کشمیر،لبریشن سیل اورپامال بیانیے

ہم حق خود ارادیت کی جنگ لڑیں گے، مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر دنیا کی جنت ہے لیکن ہندوستان کے ظلم و تشدد نے اسے جہنم بنایا ہوا ہے۔کشمیر ہندوستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا حصہ ہے۔ہندوستان کشمیر کی پہچان ختم کرنا چاہتا ہے۔ہندوستان کشمیر کی شناخت ختم کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیر میں رائے شماری ہونی چاہئیے ۔ سوڈان، اسکاٹ لینڈ اور مشرقی تیمور میں رائے شماری ہوئی تو کشمیر میں کیوں نہیں ہو رہی ۔

یہ ان تقاریر کا خلاصہ ہے جو گزشتہ روز کشمیر لبریشن سیل کے زیر اہتمام ’’ کشمیر کا واحد حل رائے شماری ‘‘(Right to self Determination is only solution of Kashmir Dispute) کے عنوان سے بین الجامعات انگریزی زبان میں ہونے والے تقریری مقابلے میں درجن بھر طلبہ و طالبات کی طرف سے کی گئی ۔ تقاریر میں اس بات کا مطالبہ اور امید کا اظہار بھی کیا جاتا رہا کہ آزاد حکومت مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورمز پر عمدہ طریقے سے اجاگر کرے گی۔

تمام تقاریر میں طلبہ پہلے کشمیر کے حسن کی بھرپور عکاسی کرتے، پھر وادی کے مظالم کی بات کی جاتی اور پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی وادی تک ہی محدود کر دیا جاتا۔طلبہ کی تقاریر سننے بعد احساس ہوا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی کشمیر کے بارے میں آگاہی انتہائی کم ہے ۔نصابی کتب سے آگے بڑھ کر تحقیق نہیں کی گئی۔وہی پڑھا جو انہیں لکھ کر دیا گیا کیونکہ تمام تقاریر کا بیانیہ تقریبا ایک سا تھا۔ جس میں مسئلہ کشمیر کو صرف ’’بھارتی مقبوضہ وادی کے مسلمانوں کا مسئلہ‘‘ تک محدود رکھا گیا۔(تمام تقاریر فیس بک پر لبریشن سیل کے پیج پر موجود ہیں)۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی جن قراردادوں کا ذکر دوران تقاریر کیا گیا ، ان میں پوری ریاست (تقریبا 86 ہزار مربع میل) کا مسئلہ ہے نہ کہ صرف وادی کا۔ تاریخی حقائق سے دوری ہی ہماری پسپائی کاسبب بنتی نظر آ رہی ہے۔

آگاہی نہ ہونے کا بڑا سبب تاریخ سے دوری اور تحقیق کا نہ ہونا ہے ورنہ شاید یہ کبھی نہ کہا جاتا کہ مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ تقسیم ہند کے فارمولا (3جون 1947 ) پر عملدرآمد 15 اگست کو مکمل ہو گیا تھا اور اس سے قبل کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کے ساتھ Still stand agreement کیا تھا۔

تقسیم ہند سے کچھ روز قبل کاایک اور قابل ذکر واقعہ ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ جاننے کیلئے کشمیر کا دورہ کیا اور اس کی مہاراجہ سے ایک ملاقات ہوئی ، جس میں اس نے مہاراجہ سے بھارت سے الحاق کے حوالے سے بات کی لیکن مہاراجہ نے جواب نہ دیا ، پھر جب لارڈ ماونٹ بیٹن کشمیر سے واپس جانے لگا تو مہاراجہ سے جواب جاننے کی کوشش کی (کیونکہ ریاستوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ 15 اگست سے قبل کرنا تھا) جس پر مہاراجہ نے ملاقات نہ کی اور پھر دہلی چلا گیا اور اسی دوران پندرہ اگست کو تقسیم ہند فارمولے کے مطابق ہندوستان کی تقسیم ہو گئی ،اس کے بعد جو جبری قبضے ہوئے وہ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق نہ تھے ۔

کشمیر کے ساتھ بھی یہی ہوا پاکستان کے ساتھ still stand agreement یا معائدہ قائمہ کے باوجود تقسیم کے دو ماہ اور آٹھ دن بعد 22 اکتوبر کوقبائلیوں نے یلغار کی اورکشمیر میں لوٹ مار شروع کر دی۔ اس وقت تک کشمیر ایک آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر کام کر چل رہا تھا ۔قبائلی حملے کے خوف سے مہاراجہ نے ہندوستان سے فوجی مدد مانگی اور پھر اسی خانہ جنگی کی حالت میں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ چلا گیا ، جنگ بندی ہوئی اور یہ ریاست دو ملکوں کے درمیان تنازع بن گئی حالانکہ پاکستانی قبائلیوں کا حملہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسیوں کے مکمل برعکس تھا۔

قائد اعظم نے 1944نشاط باغ سرینگر میں کشمیری نوجوانوں کے ایک وفد سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’آپ لوگوں کوپاکستان کا نعرہ نہیں دینا چاہئیے۔آپ کیلئے پاکستان کے ساتھ الحاق ٹھیک نہیں ہے ۔جو سیاسی جدو جہد مسلم لیگ کر رہی ہے وہ برٹش انڈیا کی سیاست ہے ،اس میں ملوث نہ ہو جائیں ۔ آپ کی ایک ریاست ہے ، آپ کا راجہ ہندو ہے، ہم تو ہماری جد وجہد سے ایک مخمصہ میں پڑے ہوئے ہیں ، اب آپ بھی دوسرے مخمصہ کا شکار نہ ہو جائیں ۔ آپ کا نعرہ ٹھیک ہے ، آپ آزاد کشمیر پر ہی ڈٹے رہیں۔‘‘

لبریشن سیل کی تقریب میں‌ تقاریر کرتے ہوئے کچھ طالبات نے کہا ’’کشمیر ہندوستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا حصہ ہے‘‘اگر نصابی کتب سے ہٹ کر بھی کشمیر کا مطالعہ کیا ہوتا تو مذکورہ موضوع پر بات کرتے ہوئے شاید ایسا غیر محتاط جملہ نہ کہا جاتا کیونکہ ایسا کہنا آپ کی رائے (رائے شماری میں ووٹ)ہو سکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے اقوام متحدہ میں ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ایک اورنقشہ ریاست جموں و کشمیر کا موجود ہے جو تقریبا 86 ہزار مربع میل کی الگ اور دو ملکوں کے درمیان متنازع ریاست کو ظاہر کرتا ہے اور اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔

یعض تقاریر میں مشرقی تیمور ، جنوبی سوڈان ،اسکاٹ لینڈ کی مثالیں دی گئیں اور اب فلسطین کی مثال بھی دی جاتی ہے ، یہاں تک بات درست ہے کہ مشرقی تیمور کے معاملے میں اقوام متحدہ نے پھرپور کردار ادا کیا۔اسکاٹ لینڈ میں رائے شماری ہوئی ، لیکن یہاں ایک چیز واضح نظر آتی ہے جن قوموں یا خطوں کے حوالے سے اقوام متحدہ نے کردار ادا کیا انہوں نے متحد ہو کر اپنی آواز اٹھائی اور کسی دوسرے پر انحصار کے بجائے خود کوشش کی۔ ہم تو دنیا کو آج تک یہ نہیں بتا سکے کشمیر کا مسئلہ ہے کیا؟ اکثر اسے بھارتی مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق اور وادی کے مسلمانوں پر ظلم کا مسئلہ بتایا جاتا ہے ، کبھی اسے سیاسی مسئلہ بتایا جاتا ہے اور تعلیمی اداروں میں اسے دوقومی نظریہ کے سانچے میں ڈھال کر پیس کیا جاتا ہے۔

اب تو ہماری غلطیوں (شملہ معاہدہ) کی وجہ سے اقوام متحدہ بھی اسے سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ جنرل اسمبلی میں تقریر توہو جاتی ہے لیکن سیکیورٹی کونسل میں کشمیر پر بات تک نہیں کی جاتی اور ہم رونا روتے رہتے ہیں کہ کوئی ہماری آواز نہیں سنتا۔آج بڑی مثال فلسطین کی دی جاتی ہے کہ دنیا ان کی بات سنتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ اقوام متحدہ میں انہیں مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ ہماری آواز اس وقت تک دنیا نہیں سنے جب تک ہمیں اقوام متحدہ میں کم ازکم ایک مبصر کی حیثیت نہیں مل جاتی اس کیلئے پاکستان کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ آزاد حکومت کو اسلام آباد سے باہر بھی متعارف کروائے اور اس آزاد حکومت کو ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور پر اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ دلوانے کیلئے اقدامات کرے۔

اس حوالے سے اگر قائداعظم محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری اور پھر آزادکشمیر کے صدر کے . ایچ خورشید مرحوم کا ذکر نہ کیا جائے تو بددیانتی ہو گی۔بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کشمیر کو اقوام متحدہ میں مبصر کی حیثیت دلوانے کیلئے لابنگ کی اور کئی ملکوں کو اس موقف کی حمایت کرنے پر آمادہ بھی کر لیا تھا لیکن بدقسمتی کے ان کو صدارت سے فارغ کر دیا گیا۔ اگر آزاد حکومت کو پاکستان اقوام متحدہ میں مبصر کی حیثیت کا درجہ دلوانے میں کامیاب ہو جائے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیر پرپاکستان کے موقف کے استحکام کا باعث بھی بنے گی ۔

دوران تقریب بھارت کی طرف سے ہونے والے مظالم پر دستاویزی فلم دکھائی گئی جس کی اسکرین اسٹیج کے پیچھے ہونے کے باعث اسٹیج پر موجود مہمانان بالخصوص وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر گردن گُھما کر ویڈیو دیکھنے کی کوششیں کرتے رہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیز کو کشمیر کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے چاہئیں تاکہ یہاں سے لوگ تیار کر کے دنیا میں بھیجے جائیں جو بیرون دنیا کو کشمیریوں کا موقف سمجھا سکیں۔

فاروق حیدر نے روایتی پالیسی سے ہٹ کر سخت باتیں کیں اور کہا کہ ہم اپنی قوم کو ڈرامے دکھا کر دہلی فتح کرنے کی باتیں کرتے رہے اور ہندوستان سفارتی سطح پر کام کر کے ہم سے کہیں دور نکل گیا۔ہندوستان پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے افضل گورو کو پھانسی دی حالانکہ اس پر کوئی جرم ثابت نہ ہوا تھا۔ انہوں نے بھارتی مظالم کا ذکر کرتے ہوئے جب کہا کہ ہماری خواتین کی آبرو ریزی کی گئی تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا جس پر خاصی حیرت ہوئی کہ جس بات پر دکھ ہونا چاہئیے تالیاں بجائی جا رہی ہیں۔

تقاریر میں طلبہ نے عملی اقدامات کرنے کا اعادہ کیا لیکن کچھ ہی دیر بعد اسی حال میں ایک اور پروگرام ہوا جس کا تمام طلبہ کو بتایا بھی گیا کہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے آنا ہے اور کشمیر پر بولنا ہے لیکن دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ ان کو سننے کیلئے شاید پچاس افراد بھی موجود نہیں تھے ، اسی پروگرام میں سابق وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ آج معلوم ہوا کہ دنیا ہماری بات کیوں نہیں سنتی کیوں کہ ہم صرف اس لئے آتے ہیں کہ تقریر کر کے تصاویر بنوا سکیں باقی کوئی ہمدردری نہیں۔ عملی طور پر آزاد کشمیر میں بند کمروں میں تقاریر کے سوا شاید کچھ بھی نہیں کیا جاتا ۔اب تو ہم کشمیر کے حوالے سے احتجاج کیلئے تیار نہیں ہوتے لیکن دعوے بہت کرتے ہیں۔

آزاد حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں میں کشمیر کے حوالے سے تقریری مقابلے کروانا قابل ستائش بات ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلہ کے حوالے سے مکمل معلومات اور آگاہی کیلئے تعلیمی اداروں میں ہی ایسے سیمنارز منعقد کروائے جائیں جن میں تاریخی حقائق بتائے جائیں کیونکہ سچ جانے بغیر منزل کی طرف پیش قدمی مشکل ہو گا اور ساتھ ہی نئے اسمبلی ممبران کو بھی کشمیر کی تاریخ سے آگاہی کیلئے سیشن کروائیں ا، س کا احساس اس وقت ہوا جب ایک تقریب میں ممبر اسمبلی سحرش قمرنے کہا کہ کشمیر صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے کسی خطے کا نہیں۔اور جب ان سے وضاحت جاننا چاہی توانہیں کشمیر کا مکمل رقبہ تک معلوم نہیں تھا۔اس لیے کشمیر کے بارے میں‌حقیقی آگاہی کے لیے ہمیں پامال نصابی کتابوں سے ذرا آگے بڑھنا ہو گا اور ٹھوس تاریخی مطالعے کی روایت قائم کرنا ہوگی . لبریشن سیل یا آزادی کشمیر کی جدوجہد کے نام پر قائم اداروں کو چاہیے کہ وہ ابلاغ کے جدید طریقوں کو بروئے کار لاکر کم وقت میں‌زیادہ اور موثر نتائج کے لیے کام کریں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے