آپریشن ضرب عضب کے کمر ٹوٹے بھگوڑوں نے یک دم اپنے بلوں سے سر نکال لیا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں تسلسل اور انتخاب تشویشناک۔ ایک ہفتے میں دس خود کش حملے ، سو سے زائد پاکستانی جاں بحق۔لاہور، سندھ، باجوڑ مہمند ایجنسی، کوئٹہ اور پشاورپانچ صوبے لیکن ٹارگٹ مختلف۔ عدلیہ۔ انتظامیہ۔ مزار۔ فورسز حتی کہ عام شہری۔ یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم ہیں اور ہر جگہ ہیں۔ تانے بانے جڑے تو ڈوریاں افغانستان سے جا ملیں۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکہ کے سابق وزیر دفاع چک ہیگل نے نے 2011ء میں کیمرون یونیورسٹی میں افغانستان سے متعلق ایک مذاکرے میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی دہشت گردوں کو افغانستان میں تربیت دیکر پاکستان میں دہشت گردی کراتی ہے۔ صرف یہی نہیں افغانستان میں حقانی نیٹ ورک،تحریک طالبان پاکستان،جماعت الاحرار اور القاعدہ کے ٹھکانے موجود ہیں جو دہشت گردی کے لئے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔
جب پاکستان نے چھہترانتہائی مطلوب طالبان دہشت گردوں کی فہرست افغان حکومت کو تھما دی اور یہ بھی سمجھا دیا کہ اگر افغان حکومت کے ہاتھ بندھے ہیں تو ہم خود کاروائی کریں گے۔ جواب میں مودی سے پرانے یارانے کے مارے اشرف غنی نے طالبان کے خلاف کاروائی پر عذر داری کی اورساتھ ہی پچاسی انتہائی مطلوب پاکستانیوں کی فہرست ارسال کر دی۔ افغان حکومت کی ہٹ دھرمی پر پاک فوج نے پاک افغان سرحد پر کاروائی کر ڈالی اور پاک افغان بارڈر کو تمام تر نقل وحرکت کے لیے بند کر دیا۔
دو ہی دن میں افغان حکومت دو متضاد موقف کے ساتھ سامنے آئی۔ ایک طرف پاک آرمی کی کارروائی روکنے کے لیےدھمکی آمیز رویہ جبکہ دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی کا بیان افغانستان میں جاری جنگ خانہ جنگی نہیں بلکہ یہ منشیات فروشوں ، دہشت گردوں اور ریاستوں کے مابین غیر اعلانیہ جنگ ہے۔ دوسری طرف اندرونی سیکورٹی اقدامات کا یہ حال ہے کہ ایک نیشنل ایکشن پلان ہوتا تھا جو شاید کراچی کی گلیوں میں خاک نشین ہو گیا تھا ۔ اب اسے جگا کر دوبارہ منہ دھلا کر نیا لباس پہنا کر عوام کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔
ہماری سیاسی قیادت نے عسکری قیادت کے کاندھے پر اندرونی اور بیرونی محاذوں پر لڑنے کی ذمہ داری ڈال کر خود سپریم کورٹ میں شریف فیملی کا کیس لڑنے کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے ۔ضرب عضب کے نتیجے میں ایک صوبے سے بھاگے ہوئے دہشت گرد افغانستان بھاگے تو بھاگے لیکن پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرف بھی جا چھپے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب سمیت صوبے کے اٹھارہ سے زائد اضلاع میں دہشت گردوں کے دو سو بیس سے زائد سلیپر سیلز کا انکشاف ہوا۔
اس کے علاوہ دوہزار سولہ میں گلشن اقبال حملے میں سہولت کار سے لے کے حملہ آور مقامی نہیں تھے بلکہ سب کے سب باہر سے آ کر کراروائی کر کے گئے تھے لیکن حالیہ مال روڈ حملے میں سہولت کار مقامی تھا۔ جس نے خود کش جیکٹ اور حملہ آور خیبرپختونخوا سے پنجا ب میں داخل کرایا ۔ راستے میں چیکنگ کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب رہے۔
اب جب سب دہشت گردی کا منہ زور گھوڑا بد مست ہو گیا تو ہمارے حکمرانوں نے اپنی بیٹھک لگا لی۔ اور گھسی پٹی ملاقاتوں کے علاوہ صوبائی ایپکس کمیٹی کا اجلاس بھی بلا لیا۔ جس میں کئی فیصلے لیے گئے مثلاتمام انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تعاون بہتر بنایا جائے گا اور صوبائی انٹیلی جنس کمیٹی کا اجلاس باقاعدگی سے ہو گا۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف بلا امتیاز ہر جگہ کا روائی کی جائے گی ۔ اور ان کے تمام چھوٹے بڑے کارندوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت کے تمام ذرائع بند کیے جائیں گے۔ اور سی پیک کے منصوبوں اور غیر ملکی شہریوں کی سیکورٹی کو مزید فول پروف بنایا جا ئے گا۔ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کاروائی کے لیے رینجرز کو ساٹھ سے نوے دنوں تک اختیار دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
لیکن سوال تو یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں آپریشن پر اپوزیشن کا دیرینہ مطالبہ اب تک مسلسل نظر انداز کیوں کیا جا رہا تھا؟ جبکہ راجن پور کے کچے کے علاقے میں جرائم پیشہ چھوٹو گینگ نیٹ ورک کے خلاف رینجرز آپریشن سے یہ بات واضح ہو چکی تھی پنجاب دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔
رینجرز کے اختیارات اور حیثیت کیا ہوگی جبکہ یہ پہلے سے طے کیا جا رہا ہے کہ ان کو محدود پیمانے پر کاروائی کرنے کی اجازت ہو گی؟ ہر بار حکمرانوں کو سنجیدہ اقدامات کے لیے معصوم پاکستانیوں کا خون کیوں چاہیے ہوتا ہے؟
دہشت گردوں کو متحرک ہونے سے پہلے گرفتار یا ختم کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ صرف اطلاع یا الرٹ کافی ہے؟