جہاد سے ردِّالفساد تک( حصہ اول)

موہن داس کرم چند گاندھی جسے ہندوستان کی تاریخ مہاتما گاندھی کے نام سے جانتی ہے۔ ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے ایک انمٹ اور ناقابلِ فراموش کردار تھے۔ مہاتما گاندھی کے افکار، انکی تحریک سے بھلے کسی کو اختلاف ہو لیکن انکی انسان دوستی اور آزادی کیلئے جدو جہد سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔

یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ جب مہاتما گاندھی کے بڑے بیٹے ہیرا لعل گاندھی نے اسلام قبول کیا۔اور اس بار ے میں جب گاندھی جی سے پوچھا گیا۔ تو گاندھی جی نے کچھ یوں جواب دیا۔ : کہ میں اسلام کو اپنے مذہب کی طرح ایک پوتر اور سچا دھرم مانتا ہوں۔ مجھے بڑی خوشی ہوتی کہ اگر میرا بیٹا اسلام کی سچائی سے متاثر ہوکر مسلمان ہوتا اور اسمیں انکا کوئی ذاتی مفاد نہ ہوتا۔ لیکن افسوس کہ اس نے اسلام اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قبول کیا۔۔۔ گاندھی جی کا اشارہ اس قرض کی طرف تھا جو کہ اس کے بیٹے نے
کسی مسلمان سے لیا ہوا تھا اور وہ اسکو معاف کرانے کے چکر میں مسلمان ہوگئے تھے۔

گذشتہ دنوں پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر پاکستان آرمی کی طرف سے دہشت گردوں اور جہادی ذہنیت کے تشدد پسندوں کیخلاف شروع کئے گئے آپریشن ردِّ الفساد کی بریکنگ نیوز دیکھ کرجہاں خوشی کے ساتھ زبان پر یہ شعر تھے کہ دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو۔۔۔۔۔۔آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو وہاں پر ذہن میں عجیب و غریب اور طرح طرح کے سوالات بھی گردش کرنے لگے۔جہاد افغانستان سے لیکر آج کے منظم دہشت گردی اور اس میں شامل نام نہاد جہادیوں کی انسان دشمنی اور وحشت و بر بریت تک کے کئی مناظر دل و دماغ کے گوشوں کو پراگندہ اور متحیر کر رہے تھے۔میں سوچ رہا تھا کہ جہاد جیسے مقدس فریضے کو اگر کوئی اللہ اور رسول کی رضا کے لئے ادا کرتا ہے تو وہ بعد میں پھر اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کا بلا تفریقِ مذہب اور مسلک کے دشمن کیسے بن سکتا ہے۔ کیسے ایک انسان حیوانیت کے درجے سے بھی نیچے گر کراپنے اعمال سے انسانیت کوشرمسار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ جن ظالموں اور انسان دشمن ٹولیوں کے خلاف ہماری فوج آج ملک کے طول و عرض میں نبرد آزما ہے ان کے تانے بانے اور کڑیاں افغانستان میں بیٹھے کسی دہشت گرد جماعت یا فکر یا پھر ملک میں موجود متشدد اور انتہاء پسند سوچ رکھنے والے مذہب کے نام پر انسانیت کی توہین کرنے والے افراد یا گروہوں سے کہیں نہ کہیں ملتی نظر آتی ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ کل تک اللہ کے نام پر جان دینے والے آج اللہ کی مخلوق کے جان کے دشمن بن گئے؟

لامحالہ ذہن میں مہاتما گاندھی کے تاثرات اپنے بیٹے کے بارے میں دل و دماغ کے پردے پر گھومنے لگے۔ کہ اگر یہ لوگ نظریاتی اور فکری طور پر جہاد اللہ کی رضا کے لئے کرتے تو اس عظیم مقصد کے حصول کے بعد کبھی اس روش پر نہ چلتے۔ لیکن انکے جہاد میں اپنے ذاتی مفاد کی ملاوٹ تھی لہذا انکے یہ ذاتی مفاد جب اللہ کے نام پر پورے نہیں ہونے لگے تو پھر اللہ کے انسانوں کے قتلِ عام اور ان پر اپنی مرضی خوف و دہشت کے ساتھ مسلط کرنے میں ان درندہ نما انسانوں کو اپنے مفاد نظر آئے۔

جو لوگ جہاد کے مقدس نام پر افغانستان کی لڑائی میں فریق بنے ۔ بظاہر تو وہ اللہ اور رسول کی خوشنودی کے نام پر میدان میں اُترے تھے لیکن آج انکے اطوار اور مفاد پرستی پر مبنی انسان دشمنی اور حیوانیت دیکھ کر یہی لگتا ہے ۔ کہ شاید یہ لوگ اس وقت بھی جہاد کو اپنے مفادات کا ایک ذریعہ سمجھ کر میدان میں اُترے تھے۔ انکے سامنے جہاد کے مقدس نام پر منتہائے نظر اپنے مفادات کا حصول تھا۔ اور اس مقصد کے لئے انہوں نے پاکستان کے سادہ لوح لوگوں کو اللہ اور رسول کے نام پر بے رحمانہ اس آگ میں جونکا۔ اور آج تک اُسی آگ کا ایندھن بنا کر ان لوگوں کو اپنے اداروں اور اور اپنے عوام کے خلاف بخوبی استعمال کر رہے ہیں۔
میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ کہ ایسا کیوں ہوا۔ یقیناًہمارے پالیسی ساز اداروں اور مقتدر قوتوں نے جو اپنی دانست میں صحیح سمجھا شاید وہ اس وقت کی ضرورت تھی۔ لیکن اُس ضرورت کو نہایت غلط اور غیر فکری طریقوں سے پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جن لوگوں کی زندگی میں اسلام کا دور دور تک شائبہ نہیں۔ وہ دین کی سر بلندی کی جنگ لڑنے لگے۔ جن لوگوں کو کبھی بنیادی انسانیت سے واقفیت نہیں تھی وہ انسان اور انسانیت کی آزادی کے علمبردار بن گئے۔ جن لوگوں کو خدا پرستی کے مفہوم سے کبھی آشنائی نہیں ہوئی وہ خدا کے نام پر ملکوں کی آزادی کی بات کرنے لگے۔ جن لوگوں نے اسلام جیسے دین کو اپنی ذاتی مسلک اور فرقے کی جاگیر بنا کر اپنے معتقدین کے سامنے پیش کیا وہ دنیا کے سامنے اسلام کا آفاقی چہرہ پیش کرنے کے ذمے دار بن گئے۔ یہی وہ بنیادی غلطی تھی کہ جسکا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ایسے لوگ نہ ملک و ملت کے خیر خواہ ہوتے ہیں نہ انکے سامنے انسانی اقدار کی کوئی قیمت ہوتی ہے۔ نہ یہ لوگ اللہ اور رسول کے دینِ رحمت کے پاسدار ہوتے ہیں اور نہ ان میں معاشرے کے پُر امن اور خوشحال تصور کی پہچان ہوتی ہے۔ یہ مفادات کے اسیر اور دین کو اپنی نفرت بھرے چشمے اور تعصب بھری نگاہ سے دوسروں پر مسلط کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ انکی دین داری انکے مفادات کی بگڑے ہوئے چہرے کی عکاسی کرتی ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے مفادات جب افغانستان سے زیادہ پاکستان کے عوام اور اس ملک کے قابلِ فخر فوجی اداروں پر حملے کرنے میں انکو زیادہ نظر آئے۔ تو اس کو دین داری اور اپنے بھدے نظریات کا لبادہ پہنا کر سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کی ایک تباہ کن اور خطرناک سازش شروع کردی۔

کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ ::؛ کہ اسلام کے نام پر جان دینے والوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر انکی اپنی نجی اور ذاتی زندگی میں اسلام کا شائبہ تک نہیں ہوتا:ایسی قوتوں کے خلاف ردِّالفساد جیسے آپریشن کا شروع کرنا نہایت ہی خوش آئند ہے۔ اسکے لئے ہماری نیک تمنائیں اور دعائیں ہمارے فوج کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ کیا اسطرح کے آپریشن کیا مسائل کا دائمی حل ہیں۔یا بالفاظِ ایک صحافی دوست کے ہم صرف شاخوں کو کاٹ رہے ہیں جبکہ جڑ کو اُکھیڑنے اور اور اسکی بیخ کنی کرنے کے لئے ابھی ہم نے سوچا ہی نہیں۔

آج جبکہ ان شرپسندوں کے وجود سے ملک و ملت اور پاکستان میں رہنے والے کروڑوں انسانوں کو شدید خطرات لا حق ہیں،۔پاکستان آرمی کا انکے خلاف بھر پور طریقے سے آپریشن شروع کر دیناقابلِ ستائش ہے۔ لیکن اس آپریشن میں ملک کے تمام عوام اور سول حکام کی ساری مشینری اپنے سیاسی مفادات اور ذاتی پسند و نا پسند سے بالا تر ہوکر جب تک ہمارے فوجی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی نہیں ہونگی اور جب تک ہمارے فوجی ادارے اور مقتدر قوتیں ہماری قوم کے زیرک، قوم پرست اور محبِ وطن سول قیادت اور قوم کا دردِ دل رکھنے والے اہلِ فکر و نظر کی آرا ء سے مستفید نہیں ہونگی۔ تب تک ہم اس طرح کے آپریشنز کے خاطر خواہ نتائج سے محروم رہیں گے۔

لیکن اس سے بڑاسوال جو میرے ذہن و فکر کی دنیا کو پریشان کر رہاہے ۔یہ ہے۔ کہ آخر ان انسانیت دشمنوں کے اتنے طاقتور ہونے اور ہمارے خلاف دین کا نام استعمال کرکے ہمارے معاشرے کے امن و سکون کو تباہ کرنے والے ان درندوں کو یہاں تک پہنچانے میں اصل ذمہ دار کون ہیں اور مستقبل میں اس سوچ کا قلع قمع کرنے میں کلیدی کردار کون ادا کر سکتا ہے۔؟( جاری ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے