دہشتگردی کی نئی لہر

وطن عزیز میں دہشتگردی کی نئی لہر سات فروری کو چمن میں بم دھماکہ سے شروع ہوئی۔۔ 16فروری دو ہزار سترہ تک دس دنوں میں دہشتگردی کے 9حملوں میں 129افراد لقمہ اجل بن گئے۔۔زخمیوں کی تعداد چار سو سے زیادہ ہے۔۔۔ گیارہ فروری کوباجوڑ میں ایک شخص جاں بحق ہوا۔۔ بارہ فروری کو دہشتگردی کے تین واقعات ہوئے۔۔ بونیر میں دو افراد کی جان چلی گئی۔کراچی میں سماء ٹی وی کی ڈی ایس این جی کا اسسٹنٹ کیمرہ مین گولیوں کا نشانہ بن گیا۔۔۔ جنوبی وزیرستان میں بھی تین افراد شہید ہوئے۔۔

تیرہ فروری بھی قوم پر بھاری گزرا ۔۔ لاہور کے چیئرنگ کراس کے قریب فارماسوٹیکل کمپنیوں کے مالکان اور میڈیکل سٹورز والوں کا مشترکہ احتجاج جاری تھا کہ خود کش حملہ آور نے عین اس جگہ پر خود کو اڑا دیا جہاں ڈی آئی جی ٹریفک مبین اور ایس ایس پی ٹریفک مظاہرین سے مزاکرات میں مصروف تھے۔۔ دونوں پولیس افسروں سمیت تیرہ افراد اس واقعہ میں شہید ہو گئے۔۔ادھر کوئٹہ میں تیرہ فروری کو ہی دہشتگردی کا بڑا منصوبہ تو پکڑا گیا تاہم بم ناکار ہ بنانے کے دوران پھٹ گیا جس سے دو بم ڈسپوزل اہلکار جاں بحق اور آٹھ زخمی ہوگئے۔۔

پندرہ فروری کومہمند ایجنسی میں دہشتگردوں نے پھر آگ اور خون کا کھیل کھیلا جس میں پانچ انسانی جانیں ضائع ہوئیں
سولہ فروری یقینا پاکستان کی تاریخ کاتاریک ترین دن تھا ۔۔ سیہون شریف میں لعل شہباز قلندر کے دربار پر خود کش آور نے خون کی ہولی کھیلی ۔۔ جس میں آج تک یعنی سترہ فروری کی رات تک مرنے والوں کی تعداد 88ہو چکی ہے۔۔ڈھائی سو افراد زخمی ہیں جن میں سےاب بھی متعدد زخمیوں کی حالت نازک ہے۔۔۔دہشتگردی کی نئی لہر کی یہ سب سے بڑ ی کارروائی تھی۔۔ جس پر پوری قوم سوگوار ہے۔۔ حکمران ششدر ہیں۔۔ فوج برہم ہے۔۔ مگر دشمن ہے کہ چھپ کے وار کرتا جارہاہے۔۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سولہ فروری کو ہی فوری اور بے رحم جواب دینے کا اعلان کردیا۔۔ ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد بھی سیل کردی گئی ۔۔سترہ فروری دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کیلئے بھاری دن رہا۔۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کومبننگ آپریشنز میں کراچی سے خیبر تک پے در پے کارروائیوں میں ایک سو دہشتگرد مارے جا چکے ہیں۔۔پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔۔ وہ شاید اس لئے بھی کہا گیاہے کہ آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایک سہولت کار کو میڈیا کے سامنے پیش کیا ہے جس نے کیمرے کے سامنے سہولت کار ہونے کا اعتراف کیا ۔۔ دہشتگرد کے مطابق وہ خود کش حملہ آور کو طور خم سے لے کر آیا تھا۔۔۔اب کی بار ایک نئی پیش رفت یہ سامنے آئی کہ افغان حکام کی دفتر خارجہ کی بجائے جی ایچ کیو طلبی ہوئی۔۔۔ ڈانٹ ڈبٹ کے ساتھ انھیں 76دہشتگردوں کی فہرست تھمائی گئی ہے۔۔

افغان حکومت سے مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ ان دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کریں یا پکڑ کر پاکستان کے حوالے کریں۔۔ اور سچ یہ ہے کہ افغان حکومت خودامریکی اور اتحادی افواج کی بیساکھیوں پر کھڑ ی ہے۔۔افغانستان کے چالیس فیصد حصہ پر طالبان اور دیگر جنگجو گروپوں کا قبضہ ہے۔۔خود افغان فورسز ان باغیوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔۔۔افغانستان کے ایک بڑے حصہ کاسٹرکچر تباہ ہو چکاہے ۔۔ یوں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ جنگ و جدل کی وجہ سے افغانستان دہشتگردو ں اور جرائم پیشہ افراد کی جنت بنا ہوا ہے۔۔

افغانستان کی ہر لحاظ سے کمزور ترین حکومت کی ڈور صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ہاتھوں میں ہے ۔۔ اور خود عبداللہ عبداللہ پاکستان کے دشمن بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔۔ افغانستان میں بھارتی را کے دہشتگردی کے منصوبوں کی معاونت افغان حکومت کررہی ہے۔۔ان عقل کے اندھوں کو یہ بھی یاد نہیں کہ اب بھی پاکستان میں بیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین موجود ہیں جن کی پاکستان کئی دہائیوں سے مہمان نوازی کررہاہے۔۔

پاکستان کے پاس بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردی کرانے اور مداخلت کے ثبوت موجود ہیں جن کو عالمی برادری سے بھی شیئر کیاگیا۔۔ بھارت کا حاضر سروس افسر کلبھوشن تو اس کی جیتی جاگتی مثال بھی موجود ہے۔جو پاکستان میں قید ہے اور اپنے کالے کرتوتوں کااعتراف بھی کر چکاہے۔۔ ایسے میں افغان حکومت بھی بھارتی برائی میں سہولت کار ہے۔۔ امریکی دوستی بھی بغل میں چھری منہ میں رام رام کے مصداق ہے۔۔امریکی ڈرون فاٹا میں بچوں اور عورتوں کو ہدف بنا کر انھیں القاعدہ رہنماوں کے سہولت کار اور میزبان کہہ کہہ کر مارتے رہے ہیں لیکن ملا فضل اللہ سمیت پاکستان سے افغان بھاگ کر جانے والے ان کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

حکومت پر نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ کرانے کا الزام ہے تو اس بات میں حقیقت بھی ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے دور میں آپریشن ضرب عضب سے دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں پر جو پریشر بڑھا تھااسے برقرار رکھنے کی بجائے تھوڑا ریلیکس ہو نے سے صورتحال میں منفی تبدیلی کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔۔ بے رحم جواب اور جارحانہ ردعمل ہی دہشتگردوں کے بڑھتے قدم روک سکتاہے۔۔ اب کی باربلاتفریق کارروائی نہ ہوئی تو بگڑنے والی صورتحال کو پھر معمول پر لانا مشکل ہو جائے گا۔۔

آرمی چیف کی جانب سے افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل جان نکلسن سے یہ کہنا کہ افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی کی منصوبہ سازی۔۔ سہولت کار ی ہماری برداشت کی پالیسی کیلئے امتحان ہے دراصل ایک بڑا پیغام ہے۔۔پاک افغان سرحد پر دہشتگردی کی ذمہ داری تسلیم کرنے والی تنظیم کے کمپاونڈز کو ہدف بنانا بھی پاک فوج کے موڈ کا واضح اظہارہے۔۔دہشتگردوں کا پھر سر اٹھانا پاکستان اور پوری قوم کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔۔ قوم کو ایک بار پھرمتحد ہو کر فوج کا ساتھ دینا ہوگا۔۔حکمرانوں کے پاس بھی اب کسی سہل پسندی کا موقع نہیں ہے۔۔ شہباز شریف سے میڈیا کی طرف سے یہ سوال سامنے آنا کہ چاروں صوبوں میں فوجی آپریشنز ہو سکتے ہیں پنجاب میں کیوں نہیں دراصل پوری قوم کا سوال ہے۔۔ دہشتگردی ختم کرنی ہے تو صوبائیت ، پسند نا پسند اور ترجیحات کا آپشن ختم کرنا ہوگا۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے