پاکستان سپر کرکٹ لیگ کا ایک طرف میلہ سجا ہوا ہے اور دوسری جانب ،،ڈرٹی گیم،، کا وائرس بھی اپنا کام دکھا رہاہے۔۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ شرجیل خان اور خالد لطیف نے اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی کی تھی یا ان کے گلے میں یہ طوق ڈال کرپی ایس ایل کی مارکیٹنگ کی گئی ہے۔۔یہ شبہ بھی اس لئے جنم لے رہا ہے کہ پی ایس ایل ٹو کو وہ پذیرائی نہیں مل رہی تھی جو کہ پی ایس ایل کے افتتاحی ایونٹ کو ملی تھی۔۔۔ ایک قیاس آرائی ہی کہہ لیں مگر یہ حقیقت کے کافی قریب ہے کہ دو کھلاڑیوں کو تحقیقات میں کلیئر کرانے کی یقین دہانی پربطور مارکیٹنگ سٹنٹ پیش کیا گیا یعنی۔۔۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ؟
تاریخ کا صفحہ پلٹیں تو ہمارا دامن داغدار نظر آتا ہے۔۔ سلیم ملک اور عطاالرحمان پر تا حیات پابندی ہے۔۔جسٹس قیوم کمیشن نے وسیم اکرم، مشاق احمد ، وقار یونس اور دیگر کئی ناموں پر سوالیہ نشان لگا رکھے ہیں۔۔محمد عامر، سلیمان بٹ اور محمد آصف کا برطانیہ میں گرفتار ہو کر جیل جانا ہماری تاریخ کا بد نما داغ ہے۔۔۔سرفراز نواز، راشد لطیف، رمیز راجہ ، سکندر بخت اور محسن حسن خان سمیت کئی بڑے ناموں کی آرا ریکارڈ پر ہیں کہ وہ پاکستان کیلئے کھیلنے کے نام پر پاکستان سے کھیلنے والوں پر تاحیات پابندی کے حامی ہیں۔۔من حیث القوم ہم جذباتی ہیں تو بہت رحم دل بھی واقعہ ہوئے ہیں۔۔
محمد عامر کو پابند سلاسل دیکھ کر پاکستانی شائقین کرکٹ کی ایک بڑی تعداد کے دل میں محمد عامرکیلئے نرم گوشہ پیدا ہوا۔۔ کسی نے کہا کہ محمد عامر کی عمر چھوٹی تھی وہ سلمان بٹ اور آصف کی باتوں میں آ گیا ہوگا۔۔ کوئی کہتا کہ محمد عامر ہی ہمارے پاس وسیم اکرم کا نعیم البدل ہے اس پر بھی اگر پابندی کے بعد کھیلوں کے میدانوں میں داخلہ بند ہو گیا تو خدا نخواستہ ہماری کرکٹ تباہ ہو جائے گی۔۔یہ حمائیتوں کی آوازوں کا بڑھتا ہوا دباو اس قدر تھا کہ کرکٹ بورڈ کا سربراہ بننے کے بعد نجم سیٹھی نے محمد عامر کو واپس لانے کی ٹھان لی۔۔ پابندی ختم کرانے کی کوششوں کے بعد ان کی حمایت سے ہی محمد عامر آج پھر قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ ہیں۔
مان لیاعمران خان کا الزام غلط تھا نجم سیٹھی نے پینتیس پنچر نہیں لگائے ہوں گے۔۔مگر پنچر ضرور لگائے ہیں ورنہ نواز شریف ایسے ہی مہربان ہونے والے نہیں ہیں۔۔ میاں صاحب اب سیاست کے استادوں میں شامل ہیں۔۔وہ کسی کی اہمیت دیکھ کر ہی چال چلتے ہیں۔۔دوسری جانب نجم سیٹھی کی یہ خوبی ہے کہ وہ تھوڑی بہت غلطیوں کا مارجن دے دیتے ہیں۔۔وہ جن جن کے قریب رہے۔۔ جن جن کے ساتھ چلے پھر ان کی غلطیوں کو بھی وقت کے ساتھ ہنس ہنس کر بھولنے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔۔ انھوں نے عمران خان کو بھی پینتیس پنچر پر سیاست میں ایسا ہو جاتا کہہ کر معاف کرنے اعلان کیا تھا۔۔ محمد عامربھی ان کی اسی خوبی کا ثمر سمیٹ رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔۔لیکن اتنی معافی کافی ہے کہ سلیمان بٹ اور محمد آصف کو پاکستان میں سوائے پابندی کاسامنا کرنے کے اور کوئی سزا نہیں ملی لیکن ان کو ٹیم کا بھی حصہ نہیں بنایا گیا۔۔ اگر محمد عامر کے ٹیلنٹ کی دلیل کو دفن کرکے اسے بھی واپس ٹیم میں لانے کی بجائے سلیمان بٹ اور محمد آصف کی طرح تندور پر بٹھا دیا جاتا تو شاید آج شرجیل خان اور خالد لطیف کو واپس بھجوانے کی نوبت نہ آتی۔۔ کھلاڑیوں کے ذہنوں میں یہ چیز بیٹھ جاتی کہ جو غلط کرے گا وہ تمام عمر بگتے گا۔۔۔اسلام آباد یونائٹڈ کے ہی تیسرے کھلاڑی دراز قد محمد عرفان بھی ریڈ زون میں الجھے ہیں۔۔ ان سے موبائل فون بھی لے لیا گیاہے اور پیشیاں بھگت رہے ہیں۔
ہم تو بیٹھے بیٹھے تجاویز دے دیتے ہیں۔ سفارشات پیش کردیتے ہیں کہ ایسا کردیں تو سسٹم درست ہو جائے گا۔۔ ویسا کریں تو ٹرین ٹریک پہ آ جائے گی لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اینٹی کرپشن کوڈ کی صرف کھلاڑی ہی خلاف ورزی نہیں کرتے ۔۔ صرف کریکٹر ہی حلف سے انحراف کے مرتکب نہیں ہوتے ۔۔ ہمارا تو ہر شعبہ ، ہر ادارہ ، سیاست ہو یا صحافت، عدلیہ ہو یا سرحدوں کے محافظ کہیں نہ کہیں حلف توڑتے نظر آتے ہیں۔۔ہم کوڈ بھی اپنے مقصد کے بناتے ہیں۔۔ہم خلاف ورزی کرنے والوں کو گلے سے لگاتے ہیں۔۔ ہم آئین توڑنے والوں کو گارڈ آف آنر پیش کرتے ہیں۔۔
کیا آمریت کے سارے کرداروں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی؟۔۔۔کیا پی سی او پر حلف اٹھانے والوں نے ملکی آئین سے انحراف نہیں کیا ؟ کیا حال اور ماضی قریب کے حکمرانوں نے ملکی دولت اور قوانین سے کھلواڑ نہیں کیا ؟ کیا بڑے بڑے سرکاری اداروں کے سربراہ حکمرانوں سے ورکنگ ریلیشن شپ کے مفاہمت کرکے ذمہ داریاں نہیں سنبھالتے ؟ کیا صحافت کے بڑے بڑے نام درباروں کے غلام اور مدح سرائی نہیں کرتے؟ کیا زرد صحافت اب بھی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ نہیں رہی ؟ اگر ان سارے سوالوں کاجواب ہمارے پاس موجود ہے اور اس کے باوجود ہم گونگے بہرے بنے ہوئے ہیں تو پھر صرف کریکٹر پر سیخ پا ہونے کافائدہ ؟
ہمارے ہاں قوانین بھی موجود ہیں او ر سزائیں بھی مقررہیں مگر بدقسمتی ہے کہ قانون با اثر اور بڑے نامو ں کے گھر کی لونڈی بن جاتاہے اور جہاں عام آدمی کی بات ہو وہاں قدم قدم پر ہمیں قانون سامنے کھڑا نظر آتاہے۔۔ آپ پی ایس ایل کو کرپشن سے ضرور پاک کیجئے ۔۔مگر صرف کرکٹ کو ہی نہیں۔۔ اپنے تمام اداروں اور شخصیات پر بھی آئین و قانون کا برابر اطلاق کیجئے۔۔۔ جنرل ضیاء الحق اگر آئین کو کاغذ کاایک ٹکڑا کہتے تھے تو کوئی بھی زی شعور انسان ان کے الفاظ سے اتفاق نہیں کرسکتا۔۔ کیونکہ یہ آئین اور قانون ہی وہ دنیاوی روڈ میپ ہے جو انسانوں اور جانوروں کی زندگیوں میں تمیز کرتاہے ۔۔آئین کے اوراق ہی ہماری معاشرتی حدود و قیود کا تعین کرتے ہیں ۔۔
آئین اورقوانین کا موازنہ کیاجائے تو پاکستان کے بہت سے قوانین امریکہ ، برطانیہ سمیت مہذب جمہوری ریاستوں جیسے ہیں ۔۔ مگر ان قوانین کااطلاق کرنے میں جو تفریق ہے وہ ہی ہمارے معاشرتی بگاڑ کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔۔برطانیہ ہو، آئس لینڈ ہویا نیوزی لینڈ۔۔ جہاں جہاں پانامہ پیپرز میں حکمرانوں کا نام آیا وہ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ بھی ہوئے اور اپنی سیاسی جماعتوں میں تنہا بھی۔۔۔وہاں یہ روش اپنائی گئی کہ جس پر جو الزام ہے وہ ہی اس کا جواب دے۔۔ پارٹی کسی فرد واحد کے برے کاموں میں اس کے ساتھ نہیں ہے۔۔ ہمارے ہاں نواز شریف اور ان کی فیملی پر الزام ہے ۔۔ مگر آدھی کابینہ عدالت میں ہوتی ہے۔۔ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے حوالے دینا بھی الفاظ کا ضیاع ہے۔
آئین اور قانون کو بلا تفریق موثر بنائیں۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔مشورہ پر کسی نے عمل تو شاید نہیں کرنا مگر تاریخ کے اوراق میں یہ الفاظ زندہ رہیں گے کہ اس معاشرے میں کوئی ایسا بھی سوچنے والے موجود تھے۔