کشمیرآزاد کرانے کی آوازیں کیسے بند ہوئیں ؟؟

اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں 5 فروری کو کشمیر ڈے منانے پر پابندی نہیں لگی ہےورنہ تو آزادی کے خواب دلوں میں بسا کر مقبوضہ کشمیر سے آئی ہوئی جہادی اور سیاسی قیادت اب تک زنگ لگ کر فنا ہو چکی ہوتی۔

یادش بخیر! 90ء کی دھائی میں جب یہ قائدین اپنے اہل و عیال کے ہمرا کنڑول لائن پار کر کے آزاد کشمیر وارد ہوئے تھے تب یہاں کے حالات و واقعات ہی کچھ اور تھے۔ انہیں ہر روز کئی کئی جلسے اور جلوس بھگتانے پڑتے تھے۔ جذبہ جہاد اور شوق آزادی کے شرارے ان کی نس نس سے پھوٹا کرتے تھے۔ جب یہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور امت کی بیٹیوں، بہنوں، ماؤں اور بچوں کی مظلومیت کی داستان بیان کرتےتو پتھر دل پانی ہو جاتے۔ پہلے آنکھیں پتھرا جاتیں پر ان سے آنسو پھوٹ بہنے لگتے۔ اِن کی زبان میں وہ تاثیر اُتر آتی کہ خطاب ختم ہونے سے پہلے ہی درجنوں نوجوان اپنے والدین کے ارمانوں کو فراموش اور اپنے شاندار مستقبل کے خوابوں پر لعنت بیج کر رزمگاہوں میں اُترنے کا فیصلہ کر چکے ہوتے تھے۔

خیر وقت گزرتا گیا۔ کشمیر میں ظلم جاری رہا۔ وادی اور جموں کے طول و عرض سے نوجوان خونی لکیر کو پار کر کے آزاد کشمیر میں داخل ہوتے، چند دن کی تربیت لے کر دنیا کی ساتویں بڑی فوج کو شکست دینے کے لئے لوٹ جاتے۔ واپسی کے سفر میں کشمیری تنہا نہیں ہوتے بلکہ پاکستان کے کونے کونےسے نوجوان محمد بن قاسم کے نقش قدم پر چلنے کی حسرت میں انکے ھمرا ہوتے تھے۔ یہ مجاہد خونی لکیر کو قدموں سے روند رہے ہوتے تو ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک پٹهو چار دستی بم، ایک کلاشنکوف، ڈیڑھ سو گولیاں اور چند ہزار کی انڈین کرنسی کے علاوہ قائدین کے ولولہ انگیز خطابات سے حاصل کردہ جوش اور ” آزادی کی منزل صرف دو چار قدم کے فاصلے پر ہے” کی نوید ہوا کرتی تھی۔ آزادی کی منزل تو ایک “طلسم ِ ہوش ربا” میں مقید تھی۔ تبھی تو دو چار قدم کا فاصلہ سالوں اور عشروں میں بھی طے نہیں ہونے پایا۔ لیکن کارخانے خوب چلتے رہے۔ مجاہد آتے اور واپس جاتے رہے۔ جاتے رہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے۔

ادھر قائدین کی مصروفیات میں بھی مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جلسوں، جلوسوں، جہاد کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ انہیں روزانہ کئی کئی شہدا کانفرنسوں سے بھی خطاب اور شعلہ بیانی کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا۔ جذبہ اور جوش اپنی جگہ، لیکن آخر انسان کی سخت جانی کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے۔ اگر روزانہ ڈھیروں تقریریں کی جائیں تو گّلے میں خراشیں پڑنا اور آواز رھند کر حلق مین اٹک جانا ایک قدرتی امر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے تحریک جہاد کشمیر کو لپیٹ لینے کا فیصلہ کیا تو ان قائدین کے حلق سے ایک لفظ تک نہیں نکل پایا۔ شعلہ بیانی تو ایک طرف کوئی مسکین سی صدائے احتجاج تک بلند نہیں کر سکے۔ جہاد کے تمام “پشتی بان” اور سارے “سالارِ اعلیٰ و ادنیٰ” ایک ہی صف میں مہر بلب دست بستہ کھڑے رہے۔ ایک بار پھر “قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند” والا ماجرا ہو گیا۔

بچارے بچارے قائدین بولتے بھی تو کیسے؟؟ ان کے گّلے تو روزانہ جہاد کے درس دے دے کر مکمل طور پر بند ہو چکے تھے۔ اب اگر کسی کم ظرف کا یہ خیال ہے کہ اس انتہائی اہم موقعہ پر ان کی خاموشی کی وجہ ان کے زیر استعمال بڑی بڑی گاڑیوں کے چھن جانے کا خوف تھا۔ انہیں اپنے زیر تعمیر مکانات کے ہاتھ سے نکلنے کا ڈر تھا۔ پاکستان اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم انکی اولادوں کی تعلیم ادھوری رہنے کے فکر نے انہیں بولنے سے روکے رکھا۔ انہیں ملنے والے کثیر ماہانہ وظیفے کے بند ہو جانے کے احتمال نے انکی زبانوں پر قفل ڈالے رکھے تھے۔ تو یہ ان قائدین کے ساتھ زیادتی ہے۔ انکی بے ریا جدوجہد کی توہین ہے۔

خیر اب تو ان باتوں کو ایک عشرہ بیت چکا ہے۔ کشمیر اور جموں کے ہر گام پر آباد ہونے والے شہدا کے قبرستانوں میں قبریں گمنام ہو چکی ہیں۔ کشمیری اور پاکستانی ماؤں کو اپنے بچوں کی شہادت پر قرار آ چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر آنے والے جہادی اور سیاسی قائدین کے مظفر آباد اور اسلام آباد میں گھروں کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ ان کی اولادیں بہترین یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر پُر کشش ملازمتوں اور کاروباروں میں مصروف ہو چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اب ان کے گّلے کی خراشیں بھی کسی قدر ٹھیک ہو چکی ہیں۔ اسی لئے ہر سال 5 فروری کو ہمیں ان کی شعلہ بیانوں سے لطف انداوز ہونے کا موقعہ نصیب ہو جاتا ہے۔ اس ایک دن کے خطابات سے انہیں پورا سال ملنے والا ظیفہ بھی حلال ہو جاتا ہے اور یہ زنگ لگ کر فنا ہونے سے بھی بچے رہتے ہیں۔ –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے