موبائل اور فیس بک سے پہلے کی محبت

ہمارے ایک دوست فرماتے ہیں کہ ان کی پہلی محبت دس منٹ کی تھی کیوں کہ لڑکی اگلے اسٹاپ پر بس سے نیچے اتر گئی تھی۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے بیس برس پہلے تک گاؤں دیہات میں محبت کرنے کے انداز بالکل مختلف تھے۔ ہم چھوٹے تھے تو بغیر بنیروں والی کچی چھتوں پر چڑھ کر پتنگیں لوٹنے کے انتظار میں ننگے پاؤں کھڑے رہتے لیکن محلے میں کچھ حسن کے پروردہ اور جوانی میں قدم رکھنے والے ’سچے عاشق‘ اپنی عقابی نظروں کے ریڈار میں آنے والی لڑکیوں کو پلاسٹک کے فریم والے شیشے سے لشکارے مارتے رہتے۔ لڑکیاں بھی ایسی سمجھدار ہوتیں کہ ہاتھ والے نلکے کے ساتھ بیٹھ کر سارا سارا دن صرف دو سوٹ ہی دھوتی رہتیں۔ یہ دو سوٹ بار بار چھت کے بنیرے پر ڈالتی، سوکھ جاتے تو دوبارہ دھوتیں اور دوبارہ چھت پر آ جاتیں۔

کچی چھتوں پر ہونے والی یہ خاموش محبت پکی ڈور کی طرح سال ہا سال چلتی۔ جون، جولائی کی گرمی میں کپڑے تین منٹ میں سوکھ جاتے ہیں لیکن چھنو کے کپڑے سارا دن نہ سوکھتے اور کچھ ’پڑھے لکھے عاشق‘ ہائی سکول سے واپسی پر ہاتھ میں انگلش گرائمر کی کتاب لیے سخت گرمی میں دوپہر کے وقت چھت پر ٹہلتے رہتے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ فیل بھی انگلش میں ہی ہوتے اور یہ کہتے سنائی دیتے، ’’محنت تو بڑی کی تھی لیکن پیپر ہی مشکل تھا۔‘‘ امی جی بھی ساتھ ہی گواہی دیتیں، ’’ہاں منڈے نے تے کدی وی ہتھ وِچوں کتاب نہیں سی چھڈی‘‘۔ اصل کہانی یا چھنو کو پتہ ہوتی یا بوٹے کو۔

بہار کا موسم پتنگیں اڑانے کا موسم ہوتا تھا لیکن مخصوص عاشقوں کی پتنگیں صرف اسی چھت پر منڈلاتی رہتی، جہاں کوئی مہہ جبیں سرسوں کا تیل لگانے اور جوئیں نکلوانے کے بعد چُٹیا بنا رہی ہوتی۔ کسی کی فرمائش پر کالا جوڑا پہننا کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایسی طرح طرح کی فرمائشیں اس وقت بھی کی جاتی تھیں۔ اس وقت کے مشہور گفٹ یہ ہوتے تھے کہ چھنو رومال پر اپنے ہاتھ سے کڑھائی کرتی اور کسی نہ کسی طریقے سے بوٹے تک پہنچا دیتی۔ محمد بوٹا بھی جواب میں کہیں نہ کہیں سے ’رنگ برنگے دھاگوں‘ والے پراندے کا بندوبست کرتا اور ایک پلاسٹک کے شاپر میں پیک کر کے گلی میں اس وقت نیچے گرا دیتا جب چھنو نے گلی میں سے گزرنا ہوتا۔

چھنو سلائی کڑھائی کی زیادہ ماہر ہوتی تو موتیوں والا ازار بند (نالہ) بھی گفٹ کے طور پر ملتا۔ اب روایتیں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ اب چھنو صرف پیپسی اور برگر اور ایزی لوڈ پر ہی گزارہ کرتی ہے جبکہ محمد بوٹا یوفون کے پیکجز کرا کرا کے تھک مر جاتا ہے۔

فرمائشوں سے یاد آیا کہ فرسٹ ایئر میں میرے ساتھ ایک بٹ لڑکا بھی پڑھتا تھا۔ دیکھنے میں بہت خوبصورت تھا اور رنگت بھی گوری چٹی تھی لیکن وہ چین سموکر تھا۔ پیریڈ ختم ہوا نہیں اور اس نے باہر جا کر سگریٹ شروع کیا نہیں۔ ایک دن میں پوچھ ہی لیا کہ بٹ یار ابھی تو فرسٹ ایئر ہے، تم اتنے زیادہ سگریٹ کیوں پیتے ہو؟ کہنے لگا یار امتیاز میری گلی کی ایک لڑکی مجھے کہتی تھی کہ تم سگریٹ پیتے بہت اچھے لگتے ہو۔ وہ جب بھی چھت پر آتی تو میں سیڑھیوں کو کنڈی لگا کر چھت پر سگریٹ پر سگریٹ پیتا رہتا، اس کو تو اب کسی اور سے محبت ہو گئی ہے لیکن میرے یہ سگریٹ نہیں چھوٹ رہے۔

پہلے ان مخصوص عاشقوں کی ہر ادا منفرد تھی۔ اسکول کی چھوٹی کے بعد یہ ہر وقت اس تاڑ میں رہتے کہ کب آنکھیں چار یا آٹھ ہوں تو وہ فوراﹰ سے پہلے ہاتھوں سے کتابیں نیچے گرائیں، یا پھر لڑکی کو دیکھ کر جان بوجھ کر راستے میں پڑی کسی چیز سے ٹکرا جائیں۔ مقصد صرف یہ ہوتا کہ کاش پلاسٹک کی چپل والی کسی ’جیمز بانڈ گرل‘ کی نظر ان پر پڑ جائے۔ اگر نقاب کے پیچھے سے کسی کی دبی دبی سی ہنسی نکل جاتی، تو یہ کامیاب محبت کی پہلی نشانی تھی۔ اگر کسی نے محبت کے ایسے نرالے طریقوں کے بارے میں مزید پڑھنا ہے تو وہ ممتاز مفتی صاحب کی علی پور کا ایلی پڑھے۔

لڑکیوں کے محبت کے انداز بھی عجیب و غریب ہوتے تھے۔ چھنو جب بھی محمد بوٹے کو دیکھتی یا تو گود میں اٹھائے ہوئے چاچی صغریٰ کے بچے کو چومنا شروع کر دیتی یا پھر اسے ہوا میں اچھال اچھال کر گلے لگا لیتی۔ گاؤں کا جو لڑکا تھوڑا پڑھ لکھ جاتا، وہ ان تمام لڑکوں کے محبت نامے یا لو لیٹر لکھتا، جو پیچارے نہ خود پڑھ سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے تھے۔ لڑکیوں نے بھی اپنی ’مخصوص کاتب‘ رکھی ہوتی تھیں۔ ان معاشقوں کا سب سے زیادہ فائدہ انہی لوّ لیٹر رائٹروں کو ہوتا تھا۔ جب چاہتے پوری کی پوری گیم الٹ کر رکھ دیتے تھے۔

سب سے رسکی کام لوّ لیٹر کا مطلوبہ ہدف تک پہنچانا ہوتا تھا۔ یہ واقعی مشن امپاسبل ہوتا۔ گلی میں چلتے چلتے ہاتھ سے خط گرانا اور اس بات کا بھی خیال رکھنا کی کسی اور کے ہاتھ نہ لگ جائے اور محبت نامہ کسی چھوٹے سے پتھر کے ساتھ باندھ کر کسی کی چھت پر یا صحن میں پھینکنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ جس دن پتھر کی ڈائریکشن تبدیل ہوتی، وہ دن بھی بوٹے کی محبت کا آخری دن ہوتا۔ سب سے بڑی بدقسمتی وہ ہوتی، جب کوئی چار سال کا بچہ خط چھنو کی بجائے اس کی اماں کو دے آتا اور ساتھ یہ بھی کہتا کہ ’پا بوٹے‘ نے بھیجا ہے۔

جو سب سے آخر واقعہ مجھے یاد ہے جامع مسجد موتی کا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ خواتین بھی تراویح کے لیے آ سکتی ہیں لیکن ایک دن تراویح سے پہلے کسی ’چھنو‘ نے اوپر والی چھت سے لوّ لیٹر نیچے پھینک دیا۔ مطلوبہ مومن تو اسے نہ پکڑ سکا لیکن جس کے ہاتھ میں آیا، اس نے مولوی صاحب کو دے دیا اور پھر مولوی صاحب نے نئی نسل کو ایک طویل لیکچر سنایا۔

لیکن میں نے گاؤں میں کبھی چھنو یا بوٹے کی محبت شادی کی صورت میں شاذو نادر ہی کامیاب ہوتی دیکھی ہے۔ لیکن ایک بات جو مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی وہ یہ کہ جب بھی کوئی چھنو، بوٹے سے چھپ چھپا کر یا دبے پاؤں سے چھتیں پھلانگ کر ملاقات کے لیے آتی تھی تو باتیں کرتے کرتے ہوئے اپنی کانچ کی چوڑیاں پتہ نہیں کیوں توڑتی رہتی تھی ؟

ہاں لیکن یہ مجھے ضرور پتہ ہے کہ ہر ’سچا عاشق‘ چھنو کی شادی والے دن بھاگ بھاگ کر سارے کام کیوں کروا رہا ہوتا تھا اور کرسیاں عین لائن میں جوڑ رہا ہوتا تھا لیکن یہ سب موبائل اور فیس بک سے پہلے کی باتیں ہیں۔

محبت کے سب سے زیادہ عہد و پیماں کسی پھوپھی یا خالہ کے بیٹے کی شادی پر ہوتے تھے۔ لوگ تین تین دن پہلے بمعہ اہل و عیال شادیوں پر پہنچ جاتے تھے، اٹھتی محبتیں آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنا محبوب تلاش کرتیں اور محبت کا اظہار عین اس وقت ہوتا، جب واپسی کے لیے کپڑوں کے بیگ بند چکے ہوتے۔ ٹیلی فون بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ دوبارہ ملنے کا واحد موقع کسی دوسرے کزن کی شادی ہی ہوتی تھی۔ لیکن دوسرے کزن کی شادی کا مزا اس وقت پھیکا پڑ جاتا، جب یہ پتا چلتا کہ ’چھمو‘ کے گھر والے دور دراز کے رشتے دار ہیں، ان کو تو کسی نے بلایا ہی نہیں۔ باقی سبھی شادی پر ڈانس کرتے، ماہیے اور ٹپے گاتے لیکن ’بوٹے‘ کی ایک ہی رٹ ہوتی، میری طبیعت خراب ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے