ویلنٹائن ڈے اور اسلامی تہذیب

14 فروری کو”ویلنٹائن ڈے "،”یوم محبت "اور” محبوبوں کا دن” کے طور پر دنیا کے مختلف حصوں میں منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے،اس دن محبت کے نام پر شرم وحیاء سے عاری سرگرمیاں ،حیاء سوز آزادانہ "مردو زن "کا اختلاط ،پھولوں اور کارڈز کی صورت میں تحائف کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔اس دن کوتیسری صدی عیسوی کے عیسائی راہب” سینیٹ ویلنٹائن "کی طرف منسوب کیا جاتا ہے،جس کے متعلق مختلف افسا نوی اور رومانی کہانیاں روایت کی جاتی ہیں ،راہبہ (نن)کے عشق میں مبتلا اس راہب کو کلیسا کی حدود وقیود کی پامالی کی پاداش میں سزا موت دے دی گئی ،جس کو بعد میں” شہید محبت”کا درجہ دیا گیا ،اس کی یاد میں تب سے اب تک 14فروری کو” یوم محبت "یا "ویلنٹائن ڈے”کے طور پر منایا جاتا ہے۔جب کہ "اہل کلیسا” ہمیشہ اس دن اور اس میں ہونے والی خرافات سے بے زار ہی نظر آئے ہیں اوراس دن کی مذمت کے ساتھ ساتھ اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ کا ذریعہ قرار دیاہے ۔

اسلام دینِ کامل ہے ،انسانی معاشرے میں اخلاقیات،تہذیب ،پاکیزگی اور حیاء کا فروغ اسلامی تعلیمات کی وجہ سے ہواہے،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کا سبب ہے، بے حیائی جفا ہے اور جفا جہنم میں جانے کا سبب ہے۔(مسند احمد،جامع ترمذی )باحیا ء انسان مخلوق میں محبوب اور اللہ کریم کا مقبول بندہ بن جاتا ہے۔حیاء کی صفت سے محروم شخص حقیقی محروم ہے،ایسے شخص کے بارے میں ارشاد نبوی ﷺ ہے "جب تو بے حیاء بن جائے تو جو چاہے کرلے”۔بے حیاء شخص کسی ضابطہ ء اخلاق کا پابند نہیں ہوتا ہے۔

اسلام نے عورت کو عزت اور پاکدامنی کی چادر پہنائی ہے،ماں ،بیٹی ،بیوی اور بہن جیسی عظمت عطا کی ،شریعت نے عورت کو حدود و قیود کا پابند بنا کر نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ اس کی عصمت وناموس کی محافظ والد،بھائی اور بیٹوں کی صورت میں عطاکیئے۔شرم وحیاء عورت کا زیور ہے جو فطرتاً اسے ودیعت کیا گیا ہے،جب تک عورت اپنے اس زیور کی حفاظت کرتی رہتی ہے، اس وقت تک معاشرے میں اس کی عزت ،وقار اور عفت قائم رہتی ہے ،معاشرہ پاکیزگی اور امن کا گہوارہ بنا رہتا ہے،جب عورت خلافِ فطرت خائنہ بن کر اپنے اس زیور کو لٹانے پر آمادہ ہو جائے تو معاشرے میں اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں،اس کا مقام ومرتبہ خاک میں مل جاتا ہے اور یہ بے وقعت سی ہوکر رہ جاتی ہے۔

ہرزمانے میں مغرب عورت کے معاملے میں افراط و تفریط کا شکار رہاہے،دور جہالت میں عورت کے حقوق کا اس حدتک استصحال کیا گیا کہ اسے تفریح کا سامان ،قابل نفرت اورخریدوفروخت کی شے سے زیادہ حیثیت حاصل نہ تھی،دور جدید میں” عورت کو برابری کے حقوق "اور” آزادی نسواں” کے خوشنما نظریات نے بنت حوا کو اپنے سابقہ مقام پر لا کھڑا کردیا ہے،تشہیر اور مارکیٹنگ سے لے کر ذرائع ابلاغ تک،رقص وسرور کی محفلیں ہوں یا بازار حسن ہر جگہ یہ صنف نازک تماشہ بنی ہوئی ہے۔ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار اس بے راہ روی کو مزید فروغ اور تقویت کا باعث ہیں۔مادر پدر آزاد معاشرہ عورت کے حقوق کی پامالی کا خطرناک حد تک مرتکب ہوچکا ہے،وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں عورت کو دئیے گئے مقام و مرتبہ کواپنے "خوشنما نعروں "اور” دعووں” کے ذریعے متاثر کریں،چادر اور چاردیواری کے تحفظ سے نکال کر سربازار اس کی عزت کا تماشہ کریں،”برابری "اور” حقوق "کا نعرہ لگا کر عورت کو اس کے فرائض منصبی "تعمیر معاشرت ،افراد سازی اور تربیت اولاد "سے غافل اور دور کرکے کسب معاش کی بھاری ذمہ داریاں اس کے کندھوں پر ڈال دیں۔

ستم بالا ستم یہ کہ آزادی نسواں کے "طلسم "میں عورت کو گرفتار کرکے اس کی عفت،عصمت اور زندگی سے کھیلنا اس آزاد معاشرے کا سب سے خطرناک پہلو ہے،یہی مغربی معاشرے میں خاندانی نظام کی تباہی کی اصل وجہ ہے،”ویلنٹائن ڈے "اور "ہیپی نیو ائیر” جیسے مواقع کا اسلامی ممالک اور باالخصوص گزشتہ "دو دہائیوں "سے پاکستان میں غیرمعمولی فروغ ہمارے اسلامی ومشرقی معاشرے کو تباہ کرنے کی بڑی سازش ہے، جس کا ہمارا سماج متحمل نہیں ہو سکتا ہے،اسلامی تعلیمات میں ایسے حیاء سوز تہواروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اسلام نے جتنی محبت،عزت ،وقار اور مرتبہ ،حقوق اور فرائض عورت کو دیئے ہیں اس کا دوسرے مذاہب اور معاشروں میں تصور تک نہیں ہے۔ارباب اختیار اور اصحاب جبہ و دستار کی سب سے بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بے حیائی ،فحاشی وعریانی کے اس امڈتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھ کرنوجوان نسل کو تباہی سے بچا لیں ،ورنہ جو قومیں اخلاقی وروحانی دیوالیہ کا شکار ہوئیں وہ تاریخ میں شناخت تک کھو بیٹھیں ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے