر حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر آرڈیننس 18آف 2012ءجاری کیا جو آزاد جموں و کشمیر فنانس ایکٹ میں ترمیم سے متعلق ہے جس کے بعد اس کے اخراجات عوام کے پیسے سے پورے کئے جانے لگے۔آزاد کشمیر حکومت کی نگرانی میں 1988ءمیں لبریشن سیل نیم سرکاری ادارے کے طور پر قائم ہوا۔چند سال تو یہ ادارہ اپنے قیام کے تصور کے مطابق کسی حد تک کام کرتا رہا لیکن پھراس کی ہیئت تیزی سے بگڑتی گئی۔ ایڈوائزری کونسل کا طریقہ کار ختم کر دیا گیا اور اس ادارے میں دانشوروں ،اہل قلم کی شمو لیت کے بجائے حکمرانوں کے منظور نظر افراد کی بھرتی کا سلسلہ چل نکلا۔

ایڈوائزری کونسل کے خاتمے سے ادارہ کو کونسل کے ذریعے چلانے کے بجائے اسے وزیر اعظم کی صوابدید بنا دیا گیا اور اب یہ صرف جیالا نوازی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔یہ ادارہ تحریک آزادی کشمیر کے علمی محاذپر کام کرنے کے لئے بنایا گیا تھا لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اس ادارے کا تحریک آزادی کشمیر سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ ادارہ آزاد کشمیر کے حکمرانوں کے منظور نظر افراد کو بغیر کوئی کام کئے روزگار فراہم کرنے اور ناجائز بھاری اخراجات کی وصولی کے ذریعے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

[pullquote]جموں و کشمیر لبریشن سیل کے مقاصد[/pullquote]

کشمیر لبریشن سیل کے مقاصد میں ،کشمیر کے معاملے کو اندرون و بیرون ملک اجاگر کرنا،ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے اقدامات اٹھانا، ریاست جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی تاریخ سے متعلق مطبوعات کا اہتمام،بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا ، بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے تھنک ٹینک کا کام کرنا و معاملے سے متعلق پالیسیاں ترتیب دینا اور حکومت کی طرف سے تحریک آزادی کو اجاگر کرنے کے معاملات چلانے کے امور شامل ہیں۔

[pullquote]لبریشن سیل نیم سرکاری ادارے سے سرکاری ادارے تک[/pullquote]

1988ءمیں آزاد کشمیر حکومت کی نگرانی میں قائم لبریشن سیل نیم سرکاری ادارے کے طور پر قائم ہوا۔ چند سال تو یہ ادارہ اپنے قیام کے تصور کے مطابق کسی حد تک کام کرتا رہا لیکن پھراس کی ہیت تیزی سے بگڑتی گئی۔ ایڈوائزری کونسل کا طریقہ کار ختم کر دیا گیا ۔

2001 ءمیں کشمیر لبریشن سیل کے چند ملازمین نے اپنی ملازمتوں کے تحفظ اور سرکاری حقوق و مراعات کے حصول کے لئے عدلیہ سے رجوع کیا۔عدلیہ کی ہدایت پر سیل کے قواعد و ضوابط بنائے گئے اور ملازمین ( دفتری سٹاف)کو سرکاری تحفظ دیا گیا۔

2010میں راجا فاروق حیدر نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے اسے مکمل سرکاری حیثیت دی اور21مارچ 2012ءکو آزاد کشمیر حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر آرڈیننس18آف 2012ءجاری کیا جو آزاد جموں و کشمیر فنانس ایکٹ میں ترمیم سے متعلق ہے۔اس آرڈیننس کے تحت کشمیر لبریشن سیس کا دائرہ نہایت وسیع کیا گیا ہے۔

[pullquote]ادارے کیلئے پیسہ کہاں سے آتا ہے[/pullquote]

آزاد کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں متنازعہ ہونے کے باوجود نامکمل آزادی کی تکمیل کے نام پر ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ آرڈیننس کے تحت پبلک آفس ہولڈرز یعنی صدر،وزیر اعظم،سپیکر،ڈپٹی سپیکر،وزراء،مشیران،پارلیمانی سیکرٹریز،ممبران اسمبلی اور تمام دوسرے پبلک آفس ہولڈرز کی تنخواہوں سے بحساب 0.5فیصد کشمیر لبریشن سیس ماہانہ کاٹا جارہا ہے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ،سپریم کورٹ کے ججز،چیف جسٹس ہائیکورٹ و ججزہائیکورٹ کی تنخواہوں سے بھی بحساب0.5فیصد کے حساب سے ماہانہ کشمیر لبریشن سیس لیا جا رہا ہے۔ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ سے بھی ماہانہ0.5کے حساب سے سیس لیا جا رہا ہے۔حکومت کے زیر انتظام تمام اداروں کے ملازمین سے بھی 0.5فیصد ماہانہ کاٹا جارہا ہے۔

کمرشل مقصد کے لئے فی مربع فٹ پر پانچ روپے کشمیر لبریشن سیس عائد ہے۔مال بردار گاڑیوں سے فی پھیرا 5 روپے لیا جارہاہے۔جائیداد کی منتقلی پر جائیداد کی مالیت کا0.50فیصد سیس کٹوتی ہورہی ہے۔تمام نجی گاڑیوں سے سالانہ50روپے ،لائٹ کمرشل گاڑیوں سے 80روپے ماہانہ اور ہیوی گاڑیوں سے 150روپے ماہانہ لئے جارہے ہیں۔موٹر سائیکل کی رجسٹریشن پر 40 روپے،کار/جیپ رجسٹریشن پر 200روپے،ہلکی کمرشل گاڑیوں کی رجسٹریشن پر400روپے اور ہیوی پر 800روپے۔معمول کے طور پر پاسپورٹ کی تجدید پر100 روپے فی پاسپورٹ اور ارجنٹ پر 200روپے فی پاسپورٹ سیس عائد ہے۔

اسلحہ لائسنس پر100روپے فی لائسنس، سات مرلہ پلاٹ کی مفت الاٹمنٹ پر200روپے فی مرلہ اور سات مرلہ الاٹمنٹ پر400روپے فی مرلہ،سات مرلہ تک 1000روپے فی مرلہ ،سات مرلہ سے زیادہ پلاٹ پر 1200روپے فی مرلہ، صنعتی وکمرشل پلاٹ پر 1400روپے فی مرلہ کشمیر لبریشن سیس لیا جارہا ہے۔فی ٹینڈر فارم50روپے جبکہ رینیوول پر100روپے فی فارم سیس وصول کیا جارہا ہے۔اسی طرح تعلیمی امتحانات اور سٹیٹ سبجیکٹ پر بھی کشمیر لبریشن سیس عائد کیا گیا ہے۔

سوسائٹی کی رجسٹریشن پر 100روپے،کمپنی کے حامل شخص پر600روپے(ہر تجدیدپر)نجی سکول کی ہر تجدید پر200روپے اور کالجز وغیرہ پر 400روپے سیس عائدکیا جا رہا ہے۔شیڈولڈ بنک کو اپنی نئی شاخ کھولنے کے لئے 20000روپے اور بنک ملازمین کو 0.5فیصد کے حساب سے،ٹھیکیداران کو ہر وصولی پر فی ہزار دوروپے سیس دینا پڑ رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس فنڈ ریزنگ سے ہر ماہ تقریباًً دس کروڑ روپے حکومت کو حاصل ہورہے ہیں۔اس کا مقصد رقم کے انتظام کے علاوہ یہ تھا کہ آزاد کشمیر کے سرکاری ملازمین کی تحریک آزادی کشمیر میں عملی شمولیت کے جذبے کا اظہار کیا جائے۔

[pullquote]کشمیر سینٹرز ، بجٹ اور کاردکردگی[/pullquote]

کشمیر لبریشن سیل کا صدر دفتر مظفر آباد میں ہے جبکہ راولپنڈی ، میرپور ، راولاکوٹ اور لاہور میں کشمیر سینٹر قائم ہیں۔کشمیر لبریشن سیل اپنا بجٹ بنا کر فنانس ڈیپارٹمنٹ کو بھیجتا ہے جو اس کی منظوری دیتا ہے۔کشمیر لبریشن سیل کا سالانہ بجٹ آٹھ کروڑ روپے ہے خصوصی فنڈز اس کے علاوہ ہیں۔مستقل ملازمین کی کل تعداد124ہے اور 80 سے زائدملازمین صوابدیدی ہیں۔

بجٹ میں سے تقریباً ایک کروڑ روپے سالانہ آزاد کشمیر حکومت کے وفد کے بیرون ملک دورے پر خرچ ہوتے ہیں جس کے اخراجات کی تفصیل سے خود سیل بھی لاعلم ہے۔اس وفد میں آزاد کشمیر حکومت کے نمائندے،حریت کانفرنس کا ایک نمائندہ اور مخصوص منظور نظرافراد شامل ہوتے ہیں، آزاد کشمیر کا اگر کوئی شخص مقبوضہ کشمیر میں شہید ہو جائے تو آزاد کشمیر میں اس کے ورثاءکو بذریعہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر پچاس ہزار روپے کی امداد کی جاتی ہے۔

ادارے کے باقی اخراجات میں تقریبات ،بینرز وغیرہ اور مطبوعات کی تیاری شامل ہیں۔گزشتہ دس سال کے دوران کشمیر لبریشن سیل نے تقریباً 40کتابچے اور ایک سو کے قریب پمفلٹ شائع کرائے ہیں۔

[pullquote]سیاسی بنیادوں پر نا اہل افراد کی بھرتی کا سلسلہ ادارے کو نقصان پہنچاتا ہے[/pullquote]

کشمیر لبریشن سیل کے ڈائریکٹر راجہ سجاد لطیف نے بتایا ہے کہ یہ ادارہ کلی طور پر سیاسی ادارے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر نا اہل افراد کی بھرتی کا سلسلہ ادارے کو نقصان پہنچاتا ہے جبکہ ادارے میں کشمیر کے وسیع موضوع پر علم و مہارت رکھنے والے افراد کی خدمات سے استفادہ ضروری ہے۔

انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ یہ ادارہ اپنے قیام کے مقاصد کے مطابق کام نہیں کر رہا۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں سیل کے دفتری سٹاف کی ملازمتوں کو سرکاری تحفظ ملا،ادارے کے رولز بنے اور حکومت کے مالیاتی قواعد وضوابط کشمیر لبریشن سیل پر بھی لاگو ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت کو انہوں نے تحریری طور پر کہا تھا کہ ادارے کو سیاسی بنانے کے بجائے اس ادارے کی کارکردگی کی بہتری کیلئے کام کرنے دیا جائے۔ سیاسی شخصیات کا کہنا ہے کہ کشمیر لبریشن سیل تحریک آزادی سے منسلک ہونے کی وجہ سے ایک حساس معاملہ ہے اس پر اخبارات میں اظہار خیال کیا مناسب نہیں ہے۔

[pullquote]
تحریک آزادی کے نام پر اکٹھی رقم کو حکمرانوں کے ناجائز اخراجات کے لئے ادائیگی[/pullquote]

آزاد کشمیر کے سرکاری ملازمین نے تحریک آزادی کشمیر کے لئے خوشدلی سے اپنی تنخواہوں میں کٹوتی کا فیصلہ قبول کیا تھا لیکن جب سرکاری ملازمین یہ دیکھتے ہیں کہ گزشتہ 28سال کے دوران اس ادارے کو حکمرانوں ،سیاست دانوں کے ناجائز مفادات کا ذریعہ بنایا گیا ہے تو وہ ’ کشمیر لبریشن سیل‘کے نام سے ہونے والی اس کٹوتی کو زبردستی پر مبنی ناجائز ٹیکس قرار دیتے ہیں۔

آزاد کشمیر کے عوام نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ اب کشمیر لبریشن سیل کو (Kashmir liberation Cell) کو) (Kashmir liberation Saleکہا اور سمجھا جاتا ہے۔ہم تحریک آزادی کشمیر کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن تحریک آزادی کے نام پر اکٹھی رقم کو آزاد کشمیر کے حکمرانوں ،سیاستدانوں کے مفادات اور ناجائز اخراجات کے لئے ادا کرنا عوام کو ہرگز قبول نہیں ہے۔

[pullquote]سابق دورحکومت میں کشمیر لبریشن سیل میں صوابدیدی عہدوں کی تنخواہوں کیلئے ماہانہ 27 لاکھ روپے لیے[/pullquote]

کشمیر کی آزادی کے نام پر بنائے گئے ادارے کشمیر لبریشن سیل میں سابقہ حکومت کی طرف سے صوابدیدی عہدوں پر میرپورسے صاحبزادہ ذوالفقار ، راجہ شوکت، محمد بشیر مقیم برطانیہ،چوہدری فاروق، چوہدری اورنگزیب،رقیہ خانم،طاہرہ حمزہ،علی اصغر راسب،چوہدری ریاست علی، نثار قریشی۔کوٹلی سے چوہدری ندیم حسین ،ملک میر زمان،پرویز اکبر،نصیر راٹھور،مقبول گورسی،فرحت عباس کاظمی،امیر قابل،شوکت حسین،راجہ جہانگیر،محمد ابراہیم ،چوہدری خورشید۔سدھنوتی سے جاوید یعقوب،سردار منظور عاصم،رئیس انقلابی،سردار جمیل،نثار شمیم۔ پونچھ سے حافظ صغیر،سردار امتیاز احمد،آبشار کفایت،ریحان سلیم،اسحاق میر،محمد الیاس خان، خان محمد اشرف، پرویز خان، پرویز خان۔حویلی سے محمد شریف خان۔ باغ سے راجہ آصف علی خان،راجہ جمیل اختر،راجہ یونس،عمر حیات، امتیاز حسین شاہ۔مظفر آباد سے پرویز اختر اعوان،بشارت افضل،میر الطاف،فوزیہ حبیب،چوہدری اعجاز اقبال،فرید گردیزی، ممتاز سلہریا،عارف مغل،فرید غازی، بھمبر سے راجہ گل پٹھان، محمد سلیم،محمد اسلم، راولپنڈی سے خان بشیر احمد سے محمد راشد اسلام ،صوفی اصغر گجر، راجہ مشتاق احمد اور برطانیہ سے چوہدری شایان،راجہ معروف خان اور راجہ فضل الرحمن شامل ہیں جن کا کوئی بھی کام متعین نہیں تھا لیکن ماہانہ 27 لاکھ روپے ان کی تنخواہوں کیلئے عوام سے لیا جاتا رہا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ پورے پانچ سال کشمیر کے حوالے سے کسی پروگرام میں شریک نہیں ہوئے یہاں تک کہ جب کسی کشمیر سینٹر میں کوئی پروگرام منعقد ہوتا ہے تو کرسیاں بھرنے کیلئے سڑک پر بیٹھے مزدوروں کو 300 روپے فی کس کے عوض لایا جاتا رہا ہے۔

[pullquote]موجودہ حکومت میں نئے بھرتی کئے جانے والے کوآرڈینیٹرز[/pullquote]

کشمیر لبریشن سیل میں مسلم لیگ کی حکومت نے صوابدیدی عہدوں پر چوہدری اشتیاق کو بھمبر سے ، سردار راشد حنیف کو پونچھ سے ،صدام شاہ بخاری کو نیلم سے،سید فواد گیلانی اور سید غضنفر حسین کو مظفرآباد سے ،اظہر اشفاق کو باغ سے ،رضوان قیوم کو کوٹلی سے ، طاہر عباس کو جہلم ویلی سے ، منیب ٹھاکر کو میرپور سے، طاہر احمد رئیسانی کو جہلم ویلی (ہٹیاں بالا)جبکہ سردار وسیم ایڈووکیٹ کو سدھنوتی سے کوآرڈینیٹر مقرر کیا ہے۔ لبریشن سیل ذرائع کے مطابق 35 اور افراد کو جلد ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

وزیراعظم فاروق حید جب اپوزیشن میں تھے تو کشمیر لبریشن سیل میں ہونے والی ان بے اعتدالیوں کے خلاف اکثر بولتے رہتے تھے لیکن اب ان کے اپنے ہی دور حکومت میں ایک بار پھر اس ادارے میں وہی پرانی ریت دہرائی جا رہی ہے . اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم فاروق حیدر اس معاملے کی نزاکت کو سمجھ پاتے ہیں یاپھر پارٹی کارکنوں کی ایڈجسٹمنٹ کی مطالبے کو سابقہ حکومتوں ہی کے ڈگر پر پورا کرتے ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے