فوجی عدالتوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کی اے پی سی بے نتیجہ

اسلام آباد: فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس بظاہر بے نتیجہ رہی کیوں کہ نہ ہی اس میں عدالتوں کی مدت میں توسیع کے فیصلے کی حمایت یا مخالفت کا کوئی حتمی فیصلہ کیا گیا اور نہ ہی اعلامیہ جاری ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق وکلاء سے قانونی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی مخالف ہے لیکن اگر فوجی عدالتوں کی بحالی ضروری ہوئی تو پی پی اپنے تحفظات دور کرنے کے لئے متبادل بل پیش کرے گی۔

فوجی عدالتوں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے تحت آل پارٹیز کانفرںس (اے پی سی) کا انعقاد کیا تاہم اس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نےشرکت نیں کی، جب کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کو مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا۔اے پی سی میں عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماشریک ہوئے۔

اے پی سی کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اے پی سی میں فوجی عدالتوں،فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے اور نیشنل ایکشن پلان (نیپ) سمیت دیگر معاملات پر بھی بات کی گئی۔بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ اے پی سی میں فوجی عدالتوں کی توسیع سے متعلق فیصلہ نہیں کیا گیا، تاہم عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق وکلاء سے قانونی مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے وکلاء سے مشاورت کرنے اور فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق حتمی فیصلہ کرنے کے حوالے سے ٹائم فریم نہیں دیا اور میڈیا سے مختصر بات کرنے کے بعد چلے گئے۔اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اے پی سی کا مقصد فوجی عدالتوں کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں فوجی عدالتوں پر ہم سب کا مشترکہ مؤقف پیش ہو، اگر ہم نے پارلیمنٹ میں علیحدہ یا مشترکہ مؤقف دینا ہے تو بھی اس کا فیصلہ آج ہی کرلیتے ہیں۔آصف زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی تمام سیاسی قائدین کے فیصلے کی تائید کرے گی،فوجی عدالتوں سے متعلق حتمی فیصلہ سب کی مشاورت سے ہونا چاہئیے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ پہلے لفظ ’دہشت گردی‘ کی تشریح کی جائے۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مذہب اور فرقے کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے ہر مسلح گروہ کے خلاف کارروائی کی جائے،ریاست کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے اسے دہشت گردی کے زمرے میں آنا چاہیے۔انہوں نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے کہا کہ اس حوالے سے فاٹا کے عوام سے رائے لی جائے، ان پر فیصلہ مسلط نہ کیا جائے۔

اے پی سی ختم ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران اے ایم ایل کے سربراہ شیخ رشید نے بتایا کہ اے پی سی کو آگاہی دی گئی کہ پہلے ہی ملک کی 8 سیاسی جماعتیں عدالتوں کی توسیع پر متفق ہوچکی ہیں۔اے ایم ایل کے سربراہ نے مزید بتایا کہ آصف علی زرداری نے پاناما پیپرز اسکینڈل کے معاملے پر بھی جلد اے پی سی بلانے کا اعلان کیا۔خیال رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ 28 فروری کو ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع پر متفق ہوچکی ہیں۔

فوجی عدالتوں سے متعلق ہونے والے پارلیمانی جماعتوں کے اس اجلاس میں پیپلز پارٹی شریک نہیں ہوئی تھی، تاہم اس سے پہلے ہونے والے فوجی عدالتوں سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے تمام اجلاسوں میں پی پی کے نمائندے شریک ہوتے رہے ہیں۔اس اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک اور قوم کے مفاد میں فیصلہ کیا۔وزیر خزانہ نے فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی پر اتفاق کرنے اور حکومت کی حمایت کرنے پر تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ 4 مارچ کو پیپلز پارٹی بھی قوم کے مفاد میں فیصلہ کرے گی۔ ملک میں گزشتہ ماہ یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں کے بعد فوجی عدالتوں کی ضرورت کا احساس بڑھا، جس کے بعد بظاہر تمام سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی 2 سالہ توسیع پر متفق ہوئیں۔

[pullquote]فوجی عدالتوں کا قیام کب ہوا اور کب ان کی مدت ختم ہوئی؟
[/pullquote]

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کی 2 سالہ خصوصی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی سے پر سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان ان کی دوبارہ بحالی پر اتفاق نہیں کیا جاسکا۔فوجی عدالتوں کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔عدالتوں کا قیام 7 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے بعد عمل میں لایا گیا، جن کی 2 سالہ مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوچکی ہے۔

پیپلز پارٹی نے کثیر الجماعتی کانفرنس پر میڈیا کو اپنا بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینزنے فوجی عدالتوں کی بحالی کی مخالفت کر دی ہے اور اگر یہ عدالتیں قائم کرنی ہی پڑیں تو اس کے لئے نیا قانون بنائے گی تاکہ انسانی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے، ملزمان کا منصفانہ ٹرائل یقینی بنایا جائے اور اسے سیاسی انتقام کے لئے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے کثیرالجماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کی اور اسے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی صحافیوں سے زرداری ہاﺅس کے بارہ گفتگو یں دہرایا۔ اس ملٹی پارٹی کانفرنس میں 13سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اور نمائندگان نے شرکت کی جن میں پی ایم ایل(ق) کے چوہدری شجاعت حسین، جے یوآئی(ف) کے مولانا فضل الرحمن، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد شیرپاﺅ، اے ای پی کے غلام احمد بلور، جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق، فاٹا کے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی، بی این پی عوامی کے اسرار اللہ زہری، نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجو، عوامی مسلم لیگ کے شیر رشید احمد، سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا، پاکستان عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈاپور، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سید شجاعت بخاری اور مجلس وحدت المسلمین کے علامہ راجہ ناصر عباس شامل تھے۔

آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ پی پی پی کی ٹیم میں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن، سینیٹ کے سابق چیئرمین اور قانونی ماہر فاروق نائیک، سینیٹر شیری رحمن، پی پی پی کے سیکریٹر جنرل سید نیر حسین بخاری، سینیٹر سردار علی خان، سینیٹر قیوم سومرو، سابق صدر کی پولیٹیکل سیکریٹری رخسانہ بنگش اور پی پی پی پی کے سیکریٹر جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر شامل تھے۔ اس ملٹی پارٹی کانفرنس کا ایجنڈا فوجی عدالتوں کی بحالی، نیشنل ایکشن پلانت پر عملدرآمد، قبائلی علاقوں کے لئے اصلاحات اور پختونوں کی ملک کے مختلف علاقوں میں پروفائلنگز کے معاملات شامل تھے۔

سیاسی پارٹیوں کے کہنے پر آصف علی زرداری نے فوجی عدالتوں کے قیام کی صورت میں اس کے لئے قانونی مسودہ فوری تیار کرنے کی ذمہ داری سینیٹر فاروق نائیک کو سونپی۔ انہوں سید خورشید احمد شاہ اور اعتزاز احسن سے کہا کہ وہ اس قانون مسودے کی تجاویز دیگر سیاسی پارٹیوں کو مہیا کریں۔ فاٹا ریفارم کے متعلق آصف علی زرداری نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں اصلاحات سب سے پہلے پیپلزپارٹی نے شروع کیں اور اصلاحات کے عمل کا راستہ ہموار کیا اور ایف سی آر کی اصلاحات کی بات کی کہ وہاں سیاسی پارٹیاں آزادانہ طور پر کام کر سکیں اور اس کے لئے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ءکو فاٹا تک توسیع دی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان اصلاحات پر عملدرآمد پانچ سال کی تاخیر حکومت کی غیرسنجیدگی ظاہر کرتی ہے اور قبائلی علاقوں کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ انہوں نے فاٹا اصلاحات پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کیا۔ سابق صدر نے نیشنل ایکشن پلان کی مختلف شقوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی بھی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کا احتساب کیا جائے۔

کانفرنس کے بعد زرداری ہاﺅس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے فوجی عدالتوں کے متعلق پیپلزپارٹی کے تحفظات پر بات کرتے ہوئے کہ صرف دہشتگرد تنظیموں اور گروپوں کا سرسری ذکر ناکافی ہے اور فوجی عدالتوں کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے جو شرائط ہیں ان کو بھی بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 10-A کے منصفانہ ٹرائل یقینی بنانا شامل ہے اور ملزم کو اس کی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت دینا ضروری ہے۔ ملزم کو اپیل کرنے کا حق ہے اور فوجی عدالتوں میں مبصر کی منظوری ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ سکہ بند دہشتگرد کی تعریف کیا ہے اور جن 161افراد کو پھانسی دی گئی تھی ان میں کتنے سکہ بند دہشتگرد تھے۔ ان میں کتنے ملزموں کو مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت دی گئی، کتنے لوگوں نے الزام کو ماننے سے انکار کیا اور فیصلے اور شہادتوں کی نقل فراہم کی گئی یا نہیں؟ کتنے لوگوں کو بغیر ثبوت کے صرف اعترافی بیان پر پھانسی دی گئی اور اس بات کو کہاں تک یقینی بنایا گیا کہ اعترافی بیان تشدد کے ذریعے حاصل نہیں کئے گئے؟

انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتیں کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کے مسئلے سے ہٹانے کے لئے قائم کی جارہی ہیں اور یہ وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی فوجی عدالتوں کی مخالفت کر رہی ہے۔ فاٹا اصلاحات پر پارٹی کی پالیسی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فاٹا میں صدر کا حکم اور ایف سی آر برطانوی نظام کا حصہ ہے اور ریفارم کے پیکیج میں اس کالونیل ڈھانچے میں ختم کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ ایف سی آر کے متبادل رواج ایکٹ کو ابھی تک سامنے نہیں لایاگیا اور پارٹی نے مطالبہ کیا کہ رواج ایکٹ کو پارلیمنٹ کے سامنے لیا جائے تاکہ پارلیمنٹ فاٹا میں قانون سازی کر سکے۔ رواج ایکٹ متعارف کرانے اور فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے سے صوبے میں تین قوانین بیک وقت لاگو ہوں گے۔ ایک اضلاع کے لئے، دوسرا پاٹا کے لئے اور رواج ایکٹ فاٹا کے لئے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف علاقوں کے لئے متعدد قوانین کبھی بھی اچھا شگون نہیں ہوتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے