کشمیر: وعدےجو وفا نہ ہوئے!

اس میں کوئی شک نہیں کہ قاضی حسین احمد مرحوم کی کشمیریوں کے ساتھ وابستگی والہانہ تھی۔”اللہ تعالی انھیں اپنی رحمت کے سایے میں رکھے”۔ پاکستان میں پرویز مشرف کی باوردی حکومت کےایامِ نظربندی کےدوران قاضی صاحب مختلف موضوعات پر مضامین لکھتے رہے ان کے وہ مضامین روزنامہ جنگ میں تواتر سے شائع ہوتے رہے اور بعدازاں ان کو ایک کتابی شکل میں محفوظ بھی کرلیا گیا تھا

وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "بھارت کے ایک ریٹائرڈ جنرل اسلام آباد کے انسٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹیڈیز کی دعوت پر پاکستان آئے تو وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ منصورہ بھی تشریف آئے۔ میری ان سے یہ ملاقات تقریبا تین گھنٹے جاری رہی۔جس میں بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات کے موضوع پر گفتگو ہوتی رہی۔ قاضی صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ریٹائر جنرل نے اپنی اس ملاقات میں مجھ سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑائی کا میدان بننے کی بجائے دونوں کے درمیان دوستی کا پل بنے۔

اِس ملاقات میں انڈین ریٹائر جنرل نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وادی کے مسلمان کسی بھی صورت بھارت کا حصہ بن کر نہیں رہنا چاہتے۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ جنرل چبر نے بھارت واپس جا کر مجھے ایک خط لکھا جس کے ساتھ بھارت،پاکستان اور کشمیر کا ایک خاکہ بھی تھا۔ اس خاکے کے گرد سے ایک دائرہ کھینچ کر لکھا تھا کہ "وادی کے چالیس لاکھ باشندوں نے براعظم کے ایک ارب سے زیادہ باشندوں کو یرغمال بنا رکھا ہے”. گویا ان کا یہ اشارہ تھا کہ وادی پر بات ہو سکتی ہے۔

قاضی صاحب کی یہ تحریر میرے لیے دلچیسی کا باعث اس وقت بنی جب میری ملاقات وادی سے آئی ہوئی ایک کشمیری فیملی سےہوئی ان کاکہنا تھاکہ تقسیمِ کشمیر کی یہ منحوس لکیراورہماری جدائی اتنی طویل نہ ہوتی ، اگر ہمارے پاس دونوں اطراف کی سیاسی قیادت مخلص ہوتی کشمیر پران کی کوئی واضح پالیسی ہونے اور عدم برداشت کے رویہ نے ہمیں ایک دوسرے سے دور رکھا ہواہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیری ایک دوسرے کے ساتھ آج بغل گیر ہوتے اگر یہ حریت نہ ہوتی،یہ موسمی مجاہد نہ ہوتے یہ رنگ بدلتے سیاستدان نہ ہوتے۔ ہم انڈیا اور پاکستان کو الزام دیں تو کس بات کا دیں کہ ہم نے خود ہی توان کی حکمرانی کو تسلیم کر رکھا ہے۔ان کی یہ بات کس حد تک درست ہے یہ آپ قارئین فیصلہ کر سکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ خونی لکیر کے اُس پار بسنے والے ہم سے کہیں زیادہ دکھ،درد اور اذیت بھری زندگی گزار رہے ہیں۔سب سے بڑھ کر لاشیں اٹھاتے ہیں۔ ان کے قبرستان شہداء کی بستیوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔اس سب کے باوجود وہاں بسنے والی اکثریت اپنے اقتداراعلٰی کی قائل ہے۔ جس کےلیے وہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ بھارت نےاگرچہ اس یقین کا کوئی موقع گنوانے نہیں دیا کہ کشمیر مستقل طور پر اس کا حصہ ہے۔وہ کشمیر اسمبلی میں انتخابات کروا کر اور کشمیر سے بھارت کی پارلیمنٹ کے لیے ممبران کا چناو کر کے کشمیریوں سے استصواب رائے کی ضرورت پوری کرچکا اور ہر بار اس کا یہ دعویٰ بھی سامنے آتا ہے۔ یہ الگ بات کے اقوام متحدہ نے بھارت کے اس دعویٰ کو قبول نہیں کیا لیکن بھارت دنیا بھر میں یہ پرچار کرنے میں مصروف ہے کہ کشمیر کا مسلہ اس کا اندرونی مسلہ ہے۔اس کا یہ موقف ہے کہ بھارت سے سرحد پار سے دہشت گردی ہو رہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی کشمیر پالیسی ،”ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور”۔ گزشتہ سال اسپین میں پاکستانی سفارت خانے سے مجھے دعوت نامہ موصول ہواکہ” یوم یکجہتی کشمیر” کے حوالے سے پاکستان ایمبیسی میڈرڈ میں ایک پروگرام رکھاگیا ہے۔ آپ کی شرکت لازمی ہے.میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ اس پروگرام میں شرکت کی،پروگرام کے بعد کشمیر کی موجودہ تحریک کے حوالے سے غیر رسمی گفتگو کے دوران میں نے وہاں متعین سفیر جناب رفعت مہدی سے پوچھا کہ حضور آخر کشمیر پر پاکستان کی پالیسی ہے کیا، پاکستانی حکومتوں نے توہمیشہ کشمیریوں کے خون کی قیمت آلو پیاز کی تجارت سے لگائی ہے۔ جو کشمیر پاکستان کے زیرانتظام ہے وہاں پسماندگی اور لوٹ مار کا ایک جہاں آباد ہے۔کہنے لگے یہ سوال آپ کشمیری اپنی حکومتوں سے کیوں نہیں پوچھتے.ان کے جواب نے میرے سوال کا مفہوم کی بدل دیا۔

آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں آپ دیکھیں گے کہ پاکستان کے قائم سفارتخانے کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسی اور اپنا موقف دینے میں کلی طور پر ناکام ہوں گے۔ پاکستانی سرکار کا کشمیر کے حوالے سے موقف کبھی بھی جاندار نہیں رہا۔جنہوں نے کشمیر کی ترجمانی کرنی تھی وہ مل بانٹ کر کھانے کے چکر میں "تیرا میرا” کی گردان یاد کررہے ہیں۔ قوم پرستوں نےاپنی ایک الگ سے دیگ چڑھا رکھی ہے۔ جب پاکستان کی ایجنسیوں کو ضرورت محسوس ہوئی تو وہ ان سب سے مدد لیتی ہے۔ہم نے کئی بار یہ دیکھا کہ موسمی جہاد اور موسمی قوم پرست اس تحریک کے ماما،چچا بن کر سامنے آتےاور پھر کئی ہوا میں تحلیل ہوتے رہے۔

گزشتہ دنوں جماعت اسلامی پاکستان کے ایک پروگرام میں حامد میر نے ساری کشمیری قیادت کے سامنے ایک سوال رکھ کر غیرت دلانے کی کوشش کی کہ” کیا وجہ ہے کہ جب مقبوصہ کشمیر سے کوئی فیملی یا کوئی فرد یہاں ویزہ لے کر آتاہے تو اسے کوہالہ روک دیا جاتا ہے۔اسے کشمیر میں داخلے کی پابندی ہے ۔کشمیریوں کو باہم ملنے سےروکا جا رہا ہے ۔ اس سے جو قیاس آرائیاں،جو سوالات اور جو خدشات جنم لے رہے ہیں ان کا ذکرمیں اپنے کسی دوسرے کالم میں کروں گا۔آج میں قاضی حسین احمد مرحوم اور ان کے رفقاء کے پیش نظر پانچ فروری کےدن کشمیروں سے اظہاریکجہتی کی بابت بات کروں گا۔

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر جماعت اسلامی کی پالیسی یکسر بدل چکی لہذااب یہ دن محض ایک سیاسی دن اور نعرہ بن کر رہ گیا۔جس کا جماعت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔اس پر بھی جماعت کی قیادت کو ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب اس دن انسانی ہاتھوں کی زنجیر منانے والوں سے ہم بیرون ممالک موجود کشمیریوں کی گزارش ہے کہ وہ اپنی جھوٹی سیاسی شان قائم رکھنے کے لیےاور اسلام آباد والوں کاآشیر باد حاصل کرنے کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے کی بجائے اس منقسم ریاست کی جبری غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کےلیے باہم مل کر کسی فیصلہ کن تحریک کا آغاز کریں۔ ہم کشمیر کی تحریک سے وفا نبھانے والوں سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ قومیت اور مذہب کے نام پر خود کو خانوں میں تقسیم مت کریں ان کے اس اقدام سے دوسرے فائدہ اٹھارہے ہیں۔

اسلام دین فطرت ہے جہاں وہ قومیت پر تکبر کرنے سے منع کرتا ہے وہاں وہ قومیت کا احترام بھی کرتا ہے۔ ہم قومیت کی بنیاد پر ایک الگ ریاست کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ اس تسلیم شدہ حق کہ کشمیر ایک مکمل ریاست ہے، کی بنیاد پر اپنا حقِ حکمرانی مانگ رہے ہیں۔جو لوگ اس کی وحدت کی بات کرتے ہیں وہ یہ بھی خوب جانتے ہوں گے کہ کشمیر کی وحدت اس کی منقسم اکائیوں کو یکجا کرنے ہی سے مشروط ہے۔ ہماری حقیقی آزادی ہماری قومی وحدت ایک الگ ریاست سے وابستہ ہے۔ اہلِ پاکستان کی کشمیریوں کے ساتھ لازوال وابستگی اورحقیقی اظہار یکجہتی کشمیریوں کے قومی تشخص اور قومی آزادی ہی میں کار فرما ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کی عوام کشمیریوں کے تشخص اور آزادی کےلیے ہر دن ان سےیکجہتی کے لیے تیار ہیں ۔

رہی بات کشمیری سیاستدانوں کی،حریت رہنماوں کی اور بیرون ملک آکر مسلہ کشمیر کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنے والوں کی تو ان کے لیے مسئلہِ کشمیر ان کی سیاست اور شہرت کی فیکٹری ہے۔ وہ ہرآنے والے سال کو کشمیر کی آزادی کاسال قرار دیتے رہے۔ ان کے کتنے ہی وعدے اور دعوے ہیں جن پر اگر لکھا جائےتوکم ازکم ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔ان کے کتنے ہی وعدے ہیں جو وفا نہ ہوئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے