جماعت کی دورنگی اورسیاستِ دوراں

”آپ جو اپنے کارکن ساتھی کیلئے دعا کرتے ہو ، سلام کرتے ہو اور تحریک کیلئے قربانی کا جو جذبہ آپ کے پاس ہے وہ آپ کو دوسری تنظیموں سے برتر بناتا ہے، تربیتی و سیاسی پروگراموں میں شرکت، وال چاکنگ ، چندہ جمع کرنا ، یہ سب اسلام کیلئے ہے ، اس کا اللہ تمہیں اجر دے گا اور دین کی خدمت کے باعث آپ دوسروں سے منفرد ہیں ۔آپ کا سیاسی اور دعوتی کام حتیٰ کہ جماعت اسلامی کیلئے ووٹ مانگنا بھی ثواب کا کام ہے کیونکہ اس سے اسلامی انقلاب آئے گا ۔کالجوں ،یونیورسٹیوں میں آپ دوسری جماعتوں کے کارکنوں سے زیادہ تعلق نہ رکھیں ، اپنے کارکنوں کی تربیت پر توجہ دیں ۔”

برتری کا یہ پہلا سبق جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن کو پڑھایا جاتا ہے ۔جب معاشرے میں آپ خود کو برتر تصور کریں گے تو سماج میں‌منفی اقدار فروغ پاتی ہیں . آپ دوسروں کو کم تر ، گنہگار اور اپنے خلاف میں انتخابات لڑنے والوں کو اسلامی انقلاب کے خلاف کام کرنے والا تصور کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر آپ قیادت کے فیصلوں اعلیٰ و حکمت سے بھرپور سمجھتے ہیں اور ان پر ہونے والی تنقید کا ہر طرح سے دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس دوران یہ بھول جاتے ہیں کہ زعماء بھی آخر انسان ہیں اور غلطی ہو سکتی ہے لیکن مجال کے کوئی غلطی جماعت اسلامی کے کارکنوں سے ہو۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے ، پاکستان کیلئے جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اپنی جانیں تک قربان کیں لیکن جماعت اسلامی کے ہر فیصلے میں دو رنگی کیوں نظر آتی ہے اور خود کو ہر لمحہ برتر ثابت کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے ؟

اسلامی معاشرے کی بات توکی جاتی ہے، انسانوں کی برابری کے نعرے لگائے جاتے ہیں ، خود کو عالم گیر تحریک گردانا جاتا ہے لیکن برتر ہونے کا مضبوط تصور بھی انہی کے ہاں‌ پایا جاتا ہے ، برتری کے تصور کے ساتھ دو رنگی جماعت اسلامی کی بنیادوں میں پائی جاتی ہے جس کو کارکن برتری سمجھتے ہوئے بھرپور دفاع کرتے ہیں ۔

اسلامی نظام کی بات کرنے والی جماعت جمہوریت کو اسپورٹ کرتی ہے اور ووٹ کو گواہی یا بیعت سے تشبیہہ دی جاتی ہے لیکن کس طرح ؟( اس کیلئے جماعت اسلامی کے اندرونی سیٹ اپ کو دیکھا جائے تو وہ اس کے بھی خلاف جاتا ہے ۔ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کی رکنیت حاصل کرنے کا ایک معیار ہے جس کے لیے کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے ، جماعت اسلامی کے لاکھوں کارکنوں میں‌سے رکنیت کے حامل افراد کی تعداد انتہائی کم ہو گی . . . شاید چند ہزار ۔)

امیر کے انتخاب کیلئے صرف رکنیت رکھنے والا ہی ووٹ دے سکتا ہے یعنی تنظیم کی قیادت کرنے والے کو جو منتخب کرتے ہیں ان کا معیار پرکھا جاتا ہے لیکن ریاست کی قیادت کرنے والے کو منتخب کرنے والوں کا کوئی معیار نہ ہونے کے باوجود قابل قبول ہو جاتے ہیں اورکوئی معیار باقی نہیں (شاید یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کی سپورٹ نے نواز شریف کو ”امیر المومنین” بنا دیا تھا ) اس کیلئے کئی قسم کی دلیلیں دی جاتی ہیں ۔

اس کے علاوہ جماعت کے جس بڑے فیصلے کو دیکھیں تو دورنگی ہی نظر آتی ہے۔ کشمیر کا محاذ دیکھیں تو یہاں جماعت اسلامی پاکستان اور جماعت اسلامی ہند کا موقف ضرور دیکھنا چاہئیے (جماعت اسلامی پاکستان ”کشمیر بنے گا پاکستان” کا نعرہ لگاتی ہے اور جماعت اسلامی ہند کشمیر کو ہندوستان کا اندرونی مسئلہ سمجھتی ہے یعنی ایک ہی جماعت( عالمیگر اسلامی ہونے کی دعوے دار ) کا ایک ہی مسئلہ پر دو الگ ریاستوں میں الگ موقف ہے۔)

جماعت اسلامی نے کشمیر کیلئے سب سے پہلے نعرہ لگایا ”کشمیر بنے کا دارالاسلام” اور بعد ازاں محفی وجوہات کی بناء پر اس نعرے کو ”کشمیر بنےگا پاکستان” میں تبدیل کر دیا گیا۔ نوے کی دھائی میں جماعت اسلامی پاکستان کشمیر کے مسئلے کا واحد حل ”جہاد” کو گردانتی تھی . پھر لگ بھگ نوے ہزار شہادتوں کے بعد یک دم موقف میں تبدیلی آئی اور نائن الیون کے گیم چینجر واقعے اور مشرف فارمولے کے سامنے آنے کے بعد جماعت اسلامی کو کشمیر کے مسئلے کا ”واحد حل” اقوم متحدہ کی قراردادیں نظر آنے لگیں۔

کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ان کی قیادت کی جانب سے ایک طرف طالبان کو شہید کہا جاتا رہا اور پھر آپریشن ضرب عضب کی بھی حمایت کی گئی۔ سود کو حرام کہہ کر کئی ادارے جماعت اسلامی کے تعلق یا نام کو استعمال کر کے منافع و نقصان کی شرائط پر سرمایہ جمع کر کے غائب ہوگے یا نقصان ظاہر کے اربوں روپے ڈکارگئے ۔ مساوی تعلیم کا نعرہ لگایا جاتا ہے لیکن ایک مخصوص کلاس کے لیے ”منظم اسکول سسٹم” چلا کر اسی نعرے کی نفی کی جاتی ہے۔

سیاسی محاذ پر دیکھا جائے تو ایک وقت تھا کہ جماعت اسلامی میاں نواز شریف کو ”امیر المومنین” کہتی تھی۔پاکستان میں جماعت اسلامی دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں تحریک انصاف کی اتحاد ی بنی اور انتخابات کے بعد ازاں تحریک انصاف نے مسلم لیگ کی دھاندلی اور کرپشن کے خلاف دھرنا دیا تو جماعت اسلامی نے جمہوریت بچانے کیلئے حکومت کی ہاں میں ہاں ملائی اور تحریک انصاف کا ساتھ نہ دیا ۔

جماعت اسلامی کی رنگ برنگ سیاست یہیں پر بس نہیں کرتی بلکہ انتخابات کے ٹھیک دو سال بعد 2015 میں گلگت بلتستان کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حمایت کرتی ہے اور پھر 2016 میں آزاد کشمیر انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کی حمایت کرتی ہے جس کے نتیجے میں دو خصوصی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے .

اسی دوران جماعت اسلامی پاکستان نے پانامہ پیپرز پر مسلم لیگ کے خلاف مدعی بن کر عدالت عظمی سے رجوع کیا اور سراج الحق کو نواز شریف کی کرپشن نظر آنے لگی . اس پر مسلم لیگ کے مرکزی رہنما اور وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی (اور اپنے تیئں قائمقام وزیر اعظم آزاد کشمیر) آصف کرمانی نے جماعت اسلامی آزاد کشمیر سے دونوں نشستوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے موقف اپنایا کہ ان کا تنظیمی سیٹ اپ الگ ہے ۔ یہ چند مثالیں ہیں . اس کے علاوہ بھی درجنوں واقعات ایسے ہیں جن میں جماعت کے نعرے کچھ اور اس کا عمل کچھ دیکھا گیا ہے ۔

میرے کچھ دوست شاید اسے مخاصمت میں لکھی گئی تحریر سمجھیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم دورنگی اور خودساختہ برتری کے احساس سے جان نہیں‌چھڑاتے اور اسلامی انقلاب کے نعروں کو ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا نہیں چھوڑ دیتے تب تک انقلاب تو دور کسی بھی سطح پر کوئی معمولی سی تبدیلی تک نہیں لا سکتے۔

جماعت اسلامی کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور ان اسباب کی جانچ کرے جن کی وجہ سے آج تک ”منظم” ہونے کے باوجود انہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی ، جماعت اگر اپنے کارکنوں کو مخصوص خول تک محدود رکھنے کو ہی اپنی کامیابی گردانتی ہے تو پھر اس کا مستقبل کچھ اچھا نہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے