سپریم کورٹ اور جماعت اسلامی کا وکیل

پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل آصف توفیق نے اپنے دلائل شروع کرنے سے پہلے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے میڈیا کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سماعت کے دوران بینچ میں موجود جج صاحبان نے اُن سے (توفیق آصف) جو سوالات کیے تھے اور جس طرح اس بارے میں رپورٹنگ کی گئی اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدالت ان درخواستوں پر فیصلہ کرنے کے لیے اپنا ذہن بنا چکی ہے۔

اس پانچ رکنی بینچ کے سربراہ آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ دلائل کے دوران وکلا سے سوالات کرنے کا مقصد فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ حقائق تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ جب تک پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک میڈیا کو اس بارے میں پابند کیا جائے کہ وہ اس بارے میں کوئی ٹی وی پروگرام نہ کرے تاہم عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔

جماعت اسلامی کے وکیل کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کے خاندان کو تحفظ دینے کے لیے وزراء کی ایک فوج عدالت میں پہنچ جاتی ہے جس پر آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’جنھوں نے سڑکوں پر کمنٹری کرنا تھی کرلی اب انتظار کریں۔‘

اپنے دلائل کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ ذاتی وضاحت کے لیے وزیراعظم کو تقریر پیر کو نہیں بلکہ منگل کو کرنی چاہیے تھی جس پر بینچ میں موجود جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وزیر اعظم اس دن تقریر نہیں کرسکتے جس دن گوشت کا ناغہ نہ ہو۔ جج کے اس ریمارکس پر کمرہ عدالت میں ایک زور دار قہقہ بلند ہوا۔

جماعت اسلامی کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی طرف سے پارلیمان میں کی جانے والی تقریر کے مختلف حوالے دیے جس پر بیچ میں موجود جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وہ اس تقریر کے حوالے پہلے بھی دے چکے ہیں کوئی اور دلائل دیں۔

جسٹس عظمت سعید نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’بھائی صاحب آگے چلیں۔‘اُنھوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ پرانی باتیں دھرا کر آپ سماعت میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔

سماعت کے دوران جب بینچ میں موجود ججز نے جماعت اسلامی کے وکیل پر سوالات کی بوچھاڑ کردی تو توفیق آصف نے اپنی بےبسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک وقت میں ایک ہی سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ لارجر بینچ کے سامنے ایسا ہی ہوتا ہے اس لیے وکیل کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔

بینچ میں موجود جسٹس گلزار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حدیبیہ پیپرز مل پاکستان میں ہے تو اس کا مقدمہ لندن میں کیوں کیا گیا جس پر جماعت اسلامی کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ التوفیق والوں نے کیا تھا لہذا اس بارے میں اُنہی سے ہی پوچھا جائے۔ جسٹس عظمت سعید نے جماعت اسلامی کے وکیل سے کہا کہ اُن کا نام بھی تو توفیق ہے کہیں آپ نے تو وہ مقدمہ دائر نہیں کیا تھا اس پر عدالت میں ایک اور قہقہ بلند ہوا۔

سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل نے سپریم کورٹ کے دائرہ سماعت سے متعلق اپنے دلائل میں کہا کہ اگر سپریم کورٹ ادکارہ عتیقہ اُڈھو سے شراب کی بوتل اور آیان علی کو بیرون جانے سے روکنے کے معاملے پر کارروائی کرسکتی ہے تو پاناما کا معاملہ تو اس سے بہت بڑا ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عتیقہ اُڈھو کے وکیل ہے یا آیان علی کے۔ اُنھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے دل کی بات زبان پر آگئی ہے جس پر عدالت میں ایک زوردار قہقہ سنائی دیا۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ انصاف کے ترازو میں سب کو ایک ساتھ تلنا چاہیے اس پر بینچ کے سربراہ نے توفیق آصف کو مخاطب کرتے ہویے کہا کہ تلنا نہیں ہوتا بلکہ تولنا ہوتا ہے۔

سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل کی طرف سے اپنے دلائل بارہا دہرانے پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ایک بار آپ کے دلائل لکھ چکے ہیں تو انہیں آپ دس بار کیوں دھرا رہے ہیں۔

اس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘مائی لارڈز اِف یُو الاؤ مِی’ میں اپنے دلائل جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ جسٹس عظمت سعید نے توفیق آصف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ہمیشہ آپ کو ’الاؤ‘ کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عدالت آپ کو ” ڈس الاؤ” کرکے آپ کی خواہش پوری نہیں ہونے دے گی۔

جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل پر اُن کی اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بھی مسکرا رہے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے