سندھ میں زرداری کاسیاسی جوڑتوڑ اورٹیوئٹر بریگیڈ

پانامہ لیکس فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد ملکی سیاست میں عملاً غیر یقینی صورتحال نظر آرہی ہے ۔ مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور ان کے حامی امید وخوف میں جس طرح مبتلا ہیں اس سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ سیاسی قوتوں کو ملکی سیاست کے استحکام پر یقین کامل نہیں ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ عملًا ساری سیاسی قوتیں کسی بھی فیصلے اور متوقع رد عمل کی تیاری کررہی ہیں۔

اس ضمن میں سندھ میں پیپلزپارٹی کافی متحرک ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے27فروری کو ٹنڈو محمد خان جھرک میں’’سر آغا خان مولاکاتیار پل‘‘کے افتتاحی جلسے میں میڈیا سے گفتگو میں پاناما کیس کے فیصلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ’’ ماضی کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو شریفوں کے خلاف فیصلے نہیں آئے ہیں اور پانامہ کیس کے فیصلے سے زیادہ پر امید نہیں ہو ، پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ پاناماکیس کے فیصلے کے بعد کریں گے ‘‘ان کا اشارہ اپنے والد آصف علی زرداری کے27دسمبر2016ء کے اس اعلان کی جانب ہے جس میں انہوں نے دونوں باپ بیٹوں کے پارلیمنٹ میں جانے کا اعلان کیا تھا، لیکن آصف علی زرداری کے اس اعلان کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزرگیا اب تک آصف زرداری اور بلاول کیلئے نشستیں خالی ہوئی اور نہ ہی آیندہ چند ہفتوں تک اس کے کوئی اثار دیکھائی دے رہے ہیں۔

مبصرین کے مطابق پیپلزپارٹی کی قیادت کو یقین ہے کہ پاناماکیس کافیصلہ وزیر اعظم نوازشریف کے حق میں یا مخالفت میں آئے ہر دو صورت میں عام انتخابات 2017ء میں متوقع ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی تمام تر توجہ سندھ میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے پر مرکوز کی ہوئی ہے ۔ اس وقت عملًا سندھ میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن نہ صرف مستحکم ہے بلکہ دور دور تک کوئی مد مقابل نظر نہیں آرہاہے ۔ماضی میں انفرادی یا مختلف سیاسی گروپوں کی شکل میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے والی مختلف موثر شخصیات صورتحال کو سمجھتے ہوئے پیپلزپارٹی میں شامل ہورہی ہیں ۔گزشتہ دو ہفتوں کا ہی جائزہ لیاجائے تو تحریک انصاف سندھ کے سابق صدر نادر اکمل خان لغاری ، سابق رکن قومی اسمبلی خالد لونڈ،لیاری سے سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول سمیت نصف درجن کے قریب اہم شخصیات نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے ان لوگوں کو اپنے حلقوں اور قرب و جوارکے علاقوں میں موثر سمجھا جاتاہے۔

سابق صوبائی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنماء عرفان اﷲ خان مروت نے بھی24فروری کوبلاول ہاؤس میں آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا،لیکن یہ اعلان نہ صرف عرفان اﷲ خان مروت کیلئے سیاسی سبکی کا باعث بنا بلکہ پیپلزپارٹی کیلئے بھی مشکلات کا سبب بن رہاہے۔ملاقات کے بعد بلاول ہاوس اور خود عرفان اﷲ خان مروت نے شمولیت کا اعلان کیا،لیکن اگلے ہی روز(25فروری کو)آصف علی زرداری کی دونوں بیٹیوں (بختاور اور آصفہ)نے ماضی کے کچھ واقعات کو بنیاد بناکرنہ صرف عرفان اﷲ مروت کی شمولیت کے خواب کو چکنا چور کردیا بلکہ خود آصف علی زرداری کو بھی مشکل میں ڈال دیاہے، اسی لئے 28فروری کو آصف علی زرداری نے بلوچستان حب میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’’عرفان اﷲ مروت سے پرانا واسطہ اوردوستانہ ہے، کراچی میں رہتے ہیں، اٹھنا بیٹھنا ہے،پہلے ایک دفعہ پارٹی میں رہے ہیں، ملاقات ضرور ہوئی مگرپارٹی میں آنے یا نہ آنے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔کچھ لوگوں نے افواہیں پھیلاکر ’’ٹوئٹر بریگیڈ‘‘کو بھڑکا دیا ۔ پارٹی میں کسی کی شمولیت یا کسی کوٹکٹ جاری کرنے سمیت تمام اہم فیصلے پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کرتی ہے میں تنہا نہیں‘‘ ۔ بعض ذرائع کا کہناہے کہ اس مہم کے پیچھے آصف علی زرداری خود ہیں جبکہ عرفان اﷲ مروت نے اس مہم کا اصل الزام پیپلزپارٹی کے سینیٹرسعید غنی پر لگایاہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مہم میں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا بھی پیش پیش ہیں جو سی آئی اے سینیٹر کراچی میں جام صادق کے دور میں عرفان اﷲ خان مروت(مشیرداخلہ تھے) کا مبینہ ظلم سہ چکی ہیں۔

دراصل پیپلزپارٹی کی قیادت عرفان اﷲ مروت کے درمیان تقریبا دوسال قبل معمولات طے پا گئے تھے اور پس پردہ عرفان مروت پیپلزپارٹی میں شامل ہوچکے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے حلقہ انتخاب میں پیپلزپارٹی نے گزشتہ دو سالوں میں ترقیاتی کروائے ۔شمولیت کے لئے حتمی اعلان کیلئے عرفان مروت کو سپریم کورٹ میں جولائی 2014سے موجود اپنی رکنیت کے فیصلے کا انتظار تھا۔ ذرائع کا کہناہے کہ عرفان مروت نے پیپلزپارٹی کے قیادت سے طے کیاتھاکہ ان کی رکنیت بحال ہونے کی صورت میں وہ آیندہ عام انتخابات تک پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کا اعلان نہیں کریں گے ،کیونکہ وہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں تاہم عام انتخابات سے قبل پیپلزپارٹی میں شامل ہوں گے اورکورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں رکنیت نہ بحال ہونے کی صورت میں ضمنی انتخاب پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑیں گے ۔

بعض ذرائع کا کہناہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ آیندہ چند کچھ دنوں میں عرفان مروت کو اپنی رکنیت کے حوالے سے فیصلہ آنے کی امیدہے اور انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ شاید فیصلہ ان کیخلاف آئے گا ،اسی لیے انہوں نے پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کیا، لیکن یہ اعلان ان کے سیاسی قد کاٹ پر بدنما داغ ثابت ہوا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ عرفان مروت کی پیپلزپارٹی میں شمولیت سے نہ صرف سندھ اسمبلی کے دو حلقوں پی ایس 113اور PS114میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن انتہائی مستحکم ہوجاتی ہے بلکہ کراچی میں پنجابی پختون ووٹ کا ایک بڑا حصہ پیپلزپارٹی کی جانب رخ کرتاکیونکہ اس طبقے میں عرفان مروت کافی اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آصف علی زرداری اپنے’’ ٹیوئٹر بریگیڈ ‘‘کی مخالفت کو مد نظر رکھتے ہوئے عرفان مروت مکمل نظر انداز کرتے ہیں یا ’’نظریہ ضرورت کے تحت ٹیوئٹر بریگیڈ‘‘کو مزید ردعمل سے روکتے ہیں اور عرفان مروت اب کیا فیصلہ کرتے ہیں اس کا فیصلہ چند دنوں میں ہی متوقع ہے ۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے سابق صدر نادر اکمل لغاری اور تحریک انصاف کے سابق حمایت یافتہ امیدوار خالد لونڈ کی پیپلزپارٹی میں شمولیت تحریک انصاف کے لیے سندھ میں سخت دھچکا ہے۔ دونوں رہنماء نہ صرف اپنے حلقوں میں بلکہ سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے ملے ہوئے سرحدی علاقوں میں کافی اثر رکھتے ہیں۔ نبیل گبول کی شمولیت سے لیاری میں پیپلزپارٹی نے اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کردی ہے ۔ذرائع کے مطابق مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی ایک فہرست ہے جو پیپلزپارٹی میں شمولیت کے خواہشمند ہیں ۔بظاہر پیپلزپارٹی نے عملًا سیاسی مخالفین کو مشکل میں ڈال دیاہے اور اگر پیپلزپارٹی کیخلاف مستقبل میں کوئی بڑا اتحاد نہ بنا تو پیپلزپارٹی دیہی سندھ میں مکمل کلین سوئپ کرے گی اور شہری سندھ میں ایم کیوایم کے مختلف گروپوں کو سخت مشکل میں ڈال دے گی۔

بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف)اور مسلم لیگ (ف) مسقبل میں بڑے سیاسی اتحاد کیلئے کوشاں ہیں۔اس ضمن میں ف لیگ کے سربراہ پیر صبغت اﷲ شاہ راشدی پیرصاحب پگارااور جمعیت علماء اسلام (ف) کے صوبائی جنرل سیکریٹری مولانا راشد محمود سومرورابطے میں ہیں ۔ ماضی میں سندھ میں مسلم لیگ فنگشنل کو پیپلزپارٹی کی سب سے بڑی حریف رہی ہے، مگر حالیہ دنوں اس کے مختلف رہنماوں کے پارٹی چھوڑنے کے بعد مسلم لیگ (ف) کی پوزیشن کمزورکافی ہوئی ہے اور اب سیاسی مبصرین جمعیت علماء اسلام (ف)کو پیپلزپارٹی کا اصل حریف قرار دے رہے ہیں ۔دیہی سندھ میں جمعیت علماء اسلام(ف) کے اثر میں اضافہ ہورہاہے جس کے اثرات بلدیاتی انتخابات میں بھی دیکھائی دیئے اور عوامی سطح پر بھی محسوس کیاجارہاہے اب دیکھنا یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام(ف) اپنے اس اثر کو مستقبل کی سیاست میں کس طرح استعمال کرتی ہے اور اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کیلئے کیا اقدام کرتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے