سی پیک کی رام کہانی

میرے دادا جو کہ ایک علم نواز انسان تھے اُن کے پاس بہت سے علماء، شعراء اور فلاسفر مہمان ٹھہرا کرتے تھے. دادا اُن کی بہت خاطر مدارت اور مہمان نوازی کیا کرتے تھے اور اُن کے ہاں بڑی علمی نشستیں ہوتی تھیں جس میں علمی بحثیں چلا کرتی تھیں. مجھے بھی اُن کی نشستوں میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا. ایک بار اُن کے ہاں ایک صاحب علم مہمان ہوئے جنہوں نے باتوں باتوں میں دادا سے انسان کی ابتداء بارے سوال کیا کہ یہ تخلیق ہے یا ارتقائی معاملہ ہے. دادا نے بڑے سادہ انداز میں جواب دیا کہ آدم کی ابتداء عالموں سے پوچھنے والا سوال ہے جبکہ مَیں تو انسان کے انجام بارے سوچ رہا ہوں.

آج کل سی پیک منصوبہ و معاہدہ بڑے بڑے عالموں کی لن ترانیوں و موشگافیوں کی زینت بن چکا ہے. کئی ایک تو منصوبہ ہذا کے فوائد گنوانے میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ اِسے رحمتِ خداوندی سے تعبیر کر رہے ہیں. جبکہ بعض ایسے بھی ہیں کہ اُن کو اِس منصوبے کے تحت چین ایسٹ انڈیا کمپنی جیسا کردار ادا کرتا ہوا نظر آ رہا ہے. معیشت دان، سیاسی تجزیہ نگار اور زیرک افراد نے اپنے اپنے دلائل کے حق میں ماضی و حال کی کئی مثالیں بھی ڈھونڈ چکے ہیں. مستقبل کے سہانے اور ڈراؤنے، دونوں طرح کے خواب بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں.

اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی ملک، علاقے یا خطے کی ہمہ قسمی ترقی کا انحصار وہاں کی معاشی ترقی پہ ہوتا ہے. معاشی ترقی کے لیے عمارتوں، شاہراہوں اور توانائی کے جدید ترین زرائع جیسے انفراسٹرکچر کا کردار ہمیشہ سے کلیدی ہوتا ہے. یقیناً پاکستانی معیشت کی ترقی کیلئے شاہراہوں اور دوسرے کئی منصوبوں کی اشد ضرورت ہے. سی پیک کے باقاعدہ افتتاح کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ "سی پیک ملک کی تقدیر بدل دیگا”.

دنیا ایسے کئی معاہدوں اور منصوبوں سے بھر پور ہے. تاریخی مادیت کیا ہے؟ تاریخی مادیت یہی تو ہے کہ پہلے والے حالات و واقعات کی جڑت سے کامیابی و ناکامی اخذ کی جائے. لیجیے دنیا بھر میں ہونے والے معاہدوں اور منصوبوں کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں. کہاں سے شروع کریں؟ شینجن معاہدے سے شروع کرتے ہیں. چھبیس یورپی ممالک نے ایک دوسرے کی عوام کیلئے باڈر کھول دئیے. کسی پاسپورٹ اور ویزہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے. جب شینجن معاہدہ ہو رہا تھا تب بھی وہاں کی حکمران اشرافیہ ایسے ہی بڑھ چڑھ کر خواب دکھا رہی تھی. اصل میں یہ معاہدہ اُن ممالک کی بورژوازی کے مفادات اور منفعت کے بڑھاوا کیلئے مرتب کیا گیا تھا. بظاہر تو عوام کو خواب دکھائے گئے، ثقافت و امان کی باتیں کی گئیں. مگر عوام تو ایک شہر کے ایک کونے سے ہی نکل نہ پائے. ڈنمارک جہاں کے ماڈل کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے وہاں ماسٹر ڈگری ہولڈر ہوٹلوں میں برتن دھوتے ملے. کیونکہ شینجن معاہدہ عوام کی بجائے امراء کے مفادات کی بنیاد پہ ترتیب دیا گیا، آج اپنے منطقی انجام تک پہنچنے والا ہے. "ترقی یافتہ” سویڈن اور "ترقی یافتہ” ڈنمارک نے ایک دوسرے کے بارڈر پہ سختیاں نافذ کر دی ہیں.

یورپی یونین کا کیا انجام ہونے جا رہا ہے؟ کیا جرمنی یورپی یونین کے ممبر چھوٹے ممالک کا استحصال نہیں کر رہے ؟ کیا برطانیہ کے بعد فرانس، سپین، یونان وغیرہ میں یورپی یونین کے خلاف سرکشی ابھر نہیں رہی؟ ایسا کیوں؟ جب معاہدے اور منصوبے فقط امراء اور سرمایہ داروں کی نہ ختم ہونے والی ہوس کی تکمیل کی بنیادوں پہ ترتیب دئیے جائیں گے اور عوام کو محض خواب دکھائے جائیں گے تو انجام ایسا ہی ہو گا.

سی پیک کس طبقے کے لیے منافع بخش ہے؟ اولین سوال تو یہ ہے کہ محنت کش مزدور طبقے کی مجبور و محکوم حیات میں کوئی بہتری کی گنجائش ممکن ہو گی؟ نہیں بالکل بھی نہیں. لمبے عرصے سے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ اِس حوالے سے خوب پروپیگنڈہ مہم جاری ہے. عوام کے اذہان میں چین کے حوالے سے موجود تاثر کو مزید گہرا کیا جا رہا ہے. اِس معصومانہ سوال کا مناسب جواب دینے کا تردد کوئی بھی نہیں کر رہا کہ چین کے سرمایہ داروں، پاکستانی حکمرانوں اور عوام میں سے کس کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا؟

کہانی تو یہی گھڑی جا رہی ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کی شرح نمو میں اضافہ سے پوری قوم کو فائدہ ہو گا، مگر اِس حقیقت کو جھٹلایا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی بحران کے دوران زیادہ سے زیادہ منافع کی ہوس بھی بڑھ جاتی ہے. کرپشن کی جڑیں بھی مضبوط ہوتی چلی جاتی ہیں. ہماری پاکستانی معیشت تو ویسے ہی کمیشن ایجنٹوں اور اُن کے کالے دھن پہ منحصر ہے. ہمارے مقامی کمیشن ایجنٹوں کی حصہ داری کا تناسب بھی اتنا بلند ہے کہ عوام کیلئے کچھ بھی نہیں بچتا ہے.

بتایا جا رہا ہے کہ ملازمتوں اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے. جبکہ یہ بھی ایک سفید جھوٹ ہے. اعلی اور درمیانے درجے کی تکنیکی و غیرتکنیکی ملازمتیں تو ویسے ہی چینی افراد کیلئے مختص ہیں. ویسے بھی چین میں بےروزگاری کا بحرِ بیکراں موجود ہے. پھر تکنیکی ترقی اور روبوٹس کی ترقی نے انسان کے لیے روزگار کے مواقع کم کر دئیے ہیں. اوپر سے سی پیک معاہدے کے تحت چینی اداروں اور ملکی بینکوں سے جس شرح سود پہ قرضے لیے جارہے ہیں اُن کی دب تلے تو ویسے ہی عوام موت کے تختے پہ جا پہنچے گی.

منصوبے میں ہر معاملہ ٹھیکیداری بنیادوں پر رکھا جا رہا ہے. ٹھیکیداری کے بعد ذیلی اور پھر مزید کئی ذیلی ٹھیکیداری سلسلے متعارف کرائے جائیں گے. مزدور بھی انہی ٹھیکیداریوں کے چنگل میں پھنسے رہے گے، ٹھیکیدار نظام میں مزدوروں کی اجرت کا اندازہ لگانا چنداں مشکل کام نہیں. مزید یہ کہ اِس نظام میں ہر سطح پہ رشوت، کمیشن اور چوری کی شرح کا اندازہ لگانے کے بعد عوام کیلئے کوڑیوں کا بچنا بھی مشکل نظر آتا ہے.

یہ سوشلسٹ چین اور اُس کی منصوبہ بند معیشت کے ساتھ ہونے والا معاہدہ نہیں ہے. بلکہ آج کا چین ایک ہوس زدہ سرمایہ دار چین ہے. یہ معاہدہ و منصوبہ انسان دوستی پہ مبنی بالکل بھی نہیں. یہ سرمایہ داروں کی طرف سے جاری کیا گیا منصوبہ ہے جو مستقبل میں صرف سرمایہ داروں کی منفعت میں اضافے کا سبب بنے گا. سرمایہ دار مزید سرمایہ داروں کو جنم دیں گے، جبکہ محنت کش مزدور نئے محنت کش مزدوروں کی نسل کی پرورش کریں گے.

سرمایہ کاری چاہے کوئی امریکی کرے، چاہے کوئی یورپی یا پھر کوئی چینی، ادائیگی تو ہمارے ٹیکسوں کے ذریعے یو گی. ایسے ایک نہیں کئی منصوبے شروع کرنے سے بھی خطے کی محنت کش عوام کی تقدیر نہیں بدلنے والی بشرط کہ نظامِ زر میں سے نجی ملکیت کے عنصر کا خاتمہ کیا جائے. جس میں کسی بھی منصوبے کے فوائد ایک اقلیت کی جیب میں جانے کی بجائے پورے سماج کی ملکیت ہوں. اگر سرمایہ دارانہ نظام چلے گا سی پیک جیسے دس منصوبے بھی عوام کی تقدیر کو نہیں بدل سکتے. عوام کی تقدیر کے بدلنے کا واحد راستہ منصوبہ بند سوشلسٹ نظامِ زر کے تحت ممکن ہے.

میرے دادا کا استدلال یقینی طور پہ محکم تھا کہ مجھے انجام کی فکر ہے. آخر اِس منصوبے کا انجام کیا ہوگا؟ کیا سی پیک بھی شینجن معاہدے کی طرح امراء کی تجوریاں بھرنے کے بعد اپنے فطری انجام کو پہنچے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے