اسلحہ دینے سے انکار

پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں حکومت کی طرف سے لوگوں کو غیر مسلح کرنے کےلیے دی گئی مہلت کے اختتام پر توری قبائل نے اعلان کیا ہے کہ غیر قانونی اسلحہ اس وقت تک انتظامیہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا جب تک ان کی تحفظ کی مکمل طور پر تحریری ضمانت فراہم نہیں کی جاتی۔

وعدہ خلافی ہوئی، طلبا باچاخان یونیورسٹی

کرم ایجنسی میں توری قبائل کی نمائندہ تنظیم انجمن حسنیہ کے سیکرٹری حاجی فقیر حسین نےکہا کہ کرم ایجنسی بالخصوص بالائی کرم کے علاقوں میں آباد قبائل نے ہتھیاروں کو اپنی حفاظت کے لیے رکھا ہوا ہے اور انھیں کبھی حکومت یا ریاستی اداروں کے خلاف استعمال نہیں کیا۔
_93915785_fdbe5249-db1f-4a20-b44d-7c566ce3d680
انھوں نے کہا کہ چند دن پہلے کرم ایجنسی کے صدر مقام پاڑہ چنار میں بازار کے اندر ایک بڑا دھماکہ ہوا جس میں درجنوں بے گناہ افراد مارے گئے اور جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں حالات ایسے نہیں کہ شرپسند عناصر کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

ان کے مطابق ‘ہم نے ہتھیاروں کو نمائش یا مشغلے کےلیے نہیں رکھا ہوا ہے بلکہ ہم تو اپنے بچوں، مٹی، نام اور عزت کو بچانےخاطر یہ سب کچھ کررہے ہیں ۔‘

حاجی فقیر حسین نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں قبائل کے مشران پر مشتمل ایک 40 رکنی جرگہ بھی ہوا تھا جس نے مقامی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کے نمائندوں سے بات چیت کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر حکومت ان کو تحفظ کی ضمانت دیتی ہے تو وہ ان کی بات ماننے کےلیے ہر وقت تیار ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ جرگے نے چند دن پہلے پاڑہ چنار کے دورے پر آئے ہوئے برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور کور کمانڈر پشاور کو بھی اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔

ادھر حکومت نے کوہاٹ ڈویژن اور ملحقہ قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں بھی غیر قانونی ہتھیاروں کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے تاہم ابھی تک صرف کوہاٹ کے بعض علاقوں میں لوگوں نے رضاکارانہ طورپر غیر لائسنس شدہ اسلحہ مقامی انتظامیہ کے حوالے کیا ہے۔

کوہاٹ پولیس کے مطابق یہ مہم قومی ایکشن پلان کے تحت شروع کی گئی ہے تاکہ علاقے کو غیر قانونی ہتھیاروں سے پاک کیا جائے۔ یکم جنوری سے شروع کی گئی اس مہم میں عمومی طورپر ابھی تک انتظامیہ کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ کوہاٹ ڈویژن اور اس کے ملحقہ قبائلی علاقے ایک عرصے سے غیر قانونی اسلحے کے سب سے بڑے مرکز رہے ہیں۔ شاید اسکی وجہ ان علاقوں میں مسلسل ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات ہیں

جسکی وجہ سے فریقین نے افغانستان سے آنے والا اور یہاں مقامی طورپر بننے والے غیر قانونی ہتھیار بڑی مقدار میں خریدے۔ نوے اور دو ہزار کے ابتدائی عشروں میں کوہاٹ، ہنگو، اورکزئی اور کرم ایجنسی کے علاقوں میں فرقہ فسادات عروج پر تھے اور اس دوران ان علاقوں میں بھاری مقدار میں غیر قانونی اسلحہ آیا۔ لیکن ان علاقوں میں حکومتی عمل داری ہونے کے باوجود فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف آزادانہ طورپر ان ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جس میں ہزاروں جانیں بھی ضائع ہوئیں۔

اس کے علاوہ نیم خودمختار قبائلی علاقہ درہ آدم خیل بھی کوہاٹ ڈویژن کی حدود میں آتا ہے جو مقامی طورپر تیار ہونے والے اسلحہ کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے