ہمیں یہ جان کر دکھ بھی ہوتا ہے اور حیرت بھی کہ امریکی فوجی تفنن طبع کے طور پر قتل کرتے ہیں اور اس پر کوئی ندامت محسوس نہیں کرتے بلکہ فخریہ اور اعلانیہ طور پر اس کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ عہد قدیم کی کوئی وحشی قوم نہیں بلکہ دور جدید کی وہ قوم ہے جسے اپنی تہذیب پر فخر ہے اور جو خود کو حقوق انسانی کا علمبردار تصور کرتی ہے۔
[pullquote]یہ بھی پڑھیے .
[/pullquote]
امریکی صحافی اینڈریوٹائلگمین (Andrew Tilghman) کا کہنا ہے کہ بغداد کے نوا ح میں ایک فوجی کیمپ میں ایک فوجی نوجوان سے جب انہوں نے سوال کیا کہ یہاں آکر کیا محسوس کر رہے ہوتو اس کا جواب تھا کہ اسے مزہ آرہا ہے ، یہ ایک ایڈونچر ہے ۔ اور یہ کہ وہ عراق آیا ہی اس لیے ہے کہ اسے بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگوں کو قتل کر سکے( بحوالہ، ینڈ ریوٹا ئلگمین ،I Came Over Here Because I Wanted To Kill People
دی واشنگٹن پوسٹ، 30 جولائی 2006 ۔)
گذشتہ سطور میں جس امریکی فوجی جرمی مار لوک کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے ایک بے گناہ اور نہتے 15 سالہ افغان نوجوان لڑکے گل مدین کو قتل کرکے یادگار کے طور پر اس کی انگلی کاٹ کراپنیپاس محفوظ کرلی اسی کیباریمیں دی گارجین (The Guardian) کی رپورٹ میں ایک اور خوفناک انکشاف کیا گیا ہے کہ اس نے یہ قتل تفریح کے طور پر کیا تھا تاکہ مزہ لیا جاسکے ۔ رپورٹ کے مطابق:
"بعد ازاں اسی روز مالوک نے ہولمز کو بتایا کہ یہ قتل تفریح کے طور پر کیا گیا” ( بحوالہ،کرس مک گریل، US Soldiers Killed Afghan Civilians for Sport Collected Fingers as Trophies دی گارجین، 9دسمبر 2010 ۔
یہ 1996کی بات ہے۔وہ امریکی کے ٹی وی پروگرام 60منٹ میں مدعو تھیں۔میزبان نے سوال کیا:’’ عراق پر امریکی پابندیوں سے پانچ لاکھ سے زیادہ بچے مر چکے ہیں،کیا اتنی بھاری قیمت دی جانی چاہیے؟‘‘۔اعلی مغربی تہذیب کی علمبردار عورت کا جواب تھا:’’ جی ہاں یہ ایک مناسب قیمت ہے،دی جانی چاہیے‘‘۔
ملنگوں کا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عالم مد ہوشی میں وہ صرف مجاوری کرتے ہیں حقائق سے انہیں تبخیر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ان ملنگوں کے رویے دیکھ کر کیتھرین گراہم یاد آ جاتی ہیں۔کیتھرین واشنگٹن پوسٹ کی مالک تھیں۔1988میں انہوں نے سی آئی اے میں نئے بھرتی ہونے والے جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:ہم بڑی گندی اور خطرناک دنیا میں رہتے ہیں۔کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے”( بحوالہ ولیم بلم ، کلنگ ہوپ، صفحہ 121)۔
چنانچہ اب تلخ حقیقت یہ ہے کہ الا ماشا اللہ دنیائے دانش کیتھرین کے فکری فرزندوں سے بھری پڑی ہے جو صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے ۔
آپ فرانس کے سابق ڈپٹی سپیکر اور سینیٹر راجر گراؤڈی کی کتاب’’ دی فاؤنڈنگ متھز آف اسرائیلی پالیسی‘‘ پڑھیں آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائین گے کہ کس طرح راجر نے جب عام لوگوں کو ان ’ کچھ چیزوں‘ کا بتانا چاہا تو مغربی میڈیا نے ان کا بائیکاٹ کر دیا۔ہمارے ملنگ ڈگڈگی بجاتے ہیں کہ مغربی تہذیب آزادی رائے کی بڑی قائل ہے۔جھوٹ کے یہ لشکری اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ نام چامسکی جیسا آدمی چیخ اٹھتا ہے’’حقائق بہت کڑوے ہیں۔صرف یہی نہیں کہ تعلیم یافتہ اور معقول لوگوں کو سچائی سے دور کر دیا گیا ہے بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بد ترین حالات کہ ذمہ داری مظلوموں پر ڈال دی گئی ہے‘‘۔
دنیا کو لہومیں نہلا نے کے بعد اس مغربی تہذیب کو اخلاقی برتری کا تاثر دینے کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ ملالہ جیسے واقعات کو اچھالتی ہے تو کہ اس کی انسانیت دوستی کی سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔یہ مہم اتنی جاندار ہوتی ہے کہ گاہے گماں گزرتا ہے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں تو کوئی بیٹیاں نہیں رہتی تھیں کہ جنہیں پل بھر میں بخارات بنا کے اڑا دیا گیا ۔وزیرستان کی بیٹیوں کو رات سوتے میں ڈرون ان کے کھلونوں سمیت بکھیر دے تو یہ کیتھرین کے ’ فرزندان صحافت‘ کے لئے کوئی خبر نہیں ہوتی۔عراق میں ہماری بیٹیوں کی عزت لوٹ کر امریکی فوجی لاش کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال دیں تو ’ انکل اوبامہ‘ اس خاندان کو تو جنرل اسمبلی سے خطاب کی دعوت نہیں دیتے.
۔انسانیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر بیٹی کو ملالہ سمجھا جائے اور ہر بیٹی کے زخموں پر مرہم رکھا جائے لیکن مغربی تہذیب صرف اس کے سر ہاتھ رکھتی ہے جو تصادم تہذیب میں مغرب کے مقدمے کو تقویت پہنچائے۔یہ انسانیت نہیں بیوپار ہے۔انسانیت دوستی کے نام پر ایک آدھ ڈرامہ کر کے مغرب اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا کہ ’ بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانے سے‘۔کالم میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ تفصیل سے بیان کر دیا جائے تاہم حقیقت یہ ہے کہ مغرب جب بھی کسی قوم سے لڑائی کے میدان میں اترا اس نے انسانیت کو طلاق بائن دے دی۔
جب جرمن قوم سے معاملہ درپیش تھا تو اس کے سر پر وہی خون سوار تھا جو آج کل مسلمانوں کے حوالے سے اس کے سر پر سوار ہے۔چرچل نے پال ریناڈ کو خط میں لکھا:’’ ہم جرمنی کو قحط کا شکار کر دیں گے ،ہم اس کے شہروں کو تباہ کر دیں گے اور اس کے جنگلوں کو آگ لگا دیں گے‘‘( بحوالہ،راجر گراؤڈی، دی فاؤنڈمتھز،صفحہ 43)
۔برطانوی وزیر لارڈ وینسیٹرٹ نے ائر فورس کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ صرف مردہ جرمن ہی اچھے جرمن ہیں۔بس بم برساتے جاؤ‘‘۔( بحوالہ،راجر گراؤڈی، دی فاؤنڈمتھز،صفحہ 43)۔
نیو یارکر میگزین کے ایڈیٹر کلفٹن فاڈیمن نے لکھا:’’ جرمنوں کو سمجھانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے‘‘۔( بحوالہ،راجر گراؤڈی، دی فاؤنڈنگ متھز،صفحہ42)
امریکی دانشور تھیوڈور کف مین نے اپنی کتاب ’’ جرمنی مسٹ پیرش‘‘ میں صفحہ 17 پرلکھا:’’جرمنوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔جنگ کے بعد بیس ہزار ڈاکٹروں کو متحرک ہو جانا چاہیے۔ہر ڈاکٹر روزانہ 25جرمنوں کو بانجھ کرے۔اس طرح تین ماہ میں کوئی ایسا جرمن نہیں بچے گا جو نسل کو آگے بڑھا سکے۔یعنی 60سالوں میں جرمن نسل کا مکمل صفایا ہو جائے گا‘‘۔( اب اگر مغربی امداد سے چلنے والے طبی پروگرامز کو قبائل اور کے پی کے میں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو اس نفسیاتی گرہ کا ذمہ دار کون ہے؟کیتھرین کے فرزندان صحافت غور فرمائیں گے؟)
امریکہ کی تاریخ خونی تاریخ ہے۔اس تاریخ میں اس نے صرف رعونت اور فسطائیت سے کام لیا ہے۔بین الاقوامی قوانین اور ضابطے کبھی اس کی روہ میں حائل نہیں ہو سکے۔امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین ایچی سن ریاست کے رہنما اصول کو یوں بیان کرتے ہیں:’’امریکہ بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں۔انٹر نیشنل لاء جائے جہنم میں۔مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے ماہرین کیا کہتے ہیں‘‘( بحوالہ،بل ڈلن،یو ایس۔اے روگ سٹیٹ،27اکتوبر2002۔دی ٹراؤزر رولرز)۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں لکھا:’’
کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی مرد عورت اور بچے کو قتل نہ کیا جائے،تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے یا اسے غائب نہ کر دیا جائے اور امریکہ اس ظلم میں شریک نہ ہو‘‘( بحوالہ نام چامسکی ، روگ سٹیٹس۔۔۔باب10
دنیا میں سب سے زیادہ قتل و غارت کر نے والا امریکہ ملالہ جیسے چند واقعات کی آڑ میں اپنی تہذیبی برتری ثابت کر کے خود کو انسان دوست قوت کے طور پر متعارف کراتا نظر آتا ہے تو رچرڈ ریویز یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا:’’ہم امریکی اپنی رہنمائی کے حوالے سے بے ہودہ اور واہیات باتیں علی الاعلان کرتے ہیں‘‘۔اسی سفاک رویے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے ولیم بلم لکھتے ہیں:
Neither is that US foreign policy is cruel because American leaders are cruel. It is that our leaders are cruel because only those willing to be inordirnately cruel and semorseless can hold positions of leadership in the foreign policy establishment.
"بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اس لیے بے رحم ہے کہ اس کی قیادت بے رحم ہے۔معاملہ یہ ہے کہ ہمارے رہنما اس لیے بے رحم ہیں کیونکہ فارن پالیسی اسیٹسلشمنٹ میں صرف انہی کو عہدہ مل سکتا ہے جو بے رحم، ظالم،بے شرم اورڈھیٹ ہوں‘‘( بحوالہ ولیم بلم ،کلنگ ہوپس،یو ایس ملٹری اینڈ سی آی اے انٹر ونشنز سنس ورلڈ وار ٹو، کامن کیج پریس، صفحہ 83)
اس صورت حال میں گاہے نام چامسکی یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا” حقیقت واقعی تلخ ہے۔ نہ صرف یہ کہ پڑھے لکھے اور معقول لوگ ننگی سچائیوں سے مامون و محفوظ بنا دیے گئے ہیں بلکہ طرفہ تماشا یہ کہ ایسے لوگ بدترین حالات کی ذمہ داری حالات کے شکار مظلوموں کی طرف منتقل کرنے دیتے ہیں”