مدارس کے نصاب پر کھچڑی پکتے ہوئے ڈیڑھ صدی گزر چکی ہے، لیکن دال گل نہیں رہی۔ میرے خیال میں نظری سطح پر چیزیں کافی واضح ہو چکی ہیں، اب کسی عملی اقدام کی طرف بڑھنے کے لیے جرات رندانہ کی ضرورت ہے۔ کچھ بڑے دینی ادارے اگر حوصلہ کر سکیں تو وہ باقی کے لیے بھی نمونہ بن سکیں گے۔ میرے نقطہ نظر سے کسی بڑی عملی الجھن سے دوچار ہوئے بغیر دو سطحوں پر اس ضمن میں پیش رفت کے لیے اس وقت زمین ہموار ہے۔
ایک یہ کہ اعلیٰ تعلیم کا ادارہ (ایچ ای سی) یا وزارت تعلیم عصری تعلیم کے اداروں کی طرح دینی تعلیم کے اعلیٰ اداروں کی recognition کا ایک نظام بنائیں جس میں ملک بھر میں ایک خاص سطح اور معیار کے بڑے اداروں کو جامعہ کی سطح پر ریکگنائز کرکے انھیں یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ نصاب سازی کے بنیادی اہداف اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے نصاب تشکیل دیں اور چھوٹے تعلیمی اداروں کو اپنے ساتھ ملحق کر کے امتحانات کا ایک نظام وضع کر لیں۔ اس سے دینی تعلیم میں نئے اور مفید تجربات کی راہ بھی کھلے گی اور تنوعات کو بھی جگہ مل سکے گی۔
دوسری سطح یہ ہے کہ اگر سردست حکومتی ادارے اس میں دلچسپی محسوس نہ کریں تو کچھ بڑے دینی ادارے اپنے طور پر میٹرک کے بعد پانچ یا چھ سالہ نصاب بنا کر طلبہ کو کسی منظور شدہ سرکاری یونیورسٹی سے باقاعدہ ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحانات دلوائیں۔
یہ دو انتظام تو سند کی recognition کے حوالے سے ہو سکتے ہیں جو بہرحال دور جدید میں ایک مجبوری اور ضرورت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔
دینی تعلیم کی افادیت اور معیار کے حوالے سے ایک دوٹوک قدم یہ اٹھانے کی ضرورت ہے کہ مدرسے میں آنے والے ہر طالب علم کو، اس کی دلچسپی، صلاحیت اور رجحان طبع کا لحاظ کیے بغیر، آٹھ یا چھ سال کی دلدل میں پھینک دینے کا رجحان کلیتاً ترک کر دیا جائے۔ اس رجحان کے تحت اس وقت مدارس سے فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت کے صرف کردہ آٹھ سال دینی تعلیم، مدارس کے نظام اور معاشرہ، کسی کے لیے بھی کوئی افادیت نہیں رکھتے اور اس کا تسلسل محض حصول ثواب، تبرک اور بزرگوں کی نسبت سے روا رکھا جا رہا ہے۔ دینی تعلیم میں مہارت اور اختصاص کے لیے صلاحیت اور استعداد نیز رجحان طبع کا ایک معیار مقرر کیا جائے اور انھی طلبہ کو اس میں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے جو ایک ’’عالم دین’’ کے طور پر معاشرے میں کردار ادا کر سکیں۔
ان کے علاوہ مدارس سے رجوع کرنے والے عام طلبہ کے لیے مختلف سطحوں پر ان کی ضرورت اور صلاحیت کے لحاظ سے مختلف دورانیے کے متبادل نصابات تشکیل دیے جائیں جنھیں مکمل کرنے کے بعد دو سال، تین سال یا چار سال کے بعد وہ سسٹم سے باہر جا سکیں۔ ایسے حضرات کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ہنر لازماً سکھایے جائیں جو کل کو روزگار کے سلسلے میں ان کی مدد کریں، مثلاً انگریزی زبان، ریاضی، کمپیوٹر آپریٹنگ، اداراتی انتظام وغیرہ۔ پنجاب حکومت کا ادارہ TEVTA اس حوالے سے یہ سہولت دے رہا ہے کہ مختلف تکنیکی ہنر سکھانے کے لیے دینی اداروں کے اندر سرکاری اخراجات سے سیٹ اپ قائم کیے جا سکتے ہیں اور مختلف اداروں میں یہ تجربہ کامیابی سے چل رہا ہے۔
اب تک عموماً مدارس نے اپنے طلبہ کے لیے صرف کمپیوٹر ٹریننگ کی سہولت حاصل کی ہے۔ اگر وہ مدارس سے رجوع کرنے والے تمام طلبہ کو ’’علماء’’ بنا کر فارغ کرنے کے ہدف میں ترمیم کر لیں اور عام طلبہ کے لیے بھی اپنے سسٹم میں گنجائش پیدا کر لیں تو طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے ایک سال، دو سال یا تین سال کے دورانیے پر مبنی دینی تعلیم کے نصاب کے ساتھ مختلف تکنیکی ہنر شامل کر کے وسیع معاشرتی افادیت رکھنے والا ایک تعلیمی نظام آسانی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔
سالوں کی بحث، مختلف قسم کے تجربات نیز ممکنہ خدشات وخطرات کا جائزہ لینے کے بعد دینی تعلیم کے نظام میں اصلاح اور بہتری کے مذکورہ چند پہلو اور امکانات میرے خیال میں بالکل واضح ہو چکے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ کچھ باہمت منتظمین اس سمت میں قدم اٹھائیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مدارس کی ایک بہت بڑی تعداد ’’قدم بڑھاو ہم تمھارے ساتھ ہیں’’ کہنے کے لیے تیار ہے، بس کوئی قدم بڑھانے والا چاہیے۔
واللہ اعلم