جمہوریت کا کالا حسن

جمعرات 26 جنوری 2017کو پانامہ لیکس کیس نے ایک اور کارنامہ انجام دیا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی ایک دوسرئے کو مغلظات بکتے ہوئے ایک دوسرئے کو مار پیٹ رہے تھے۔ مہذب معاشرے کے منتخب مرد نمائندےاسمبلی میں گتھم گتھا تھے اور ایک دوسرے کی مکے اور تھپڑوں سے تواضع کرنے کےساتھ ساتھ ماں بہن ایک کررہے تھے، جس میں پی ایم ایل این کے شاہد خاقان عباسی اور پی ٹی آئی کے شہریار آفریدی پیش پیش تھے۔سوچا یہ تو بہت غلط ہورہا لیکن پھر خیال آیاکہ اگر اس بہودگی کے بارئے میں کچھ کہا تو جواب ملے گا ’’یہ تو جمہوریت کا حسن ہے‘‘، ۔جمہوریت کے اس کالے حسن کو عمران خان، نواز شریف اور ان کے خوشامدیوں نے سیاسی اختلاف کو عمران خان اور نواز شریف کا ذاتی اختلاف بنادیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید دونوں ایک دوسرے کے خواب میں بھی لڑرہے ہوتے ہونگے۔ اس پانامہ لیکس نے پورئے ملک کو متاثر کیا ہوا ہے، عمران خان کے پاس صرف ایک کام ہےکہ صبح اٹھ کر پوچھونواز شریف کی حکومت ختم ہوئی یا نہیں دوسری طرف نواز شریف اور انکے وزرا اپنی وزارت کی طرف توجہ دئے ہی نہیں رہے۔وزیر اعظم نواز شریف اصلی یا جعلی منصوبوں کےفیتے کاٹتے ہیں یا پھر غیر ملکی دوروں پر چلے جاتے ، اور یہاں انکے درباری میڈیا کو یہ بتارہے ہوتے ہیں کہ بس کل سپریم کورٹ پانامہ لیکس کے مقدمے کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں کردیگا۔

سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں منعقد ہونے والی عالمی اقتصادی کانفرنس کےحوالے سے پاکستان کےانگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ عالمی اقتصادی فورم نے کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر وزیر اعظم نواز شریف کو عالمی اقتصادی فورم پر تقریر کرنےسے روک دیا ، اس خبر کوبھی جھوٹا ثابت کرنے کے لیے یہاں قطر کے شہزادئے کا تو نہیں البتہ عالمی اقتصادی فورم کے ہیڈ آف میڈیا آپریشن کے سربراہ کا ایک خط روزنامہ ڈیلی ٹائم کو بھجوا دیا (انٹر نیٹ پر یہ خط موجود ہے)، اس خط میں وہ سب موجود ہے جس کی کسی کو بھی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس خط میں یہ قطعی موجود نہیں ہے کہ عالمی اقتصادی فورم سے وزیر اعظم نواز شریف نے کوئی تقریر کی تھی۔جب ملک کا سربراہ اپنے ملک کی سب بڑی عدالت میں کرپشن کے الزامات کا سامنا کررہا ہو اور پوری دنیا یہ دیکھ رہی ہو تو بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ بھی جعلی لگتی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے ’’پاکستان میں کرپشن کم ہوگئی ہے اور جنوبی ایشیا میں چین اور پاکستان کرپشن پر قابو پانے والے پہلے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان 9درجے کی بہتری کے ساتھ 116ویں نمبر پر آ گیا‘‘۔

جب اس قسم کی رپورٹ بنائی جاتی ہیں تو ایک سروئے کیا جاتا ہے اور اس کے زریعے مختلف سوالات کے جواب حاصل کیے جاتے ہیں۔ پھر ان جوابات کی بنیاد پر رپورٹ بنائی جاتی ہے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ گھر بیٹھ کر ہی سوالات کے جوابات بنالیے جاتے ہیں اور رپورٹ کی ان معلومات کو ’’کوکنگ‘‘ کہتے ہیں، جو جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں، پاکستان کے موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈاراس کام میں ماہر ہیں اور ماضی میں وہ آئی ایم ایف کوجعلی رپورٹیں دئے چکے ہیں، یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی بینچ نواز شریف کے سمدھی وزیر خزانہ پران کے اپنے اعترافی بیان سے منحرف ہونے کا جائزہ لے رہی ہے، جس میں انہوں نے مشرف دور میں حدیبیہ پیپرز ملز کے تعلق سے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’’ اُنھوں نے ایک کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی تھی‘‘۔ مشرف دور میں ہی پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کو حدیبیہ پیپر ملز کے قرضہ کیس میں ماخوذ قراردیا تھا۔نواز شریف اور انکے بھائی شہباز شریف پر نیپ نے یہ الزام لگایا تھا کہ دونوں بھائیوں نے حدیبیہ پیپر ملز لگانے کے لیے تین ارب اڑتالیس کروڑ ساٹھ لاکھ روپے کی رقم قرضے کے طور پر لی تھی لیکن انھوں نے یہ رقم واپس نہیں کی اور وہ نادہندہ ہوگئے تھے۔

اگرہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پرغور کریں تو پاکستان کے زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔نواز شریف کے اس ساڑھے تین سالہ دور میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں دکھائی دیتی۔ نیب کے پاس کرپشن کے سینکڑوں کیس روزانہ کی بنیاد پر سامنے آرہے ہیں، سرکاری اداروں میں رشوت کو کمیشن کے نام پر وصول کیا جا تا ہے اور اسے اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی سرکاری ادارئے کا نام لیں اور پھر عام لوگوں سے ان اداروں میں ہونے والی کرپشن کے ایسے ایسے واقعات سنیں گے جو آپکے تصور سے بھی باہر ہونگے۔ کرپشن محکمہ مال میں ہوتی ہے، سرکاری سڑکوں اور عمارتوں کے ٹھیکوں میں ہوتی ہے، سرکاری اسپتالوں میں کرپشن اس پیمانے پرہوتی ہے زندگی بچانے والی ایمرجنسی ادویات بھی جعلی ملتی ہیں۔ جب کرپشن کینسر کی طرح سے پورئے معاشرئے میں پھیل گیا ہو تو آپ پرائیویٹ سیکٹرسے یہ توقعہ ہرگز نہ کریں اس میں کرپشن نہیں ہوگی، پرائیوٹ سیکٹر میں کرپشن اس تشویشناک حد تک ہے کہ غذاؤں، دواؤں اور روزمرہ کی بنیادی سہولتوں میں جاں لیوا اجزا کی ملاوٹ عام ہے، اصلی دودھ کاحصول ناممکن ہے،دودھ میں ایسے ایسے خوفناک کیمیکل ملائے جاتے ہیں جو نہ صرف مضر صحت بلکہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ منرل واٹر کے نام پر لوگوں کو زہریلا پانی پلایا جا رہا ہے۔ اب عدالت کے حکم پر بعض برانڈز کے گھی اور تیل کا بھی لیبارٹری تجزیہ کیا جا رہا ہے، کچھ حاصل نہیں ہوگا ، جن لیباٹریز میں ٹیسٹ ہوگا ، وہاںٹیسٹ کرنے والے بھی چند ٹکوں میں بک جایں گے اور سب اچھا کی رپورٹ دئے دی جائے گی۔اب تو حالت یہ ہے کہ پانی پینے، کھانا کھانے اور دوا کھانے سے بھی خوف آتا ہے۔

ملک کی معاشی صورتحال یہ ہے کہ اگر آپ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے سنیں گے تو آپکو پورئے ملک میں صرف ڈالر ہی ڈالر ملینگے، وزیر اعظم تو اب دعوی بھی کرنے لگے ہیں کہ ان کے اس تیسرئے دور میں بہت خوشحالی آئی ہے(کراچی اس جھوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو نواز شریف کے دور میں کھنڈارت میں تبدیل ہورہا ہے)، جبکہ وفاقی وزیر زاہد حامد نے سینٹ میں ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے متعلق بتایا کہ 2008سے 2013 تک ملکی قرضہ میں 24 فیصد اضافہ ہوا جبکہ 2013 سے 2016 تک 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔سینیٹر شبلی فراز کے بقول ’’جب ہم قرضے لیتے ہیں تو ہمارے منہ پر رونق آجاتی ہے‘‘، پہلے ہر شخص 37 ہزار روپے کا مقروض تھاجبکہ اب ایک لاکھ 20 ہزار روپے کا مقروض ہوگیا ہے اس وقت قرضے 21 کھرب تک پہنچ گئے ہیں۔ اگلی سہ ماہی میں حکومت نے 1.6 ٹریلین روپے قرضہ لینے کا پروگرام بنایا ہے جو قرضہ لئے جاتے ہیں ان کا صرف دو وفاقی وزرا اسحاق ڈار اور احسن اقبال کو پتہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم فیتہ پر فیتہ کاٹ رہے ہیں پیسے ہیں ہی نہیں، آمدنی اور اخراجات میں بڑھتے ہوئے فرق کو کون کم کرے گا۔ عالمی بینک کے نمائندے نے پاکستان میں غربت کی حد درجہ بڑھتی ہوئی شرح پرتشویش کا اظہار کیا ہے اور بدانتظامی اور کرپشن کو اس مسلئے کی جڑ قرار دیا ہے۔

اب وزیراعظم کے وکیل نے آئین کے آرٹیکل 66اورآرٹیکل 248کے تحت عدالت سے وزیراعظم نواز شریف کو حاصل استثنا مانگ لیا ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب نواز شریف آئین کےدو آرٹیکل کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی وہ بینچ جو پانامہ لیکس کے مقدمے کو سن رہی ہے اس کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد اس مقدمے کا فیصلہ کرئے، تاکہ جو ہیجان عمران خان اور نواز شریف نے پھیلایا ہوا ہے وہ ختم ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے