جناح اور اسلامی ریاست

کیا جناح کے تصورکے مطابق مسلم اکثریتی ریاست کی حیثیت سے پاکستان سیکولر ریاست ہوتا یا اسلامی؟ یہ سوال اٹھایا تونہیں جانا چاہیے تھا، کیوں کہ ہندوستان میں تمام مسلم تحریکیں بشمول تحریکِ پاکستان، مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کےلیے اسلام سے ہی تحریک پاتی تھیں

اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی بھی مسلم لیڈر کو اسلام سےانحراف کرنے اور مخالفانہ سمت میں جانے کی جُرات نہ ہوتی تھی۔ اگر جناح کا مقصد ایک سیکولر ریاست قائم کرنا ہی ہوتا تومسلمانوں کو ہندوستان سےجُدا کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ ہندورہنما بھی ہندوستان کو ایک "سیکولر”ریاست ہی بناناچاہتےتھے، اور اُن کی تائیدوحمائت کانگرس کے مسلم ارکان بھی کررہےتھے،جن میں ہندوستان کے مشہورومعروف علمابھی شامل تھے جو "تحریکِ پاکستان’ کے مخالف تھے۔

اسلام کے متعلق ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ "مجھے نہیں معلوم کہ آئین کی حتمی شکل کیاہوگی لیکن اتنا یقین سے کہہ سکتاہوں کہ یہ جمہوری طرز کا ہوگااور اس میں اسلام کے بنیادی اصول شامل ہوں کے۔اور اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک حاکمیت کاوہ تصور ہے جو اقتدارِاعلی کو الوہی حیثیت دیتا ہے۔

جناح نے کبھی "پاکستان آئیڈیالوجی” (نظریہِ پاکستان) کی اصطلاحیں استعمال نہیں کیں۔ البتہ انھوں نے "آئیڈیالوجی آف لیگ” کا جُملہ ضرور استعمال کیا اور صراحت میں کہا کہ پاکستان کا مطلب صرف آزادی ہی نہیں ہے، بلکہ یہ مسلم آئیڈیالوجی” کا محافظ بھی ہوگا، کیوں کہ ہمارامذہب، ہماری ثقافت، ہماری روایات اور اسلامی مقاصد حصولِ آزادی کے لیے ہماری قوتِ تحریک ہیں۔

جناح نے یہ بھی فرمایا کہ پاکستان میں مسلمان اسلامی قانون کے تحت حکمرانی کریں گے۔ اور یہ کہ پاکستان کا آئین شریعت سے متصادم نہ ہوگا۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیاتھا: یہ بےاطمینانی اور گھبراہٹ کا احساس کیوں ہےکہ پاکستان کا آئندہ دستورشرعی قوانین سے متصادم ہوگا؟۔۔۔۔ کچھ لوگ قصدا شرارت کرنا چاہتےہیں اور پروپیگنڈا کررہےہیں کہ ہم اسے(شریعت)سے الگ رکھ دیں گے۔

یکم جولائی 1948 کوسٹیٹ بنک آف پاکستان کی رسمِ افتتاح کے موقع پر انھوں نے مغرب کے معاشی نظریہ وعمل کورد کرنے کے بعد فرمایاتھا:”ہمیں اپنی تقدیربنانے کےلیے اپنے طریقےسے محننت کرنی ہوگی، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرناچاہیے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہو۔ اسلام میں ریاست کے بارے میں اُن کا تصور ایک جدید، ترقی پسند اورلبرل ریاست کا تھا۔ انھوں نے 18 اکتوبر 1940 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کو آنےوالی نسل کی اصل زمہ داری بتاتےہوئے فرمایا کہ انھیں ملک میں ایک ترقی پسند قوم کی تشکیل میں اپنا کرداراداکرنا ہے۔

جناح کی نظرمیں ترقی کے مقاصد یہ تھے: مساوات، اخوت، اور سب کے لیے یکساں مواقع۔

مذکورہ تحریر میں اگر ہم دیکھیں تو جناح کے کسی بھی لفظ سے ایسی تعبیر نکالنی بالکل ممکن نہیں جو اسلام کے منافی ہو۔ آپ نے کبھی "اسلامی ریاست” کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ اس کے باوجود ایک صاحبِ فہم ادراک کرسکتا ہے کہ آپ اسلام اور ریاست کے حوالے سے مکمل مطمئن اور واضح تصوررکھتےتھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے چاردن قبل 11 اگست کو آپ کی طرف سے کی گئی تقریر نے لوگوں کو دو مختلف آراء پیداکرنے پر مجبور کر دیا۔جس میں آپ نے فرمایا کہ "وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو،ہندو نہ رہےگیں اور مسلمان،مسلمان نہ رہیں گے،یعنی مذہبی معنوں میں نہیں، کیوں کہ مذہب تو ہر شخص کا زاتی عقیدہ ہے،بلکہ سیادی معنوں میں ریاست کےبرابر شہریوں کی حیثیت سے”۔

قائد اعظم محمد علی جناح اپنی گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کی مشہور تقریر میں فرماتےہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو،ہندونہ رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہ رہیں گے۔ یعنی مذہبی معنوں میں نہیں، کیوں کہ مذہب توہرشخص کازاتی عقیدہ ہے،بلکہ سیاسی معنوں میں ریاست کےبرابرشہریوں کی حیثیت سے۔

سیکولردانشوروں نے اس خطاب کے اس ٹکڑے کویہ ثابت کرنےکےلیے ہمیشہ بطور مثال استعمال کیا ہےکہ جناح پاکستان کوایک سیکولر ریاست بنانےکےحق میں تھے۔ روزنتھال کا نقطہِ نظر یہ ہے کہ جناح کایہ بیان ُن کی "آزادخیالی”یا "غیرمحتاط لفاظی” کی مثال ہے، اور یہ کہ انھوں نے اپنی سابقہ پوزیشن بدل لی تھی۔

شریف المجاہد کی دلیل یہ ہے کہ اس خطبے نے آنےوالے برسوں میں کافی شکوک و شبہات پیدا کئے،یہاں تک کہ قرارداد، مقاصد کی مذمت کےلیےبھی اس خُطبے کو استعمال کیاگیا۔

درحقیقت یہ بات زیادہ قریب ترین ہے کہ جناح نے اپنے خطبے میں ،جدیدیت پسند کی حیثیت سے اسلامی ریاست کاوہ روایتی یا رواجی تصور مسترد کردیا جو اُن کی مطلق العنان خُلفاء و سلاطین کے عہدِ حکومت میں پروان چڑھا تھا، جو مسلمانوں اور غیر مسلموں میں فرق و امتیاز برتتےتھے اور غیر مسلموں کو وہ سیاسی مراعات نہ دیتےتھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔

شریف المجاہد یہ بھی کہتےہیں کہ خُطبے کا مطلب یہ نہیں کہ اسلامی اُصول پاکستان کے آیندہ دستور کی بنیادنہیں بنیں گے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جناح ہر شخص کی مذہبی آزادی کو اسلامی ہیتِ اجتماعی کا جزولاینفک سمجھتےتھے۔ اور یہیں تک نہیں بلکہ جناح کے اا اگست کے بعد کے بیانات سیکولر سوچ کے دانشوواران کی تشریح و تعبیر کو غلط کردیتےہیں۔

یاد رہے کہ اِس خطبے کے تین دن بعد جب ماونٹ بیٹن کراچی آئے اورپاکستان کی دستورساز اسمبلی سے خطاب کرتےہوئے مغل شہنشاہ اکبر کی ساسی اور مذہبی رواداری کی تعریف کی تو جناح نے فورا اپنی جوابی تقریر میں فرمایا: جس رواداری اور وسیع النظری کا اظہار شہنشاہ اکبر نے تمام غیر مسلموں کی خاطر کیا۔۔۔اُس کاتعلق تیرہ سوسال پہلے سے ہےجب ہمارے پیغمبرؐ نے نہ صرف اپنے الفاظ سے، بلکہ اپنے عمل سے یہودیوں اور عیسائیوں پرغلبہ پانے کے بعد ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا تھا۔

شریف المجاہد پوری بحث سےیہ نتیجہ نکالتےہیں کہ جناح اپنی بقیہ مختصر زندگی میں باربار اسلامی رواداری اور اہمیت پر زوردیتےرہے۔

یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ جب جناح پاکستان میں رہنے والےتمام شہریوں کو مذہبی آزادی کا یقین دلا رہے تھے، یعنی ہندووں اور مسلمانوں کو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی حاصل ہوگی اور ریاست کے شہری کی حیثیت سے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی فرق و امتیاز روا نہیں رکھاجائے گا،تو وہ اسلام کےکس اصول کی خلاف ورزی کررہےتھے؟

جب وہ یہ کہتے تھے کہ اسلام میں ریاست کا مطلب ایک تھیوکریسی(ملائیت)نہیں ہے توساتھ انھوں نے کبھی یہ بھی نہیں کہا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی۔اُن کی پوزیشن وہی تھی جو ایک آزاد خیال اورجدیدیت پسند مسلمان کی ہوسکتی ہے۔ وہ قومی ریاست، حقِ خودارادیت،جمہوریت، آئین پسندی،قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق،معاشرتی انصاف اورتمام شہریوں میں مساوات وہ یک جہتی،،،،،مختصر یہ کہ قائد ایک لبرل، جمہوری فلاحی ریاست قائم کرنے کے آرزومند تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے