فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کی اصولی منظوری

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) سے متعلق اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کی اصولی منظوری دے دی۔

وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں ہوا، جس میں فاٹا سے متعلق اصلاحات سمیت دیگر معاملات پر غور کیا گیا۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اجلاس میں فاٹا سے متعلق اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات کی اصولی منظوری دے دی گئی۔

وزیر اعظم نواز شریف نے کابینہ اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ قبائلی علاقوں کے لوگ محب وطن اور پاکستان سے پیار کرنے والے ہیں، وقت آگیا ہے کہ قبائلی علاقوں کے افراد کی محرومی کو ختم کرتے ہوئے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔

اجلاس کے دوران وزیر اعطم نواز شریف نے عوام کی زندگی بہتر اور آسان بنانے کے لیے ملک کے پسماندہ علاقوں کی ترقی پر زور دیا۔

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام کو محصولات سے حصہ فراہم کیا جائے گا، جب کہ ترقیاتی منصوبوں میں ہر کسی کو برابری کی بنیاد پر مراعات فراہم کی جائیں گی۔

کابینہ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے ٹوئیٹ کی کہ کابینہ نے فاٹا اصلاحات منظور کرلیں۔

احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ آج کا دن فاٹا کے عوام کے لیے اہم دن ہے، جو انہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 70 سال بعد فراہم کیا۔

[pullquote]اصلاحات کمیٹی کی سفارشات
[/pullquote]

اصلاحات کمیٹی نے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے سیاسی، اتنظامی، عدالتی اور سیکیورٹی اصلاحات سمیت تعمیرنو اور بحالی پروگرام کی سفارشات پیش کیں تھیں۔

مجوزہ سفارشات کے ڈرافٹ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹا کو 5 سال کے لیے خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے۔

ڈرافٹ میں تحریر کیا گیا تھا کہ فاٹا کے عوام نے گزشتہ 30 سالوں میں جنگ اور بحران کے سوا کچھ نہیں دیکھا، لہذا فاٹا کے عوام اب امن و امان، خوشحالی اور شہری حقوق کے مستحق ہیں۔

[pullquote]قانونی اصلاحات
[/pullquote]

کمیٹی کی سفارشات کے مطابق فرنٹئیر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کا نام تبدیل کرکے فاٹا ریگولیشن ایکٹ 2016 رکھا جائے جس میں جرگہ سسٹم کے تمام سیشن کو ختم کردیا جائے گا، تاکہ عدالت کی جانب سے قانون کے نفاذ اور رواج کے مطابق ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کونسل مقرر کیے جاسکیں۔

[pullquote]قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعداد میں اضافہ
[/pullquote]

عدالت کے اختیارات کو وسیع کرنے کا مقصد آرٹیکل 247 میں ترمیم کرنا ہے تاکہ فاٹا کے عوام کو بنیادی اور شہری حقوق حاصل ہوسکیں۔

کمیٹی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کرنے والے افسران، پولیس کے لیے یونیفارم متعارف کرانے، 10 ہزار نوجوان بھرتی کرنے اور پاک افغان بارڈر مینجمنٹ سیکیورٹی کے لیے اقدامات کرنے پر بھی زور دیا تھا۔

[pullquote]جائیداد کی خرید و فروخت کا ریکارڈ
[/pullquote]

کمیٹی نے فاٹا میں ترجیحی بنیادوں پر سول لاء اور سرمایہ کاری کے لیے جائیداد کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھنے کی تجویز پیش کی، کمیٹی نے ان اصلاحات پر نظر رکھنے کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر، سلامتی کونسل کے مشیر، وزیر سیفران، وزیر قانون اور ایک پاک فوج کے نمائندے پر مشتمل اصلاحاتی کمیٹی بنانے کی تجویز دی ہے تاکہ کمیٹی وزیر اعظم کے ساتھ مل کر ان اصلاحات کا سہ ماہی جائزہ لے سکے۔

[pullquote]اصلاحات کمیٹی کب بنی؟
[/pullquote]

وزیراعظم نوازشریف نے 2015 میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں مشیر برائے قومی سلامتی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصرخان جنجوعہ، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور وزیر سیفران ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبد القادر بلوچ شامل ہیں۔

کمیٹی کے اراکین نے فاٹا کا دورہ کرنے کے بعد قبائلی رہنماؤں سے ملاقات کی تھی جس کے دوران قبائلی اور حکومتی نمائندوں نے مستقبل میں فاٹا میں نئی اصلاحات کو شامل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

[pullquote]فاٹا سے متعلق دیگر جماعتوں کی رائے
[/pullquote]

حکمران جماعت کی اتحادی جمیعت علماء اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ کے اہم حصے کی مخالفت کی تھی جس میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنا بھی شامل تھا۔

جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن نے حال ہی میں دعویٰ کیا کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ان کے اور وزیر اعظم کے درمیان اتفاق رائے قائم ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ضم کرنے’ کے الفاظ کو ‘قومی دھارے میں لانے’ کے الفاظ سے تبدیل کردیا جائے گا اور قومی دھارے میں لانے کا عمل 5 سال بعد شروع ہوگا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا جانا چاہیے، لیکن اس سلسلے میں فاٹا کے عوام سے رائے لی جانی چاہیئے۔

تحریک انصاف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انگریزوں کے زمانے کا نظام ختم کر دیا جائے، وہاں کے قانون میں مقامی سطح پر عوامی شمولیت کی خوبی موجود تھی مگر گزشتہ 10 سال میں یہ نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے.

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا افغان سرحد کے ساتھ واقع ہے اس لیے اس کا الگ صوبہ بننا ممکن نہیں، اسے پختونخوا کا حصہ بننا چاہیے.

اسی معاملے پرجماعت اسلامی 26 فروری کو پشاور میں گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دے چکی ہے، مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ گورنر اقبال ظفر جھگڑا انھیں یقین دہانی کرائیں کہ کابینہ 12 مارچ سے قبل کمیٹی کی رپورٹ منظور کرلے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے