11 فروری 84ء:جب ایک عظیم شخص پھانسی چڑھا!

آج سوشل میڈیا پر سجاد لون اور عمر عبداللہ کی مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد اسمبلی میں ہونے والی نوک جھونک پر مشتمل ویڈیو دیکھ کر سوچا کہ مقبول بٹ صاحب کی برسی کے موقع پر لکھے گے آرٹیکل کی بجائے بٹ صاحب کی یاد ذرا مختلف انداز میں تازہ کروں ۔ سجاد اور عمر کی گفتگو سن کر مقبول بٹ صاحب کی شخصیت اور کردار کے ارد گرد گھومتے بہت سے کردار اور واقعات یاد آگے، چند ایک واقعات آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔

کاش اس زمانے میں سوشل میڈیا کی سہولت ہوتی تو میں نہیں سمجھتا کہ مقبول بٹ پھانسی پر چڑھایا جا رہا ہو اور اس کی قوم اس کے پس منظر سے ناواقف ہونے کی وجہ سے کنفیوژ ہوتی اور مقبول قوم کی طرف سے اتنی بے حسی کا شکار ہو تے۔سرینگر کی کرسی کے گرد گھومنے والے اقتدار پرست کرداروں نے دلی کی خوشنودی کے لیے مقبول بٹ شہید کو ڈکیت ، تخریب کار اور دشمن کا ایجنٹ قرار دیا تو حکومتی پراپیگنڈے کو کسی اخبار ،دانشور اور صحافی نے چیلنج ہی نہیں کیا ۔

اسی طرح مظفر آباد کی کرسی کے گرد گھومنے والے کرداروں نے بھی مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں کی کردار کشی میں کوی کسر نہ چھوڑی ، ان کو انڈین ایجنٹ کہہ اور ان کے خلاف عجیب و غریب کہانیا ں گھڑکر عوام اور ذرائع ابلاغ کو گمراہ کیا۔۔۔۔۔ البتہ ایک فرق آپ کو ضرور نظر آئے گا کہ پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں شہید مقبول بٹ کے جو جماعتی ساتھی تھے یا ایسے دوست جو دو قدم بھی مقبول بٹ کے ساتھ چلے تھے انہوں نے اقتدار کے پجاری غلام ذہنیت رکھنے والے کرداروں کے مقبول بٹ شہید کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈے کا توڑ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ چھوڑی۔

سرینگر میں صورتحال قطعی مختلف تھی۔ خود شہید مقبول بٹ نے سرینگر میں اپنی پہلی گرفتاری کی بابت ہفت روزہ زندگی لاہور کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا۔

’’سرینگر میں ہمیں گرفتار کر کے ہم پر مقدمہ چلایا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی حکومت فوجی عدالت میں ہم پر مقدمہ چلا کر ہمیں ختم کر دینا چاہتی تھی مگر مقدمہ سول عدالت میں چلا ۔ دو سال بعد اگست ۱۹۶۸میں فیصلہ یہ سنایا گیا کہ دو ملزمان مقبول بٹ اور امیر احمد کو سزائے موت جبکہ دیگر دو ملزمان (

مقبول بٹ شہید
مقبول بٹ شہید

مظفر آباد کے صوبیدار کالا خان اور چوہدری یاسین ) کو عمر قید کی سزا دی جائے۔ مقبوضہ کشمیر سے ہمارے ساتھیوں کو تین ماہ سے تین سال تک کی سزائیں سنائی گئیں ۔ کل تقریبا تین سو لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں طلباء، اساتذہ، ٹھیکیدار، دوکاندار اور حکومتی ملازمین شامل تھے اور ان میں مختلف جماعتوں بشمول محاذ رائے شماری، کانگرس اور نیشنل کانفرنس کے لوگ بھی شامل تھے۔

بٹ صاحب کے بیان کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ۱۹۷۶ میں جب مقبول بٹ سرینگر گئےاور دوبارہ گرفتار ہوئے تو کم از کم نیشنل کانفرنس اور کانگریس اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ جو ان کی پہلی گرفتاری کے موقع پر پکڑے گئے ، شہید مقبول بٹ کو پہلے سے جانتے تھے۔ وہ مقبول بٹ کے جیل سے فرار کی بابت بھی جانتے تھے ۔

بھارتی حکومت نے جو حقائق کے بر عکس ہینڈ آوٹ جاری کیا اور مقبول بٹ کی گرفتاری سے متعلق جو خبریں کشمیر کے مقامی اخبارات میں شائع ہوئیں وہ سب حکومتی ذرائع کے حوالے سے تھیں ، مجھے پتہ نہیں کہ کسی اخبار نے اس موقع پر مقبول بٹ ، ان کے ساتھیوں سے تھانوں یا انٹروگیشن سینٹر میں رسائی حاصل کر کے اپنی کوئی تحقیقی رپورٹ جو حکومتی بیان کی نفی کرتی ہو شائع کی؟

پہلے تو شیخ عبدالہ اور پھر فاروق عبدالہ کا فرض بنتا تھا کہ وہ میڈیا کو مقبول بٹ کی بابت اپنی ذاتی اور پوری معلومات سے آگاہ کرتے۔ چلیے وہ احتجاج نہ کرتے پر کم از کم یہ تو بتاتے کہ مقبول بٹ ہے کون ؟ اور عوام کو میڈیا کے ذریعے مقبول بٹ کا سیاسی پس منظر بیان کرتے ۔ بٹ صاحب کی کردار کشی پر مبنی خبریں افواہیں پھیلائی گئیں اور شیخ عبدالہ اور فاروق عبدالہ خاموش رہے۔ مقبول بٹ کی روح انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

میں دعوی سے کہتا ہوں کہ اگر کشمیری عوام کو مقبول بٹ کی بابت درست معلومات ہوتیں تو پہلے تو مقبول بٹ کو سزاے موت دینے پر سرینگر میں شدید رد عمل ہوتا۔ فاروق عبدالہ اور مقبول بٹ کو قریب سے جاننے والوں نے اس وقت چپ سادھ کر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ۔ کاش اس وقت سوشل میڈیا ہوتا۔

ایک اور واقعے کا ذکر کرتا چلوں ، یہ کوئی اسی کی دھائی کی بات ہے کہ جدہ میں فاروق عبدالہ سے ملاقات میں بٹ صاحب کی بابت جو کچھ بھی فاروق عبداللہ نے کہا وہ پاکستان میں ممتاز کشمیری صحافی حمید مفتی جو پاکستان پیپلز پاڑٹی کے رہنما بھی تھے ، نے اپنے اخبار میں شائع کیا ۔ اس وقت کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات تک ہماری رسائی نہ تھی۔

بد قسمتی سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک( ۱۹۶۸ سے ۱۹۷۶) تک مقبول بٹ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہے ، (اس میں شاہی قلعہ لاہور maqbool2زنداں خانے کا وقت شامل ہے) خود مختاری کا مطالبہ کرنے والی واحد سیاسی جماعت جموں کشمیر محاذ راے شماری کے وہ منتخب صدر تھے اور پارٹی کے کارکن ان کی قیادت میں متحد رہے۔

مجھے نہیں یاد پڑتا کہ آزاد کشمیر میں مکمل آزادی چاہنے والی کوئی اور تنظیم اور گروپ اپنا الگ وجود رکھتا تھا۔ ما سوائے لبریشن لیگ کے جن کے قائد جناب کے ایچ خورشید صاحب کا خود ماننا تھا کہ ’’ میری منزل یا سیاسی مقصد کی جو آخری سیڑھی ہے ، اس سے آگے کا سفر آپ (مقبول بٹ) کا شروع ہوتا ہے‘‘۔

دہلی کی تہاڑ جیل میں ایک انسان دوست کشمیری رہنما کو انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر پھانسی پر چڑھا دیا گیا ۔ ظالموں نے اپنی انا کی تسکین کے لیے جیسا کہ افضل گورو کو پھانسی دینے کے فیصلے کی تاویل میں عدالت نے خود لکھا۔تاریخ لکھے گی کہ ہائی ہامہ تریہگام کے پرائمری سکول میں انعامی تقریبات میں امیر و غریب والدین کی نشستوں میں فرق کو مٹانے اور سکول کو پرائمری سے سیکنڈری سکول کا درجہ دلانے کی تحریک کا محرک بننے والے بے گناہ مقبول بٹ کو انتقام کی آگ کا نشانہ بنا یا گیا۔

 

بدقسمتی سے ظالم اور اذیت پسند حکمرانوں نے ایسے شخص کی زندگی کا چراغ گُل کیا گیا ، جو اعلی تعلیم یافتہ ، با شعور ، ایک مفکر اور وقت کا پہنچا ہوا ولی تھا۔ مقبول بٹ نے کپواڑہ میں میٹرک کے بعد سینٹ جوزف کالج بارہ مولا سے سیاسیات اور تاریخ کے مضامین میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ایسا maqbool butt shahdسیاسی سوچ کا حامل شخص جس نے کالج کی زندگی کے دوران ہی شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے خلاف اور محاذ راے شماری کی سیاسی احتجاجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، تیسری دنیا نے دیکھا کہ دنیا کی بڑی جمہوریت کہلائے جانے والے ملک بھارت کی مقننہ ، حکومت ، عدلیہ اور پریس نے تعصب برتا اور مقبول بٹ کو سنا ہی نہیں گیا ۔

 

مقبول بٹ کا سیاسی پس منظر جانے بغیر ہی انہیں دشمن کا ایجنٹ ، ڈکیٹ قرار دے کر انہیں سزا دینے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ حالانکہ مقبول بٹ سرینگر کی عدالت میں دیے گے بیان میں کہہ چکے تھے کہ ’’ مجھے خود پر لگایا گیا الزام تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہاں مگر ایک ترمیم کے ساتھ کہ میں دشمن کا ایجینٹ نہیں ہوں بلکہ میں ہی دشمن ہوں۔ مجھے اچھی طرح پہچان لیا جائے میں ہی کشمیر میں آپ کے غیرقانونی قبضے کا دشمن ہوں۔‘‘

 

 

مقبول بٹ کو پہچاننے کی زحمت کسی نے نہ کی اور انہیں پھانسی دے ہی دی گئی۔ مگر نتیجہ کیا نکلا ؟ میرا ماننا ہے کہ مقاصد کے حصول میں ظالم ہار گیا اور مظلوم جیت گیا۔ مقبول بٹ شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہوگیا اور پیرو کاروں کی ایک فصل بو گیا ۔

 

میں ان چند خوش قسمت افراد میں سے ایک ہوں جسے مقبول بٹ کی قربت ، محبت اور شفقت حاصل رہی۔ ان کے بہت سے ایسے رفقاء کا ذکر نہیں کر رہا جنہوں نے آزاد کشمیر میں ان کے مشن کو جاری رکھا وجہ یہ ہے کہ ایک تو مضمون کی طوالت اور دوسرا ایک بھی نام لکھنے سے رہ گیا تو کسی ساتھی کی دل maqbool butt2شکنی ہو سکتی ہے۔ان سب کے نام تاریخ کشمیر کا حصہ ہیں ۔ مجھے حیرانگی اور افسوس ہے فاروق عبداللہ کے دوہرے کردار پر ۔ فاروق عبدالہ جناب مقبول بٹ صاحب کو پہلی بار میرپور میں ۱۹۷۴ میں ملا تھا ۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ مقبول بٹ کون ہے ، اس کے ساتھی کون ہیں اس کا کشمیر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سیاسی نظریہ کیا ہے؟

مقبول بٹ کا آزاد کشمیر کی جانب سفر:

آزادی کی تلاش میں قربانی کی راہ پر چلتے ہوئے مقبول بٹ ۱۹۵۸ میں تقسیم کی لکیر پار کر کے کشمیر کےاس حصے میں آگئے جس کو سرکاری طور پر ” آزاد کشمیر ” کہا جاتا ہے۔ اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ہفت روزہ ”زندگی” کو انٹرویو دیتے ہوئے مقبول بٹ نے کہا، ’’ شیر کشمیر [ شیخ عبداللہ ] کی رہائی سے بہت سی سیاسی سرگرمیوں کو مہمیز ملی۔ اس سال ۱۹۵۷ مارچ/اپریل میں میرے بی اے کے امتحانات تھے جن کے لیے امتحانی مرکز سری نگر میں تھا۔ maqbool buttہمارا آخری پرچہ دو اپریل کو تھا جبکہ ستائیس اپریل کو شیخ صاحب کودوبارہ گرفتار کیا گیا اور بہت سے آزادی پسندوں اور طلبا لیڈروں کی پکڑ دھکڑ بھی شروع کر دی گئی۔ میری گرفتاری بھی یقینی تھی۔ اس لیے میں زیر زمین چلا گیا ۔ تین ماہ بعد میرے والد صاحب جا کر امتحانی رزلٹ لے کر آئے اور میں اگست ۱۹۵۸کو پاکستان آگیا۔ پہلے ہم لاہور آئے اور پھر وہاں سے ستمبر میں پشاور چلے گئے۔‘‘

 

پاکستان میں مقبول بٹ اور اس کے ساتھیوں کو اچھی طرح سے سمجھا گیا اور سمجھنے کے بعد ان سے جو سلوک روا رکھا گیا وہ اس وقت تو سمجھ نہیں آیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ سمجھ آتا گیا۔ مگر۔۔۔ اب المیہ یہ تھا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ساتھیوں کو جب ہم حالات و واقعات بیان کرتے تو اول تو انہیں ہماری بات کا یقین نہیں آتا تھا یا وہ درست طور سمجھ کر کہ ہم لوگوں کو صورتحال سنبھالنے کا طریقہ نہیں آتا اور ان میں سے اکثر دوستوں نے اپنے اپنے تجربات کرنا شروع کر دیے۔ بہر کیف آج مقبول کا قافلہ کافی موثر اور معتبر سیاسی قوت بن گیا ہے ۔

Rajammuzaffar@gmail.com

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے